0
Thursday 3 Dec 2009 12:12

امریکہ کی نئي افغان پالیسی اور پاکستان کا مستقبل

امریکہ کی نئي افغان پالیسی اور پاکستان کا مستقبل
آر اے سید
دو ہزار نو کا امن کا نوبل انعام جتنے والے باراک اوباما نے افغانستان میں مزيد تیس ہزار امریکی فوجی بھیجنے کا اعلان کر کے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ امن کا نوبل انعام امن پھیلانے والوں کو نہیں بلکہ امن کو تباہ کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔امریکی صدر نے افغانستان کے بارے میں نئی حکمت عملی کا اعلان کر کے عالمی تجزیہ نگاروں کے اندازوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے جو اوباما سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔تبدیلی کے نعرے کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں پہنچنے والے باراک اوباما نے نہ عراق،نہ افغانستان اور نہ ہی کسی دوسرے عالمی بحران کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی لائي ہے۔باراک اوباما نے پہلے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ وہ عالمی سطح پر جاری یکطرفہ امریکی پالیسیوں کو تبدیل کریں گے۔انہوں نے عراق سے افواج واپس بلانے اور بدنام زمانہ گوانتانامو بے ٹارچرسیل بند کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن بقول شاعر کے : " وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا"
کافی انتظار کے بعد بالآخر امریکی صدر نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں ایک خطاب کے دوران افغانستان کے بارے میں امریکہ کی نئی حکمت عملی کااعلان کرہی دیا ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا: پاکستان میں القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو ناقابل برداشت ہیں۔افغان جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے اور اب شدت پسندوں سے کراچی،اسلام آباد اور پورے پاکستانی شہریوں کو خطرہ ہے۔امریکا پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔نائن الیون سے شروع ہونے والی جنگ صرف امریکا کی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی سیکورٹی داؤ پر پر لگي ہوئی ہے۔افغانستان کو بلینک چیک دینے کے دن پورے ہوئے۔انہوں نے مزيد کہا کہ افغانستان کی صورتحال ویت نام جنگ کی طرح نہیں۔افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ امریکا کے مفاد میں نہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ امریکا افغان جنگ کے اخراجات مزيد برداشت نہیں کر سکتا۔امریکا اور اسلامی دنیا میں محاذ آرائی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ اس وقت بھی نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔جس کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ افغان جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن نائن الیون میں امریکیوں کا قتل کیا گیا۔افغانستان میں صورتحال انتہائي خراب ہے۔تاہم افغانستان میں کامیابی پاکستان سے منسلک ہے۔اس موقع پر امریکی صدر نے افغانستان میں مزيد 30 ہزار امریکی فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا۔مزيد فوج بھیجنے کا مقصد شدت پسندی ختم کرنا ہے۔پاک فوج کی تعریف کرتے ہوئے باراک اوباما کا کہنا تھا کہ پاک فوج ایک بڑے آپریشن میں مصروف ہے۔افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء جولائی 2011ء سے شروع ہو گا۔انہوں نے مزيد کہا کہ افغانستان میں دنیا کا امن اور اتحادیوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ شدت پسندوں کے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائي کے خدشات ہیں۔القاعدہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی خواہش مند ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔تاہم افغان جنگ کے کامیاب خاتمے کے لئے اتحادیوں کو ساتھ دینا ہو گا۔
امریکی صدر کے اس خطاب کے ہر نکتہ پر ایک علیحدہ مضمون لکھا جا سکتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمت عملی کا اعلان افغانستان کے بارے میں کیا گيا ہے لیکن ذکر سب سے زيادہ پاکستان کا ہے ۔
باراک اوباما نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان منتقل ہو چکے ہیں لہذا اب پاکستان کے مختلف شہروں کو تورا بورا بننے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔
امریکی صدر نے اپنی گفتگو میں یہ کہہ کر چونکا دیا ہے کہ افغانستان کو بلینک چیک دینے کے دن پورے ہو چکے ہیں امریکی صدر ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ان کا اشارہ افغان صدر حامد کرزئی کی طرف ہے یا ان خفیہ اداروں،مذہبی جماعتوں اور خفیہ محکموں کی طرف ہے جو افغان جہاد،طالبان اور القاعدہ کے نام پر امریکی ڈالروں کو سمیٹتے رہے ہیں۔بعض تجزيہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ افغان حکومت،طالبان اور القاعدہ کا مقابلہ کرنے والے بعض اداروں میں پائي جانے والی مالی بے ضابطگیوں کی کوئی تازہ رپورٹ باراک اوباما کے سامنے لائي گئی ہے جس نے انہیں مجبور کر دیا کہ ان پارٹیوں،جماعتوں اور گروپوں کو آئندہ کے لئے یہ پیغام دے دیں کہ اب طالبان جنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بلینک چیک نہیں دیئے جائیں گے۔پاکستان اور افغانستان کے حالات پر معمولی نظر رکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کونسی مذہبی جماعتوں،کونسے لیڈروں اور کن کن جرنیلوں نے امریکی ڈالروں سے اپنی زندگی کی تاریکیوں کو رنگینوں میں بدلا ہے امریکہ کی نئي افغان پالیسی میں ایک بار پھر پاکستان پر کیوں تمرکز کیا گيا ہے اس سلسلے میں یہی کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں گزشتہ آٹھ سالوں سے مصروف عمل ہے اس کا ہدف افغانستان میں امن و امان نہیں تھا بلکہ اسکا بنیادی ہدف اس خطے میں اپنی فوجی موجودگي کو جواز بخشنا تھا وگرنہ کون نہیں جانتا کہ طالبان اور القاعدہ کا اصلی خالق کون ہے؟ 
یہ بات اب کس سے پوشیدہ رہی ہے کہ القاعدہ کی قیادت کو محفوظ رکھنے میں امریکی سی آئی اے اور پاکستان کے خفیہ اداروں کا کیا کردار رہا ہے ؟ اب تو امریکی اداروں نے بھی اپنی رپورٹوں میں اس بات کا اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ تورا بورا حملے کے وقت اسامہ بن لادن امریکی فوجیوں کی پہنچ میں تھے لیکن انہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرف فرار کے لئے محفوظ راستہ دیا گيا تھا۔ امریکہ افغانستان میں اپنے ہر فوجی پر سالانہ دس لاکھ ڈالر  خرچ کر رہا ہے۔کیا امریکی حکام پاگل ہیں کہ وہ اپنی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر کے اور اپنے قیام میں اضافہ کر کے اربوں ڈالر کو افغانستان کے پہاڑوں اور کوہستانوں پر ضائع کر دیں جبکہ وہ داخلی طور پر سخت اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔بہرحال امریکہ کی نئی افغان پالیسی افغانستان سے زيادہ پاکستان کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ امریکی صدر نے دہشت گردی میں اضافہ اور دہشت گردوں کی اسلام آباد،لاہور اور کراچی میں موجودگي کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو لاحق خطرات کا بھی شد و مد سے ذکر کیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے تازہ دم تیس ہزار فوجی پاکستان میں موجود بلیک واٹر یا ژی نامی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ملکر پہلے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر قبضہ کرتے ہیں یا اسلام آباد،لاہور اور کراچی جیسے شہروں پر ڈرون حملے یا فوجی کاروائیاں انجام دے کر اپنے دیرینہ منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 16278
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش