0
Friday 18 May 2012 13:10

جہاد حق

یوم تاسیس
جہاد حق
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
وقت جس تیز رفتاری سے ہمیں پچھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے ہم اس کی سرعت و تیزی کو عموماً محسوس نہیں کر پاتے، ہاں اس کی رفتار اور آگے چلے جانے کا احساس اور اندازہ اس وقت ہمیں ضرور ہوتا ہے جب کوئی خاص بات، یادگار واقعہ، اہم معاملہ اور ناقابل فراموش حادثات کی یاد ہمارے ذہنوں پر منقش یادداشتوں کے گوشے سے آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں، جیسے کسی بزرگ کی برسی کے ایام یاد آئے تو ہم حیرانی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔آہ۔۔۔ 16 برس بیت گئے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو ہم سے جدا ہوئے، اس وقت ہم یہ احساس کرتے ہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا، ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے وقت ہم سوچتے تھے کہ ملت کیسے آگے بڑھے گی، اور تنظیم کیسے اپنا سفر جاری رکھ سکے گی۔۔۔ بالکل اسی کیفیت و احساس کے ساتھ ہر سال مئی کا مہینہ آتا ہے تو ہمیں جہاں دیگر بہت سی یادیں تڑپاتی اور احساس دلاتی ہیں، وہاں 22 مئی کا دن عجیب طمانیت اور احساس تشکر کے ساتھ ہماری زندگیوں میں وارد ہوتا ہے۔
 
22 مئی 1972ء کو پاکستان کے امامیہ طلباء نے جس سفر کا آغاز لاہور سے کیا تھا، اس کی ایک تصوراتی فلم ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اس دن انجینئرنگ یونیورسٹی، ہیلی کالج، گورنمنٹ کالج لاہور سمیت لاہور کے 17 کالجز کے بلند فکر حسینی جوانوں نے فکرِ کربلا کی روشنی میں حق و باطل کے معرکے میں حق کی طرفداری کا عَلم اُٹھاتے ہوئے عزم و ہمت اور جذبۂ و قوت کا اظہار ہماری چشم تصور میں سامنے آجاتا ہے۔ آج کا وہ نوجوان جو آئی ایس او پاکستان میں کسی بھی ذمہ داری پر کام سرانجام دے رہا ہے، اس کے قلب و ذہن میں اپنے سینئرز اور بانیان کیلئے بلند مقام اور عزت و شرف موجود ہے، جو احباب و بزرگان آج بھی ان محافل میں شریک ہوتے ہیں ان کی قدر و منزلت اور مقام و عزت اور احترام دیا جاتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ ان بزرگان نے ان نوجوانوں کیلئے ایک ایسے کارواں کی بنیاد رکھی، جو انہیں شعور و فکر کی بلندیوں، تقویٰ و پرہیز گاری کی منازل طے کرنے اور نظم و ضبط کے عالمگیر دائرے میں لا کر احساسِ تشکر سے سرفراز کر رہا ہے۔
 
آئی ایس او پاکستان نے 1972ء میں اپنے قیام سے لے کر آج مئی 2012ء میں اپنے 40ویں یوم تاسیس تک مختلف میدانوں میں ان گنت کارنامے سرانجام دیئے، ان خدمات کی فہرست بہت طویل ہے، جو اس پلیٹ فارم کی برکات سے سرانجام دی گئیں اور ان قربانیوں کا سلسلہ بھی طوالت پر مبنی ہے جو اس کاروان کے پلیٹ فارم پر اس سے وابستہ کارکنان و راہنمایان اور برادران و خواہران نے مقصد کے حصول کی خاطر اس دوران دیں۔۔۔۔ ہاں طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک بات کا ذکر کرتا ہوں کہ پاکستان کے شیعہ دینی ماحول، تنظیموں کے تحرک، اداروں کے وجود، علماء کی صف بندی و نظم، مدارس دینیہ کے فروغ اور دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی شیعہ نوجوان دینی و تنظیمی، ادارہ جاتی امور کی ذمہ داریوں اور فرائض سے عہد برآں ہو رہے ہیں، ان کے ظاہر یا پس پردہ اس الٰہی تنظیم کی کارکردگی، سوچ، فکر اور عمل کو ضرور محسوس کیا جائے گا۔ حق کا کوئی بھی طرفدار، سچ کا کوئی بھی دعویدار، تعصب سے کوئی بھی بیزار، اس حوالے سے آئی ایس او پاکستان کے اس کارکن جو علماء و دانشوروں کو ٹوٹی پھوٹی بائیسکل پر بٹھا کر یا پھر پجارو و لینڈ کروز گاڑیوں کے جھرمٹ میں اپنے وجود کے سایے میں انہیں عوام میں لا کر ان سے دین کی باتیں سننے اور تقویٰ و نظم کی مہک سے معطر ہونے کی تڑپ میں خاک آلودہ ہوتا، ایسے برادران کے خلوص اور محنتوں کا اعتراف کیے بنا نہیں رہ سکتا۔
 
عالمی اسلامی انقلاب کیلئے کی جانے والی کوششوں کا حصہ بن کر اس تنظیم کے مخلص کارکنان نے جس جانفشانی سے اسلامی انقلاب اور اس کے بانی کی فکر اور پیغام کو گاؤں گاؤں ،قریہ قریہ پہنچایا ہے اس کی برکات و ثمرات آج پوری دنیا میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ علامہ اقبال رہ نے فرمایا تھا کہ:
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے

آئی ایس او بھی فکر اقبال رہ کی پیروی میں حدود و قیود سے بلند ہو کر عالمی فکر و فلسفہ اور سوچ کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملت پر جب بھی کوئی مشکل آن پڑی تو ہر صاحب بصیرت کی نگاہ آخر اس کارروان الٰہی کی جانب ہی اُٹھتی ہے، اس تنظیم کے تعارف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کی خدمات گنوانے کی احتیاج ہے۔ میرے خیال میں تنظیم کی پرانی نشر و اشاعت میں جو چارٹ اس عنوان سے شائع ہوا تھا "آئی ایس او کیا ہے" وہ اس تنظیم کاماضی، حال اور مستقبل ہے۔ اس سے زیادہ جامع اور خوبصورت تعارف ہو ہی نہیں سکتا، آیئے یوم تاسیس کے عظیم موقع پر اس خوبصورت مختصر مگر جامع تحریر کو سوچ و فکر کی گہرائی سے پڑھیں اور ان برادران و بزرگان اور علمائے کرام کو خراج عقیدت اور سلام محبت پیش کریں، جنہوں نے اس نعمت الٰہی سے ہمیں روشناس کروایا۔
 
آئی ایس او کیا ہے۔؟
ایک تنظیم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بکھرے ہوؤں کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے
ایک انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندھیروں سے اُجالوں میں آنے کیلئے
ایک تحریک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ دلوں میں زندگی کی تڑپ پیدا کرنے کیلئے
ایک فکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچنے والوں کیلئے
ایک قافلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جادہ حق پر چلنے والوں کیلئے
ایک پلیٹ فارم ہے۔۔۔۔۔۔ملک کو اوجِ ثریا پر پہنچانے کیلئے
ایک عزم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیلئے
ایک نعمت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوجوانانِ ملت کیلئے
ایک وقار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قومی تشخص کیلئے
ایک دلیل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتح و کامرانی کیلئے
ایک مشعل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاریک راہوں کیلئے
ایک کوشش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔صراطِ مستقیم کیلئے
ایک کشش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیکو کاروں کیلئے
ایک جذبہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاد فی سبیل اللہ کیلئے
ایک تصور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلاحی معاشرے کے قیام کیلئے
ایک خواہش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھرنے کیلئے
 
اور اس کے بعد قائد شہید سید عارف حسین الحسینی رہ کی زبانی آئی ایس او کے نوجوانوں بارے احساسات!
"برادران عزیز! میں آپ کے مبارک چہروں پر جب نظر کرتا ہوں تو آپ کے چہروں پر مجھے اسلامی عکس دکھائی دیتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر صحیح معنوں میں مسلمان نوجوان ہیں تو ہمارے یہی نوجوان ہیں، جو آئی ایس او پاکستان کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں۔ یہی صحیح مسلمان ہیں جو خدا، رسول ص اور اسلام و قرآن اور اہلبیت اطہار ع کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ نہ مجھ سے اور نہ کسی اور سے شاباش کہنے کی توقع بھی نہیں رکھتے۔
برادران عزیز! آپ کا تعارف پاکستان میں علمائے کے درمیان اور دوسرے حلقوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ہوا ہے تو پھر آپ کیلئے شائستہ اور زیبا یہی ہے کہ آپ کا کردار آپ کی گفتار اور آپ کا سب کچھ اسلامی اخلاق کے مطابق ہو۔ 

آپ خود سوچیں اور یوم تاسیس، یوم جائزہ و احتساب کے طور پر بھی منائیں۔ کیا واقعی ہم باہم، ملت و قوم منظم اور ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، اگر کوئی کمی بیشی دکھائی دے تو اس کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے، آیا ہم حقیقت میں انقلاب و تبدیلی کے پیامبر ہیں، ہم ذاتی و اجتماعی طور پر اندھیروں سے اُجالوں کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، آیا ہم واقعاً مردہ دلوں میں زندگی کی روح اور تڑپ پیدا کر رہے ہیں۔ آیا ہم وہ فکر پھیلا رہے ہیں جو سوچنے پر مجبور کر دے، آیا ہم اسی قافلہ کو ترتیب دے رہے ہیں جو حق کی شاہراہ پر گامزن ہے، آیا ہمارا پلیٹ فارم اس ارض وطن کو بلندیوں پر پہنچانے کا باعث ہے اور ہمارا عزم نیکی پھیلانے اور برائی سے منع کرنے کیلئے قائم ہے، آیا ہمارا وجود ملت کے نوجوانوں کیلئے زحمت ہے یا رحمت۔
 
آیا ہم ملکی و قومی تشخص کیلئے باعث وقار ہیں یا ننگ و عار، آیا ہم فتح و کامرانی کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں یا شکست و ریخت و ٹوٹ پھوٹ سے دوچار گروہوں کی مانند، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہم تاریک راہوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشن چراغ اور مشعل کی مانند ہیں، ہمیں یہ جائزہ لینا ہو گا کہ ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں یا راستہ بھول چکے ہیں، آیا ہمارا کردار خدا کے نیک اور پرہیز گار بندوں کیلئے بھی کسی جاذبہ کا باعث ہے، آیا ہمارے اندر خدا کی راہ میں جہاد کا جذبہ کار فرما ہے، آیا ہم فلاحی معاشرے کے قیام کے تصور کو عملی کرنے کیلئے کوشاں ہیں یا نہیں اور ہمارا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک طاقت ور مضبوط قوم و ملت بن کر دنیا پر چھا جانے کیلئے آئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 162970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش