2
0
Tuesday 29 May 2012 18:12

اسلامی بیداری کا شعلہ فروزاں

اسلامی بیداری کا شعلہ فروزاں
تحریر: ثاقب اکبر

اللہ کا وعدہ ہے کہ اُس کا نور چھا کر رہے گا، باطل اپنے تاریکیوں کے پر سمیٹ کر فرار ہوگا، حق کا بول بالا ہوگا۔ یہ جذباتی نوجوانوں کے نعرے نہیں ہیں۔ اللہ کے وعدے ہیں جو اس نے اپنی کتاب برحق میں کئے ہیں۔ وہی کتاب جس کی بہت سی پیش گوئیاں پوری ہوچکی ہیں اور جو ہر دور میں اپنی تازہ بہ تازہ اعجاز نمائیوں کے ساتھ زندہ ہے۔
 
انسان اور کائنات کو فقط مادی نظر سے دیکھنے والوں نے اگرچہ وقتی طور پر اپنی جادوگری اور سحر آفرینی سے ظاہر بین نگاہوں کو چندھیا دیا ہو، لیکن موسوی اعجاز حق کے سامنے ان کی مار نما رسیوں کی حرکت کس قدر بے مایہ ہے، تاریخ انسانی کے ہر مرحلے پر ساحروں کی سجدہ ریزیوں سے آشکارا ہے۔ دور حاضر میں بھی حق کے جلوے یکے بعد دیگرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اشتراکیت کے تریاقِ بے باک کا حساب کب سے بے باق ہو چکا اور سوویت یونین کا بکھرا ہوا شیرازہ وجود خدا کا انکار کرنے والوں سے ابھی تک جواب طلب ہے۔
 
دوسری طرف سرمایہ داری نظام نے اشتراکیت کے زوال پر بغلیں بجانا شروع کیں اور تاریخ کے اختتام کا اعلان کر دیا۔ تاریخ چونکہ معرکوں اور مقابلوں کے سہارے آگے بڑھتی ہے، اس لیے اس نے سمجھا کہ اب مقابلے کی طاقت کے زمین بوس ہو جانے کے بعد تاریخ کا پہیہ جام ہو گیا ہے۔ اسی لیے سرمایہ داری نظام کے بڑے نے ”انا ولا غیری“ کا نعرہ بلند کر دیا۔ شاید ”ہم چنان دیگری نیست“ اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ 

یہ نعرہ ابھی گونج ہی رہا تھا کہ بعض ”سیانوں“ نے سمجھایا کہ ابھی اسلام اور مسلمانوں میں کچھ دم خم باقی ہے۔ ابھی ان میں کچھ لوگ ہیں جو دم سحر اشکوں سے وضو کرتے ہیں اور عالمی سطح پر اسلام کی سربلندی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی نیندیں اڑانا اور ان کے خواب چکنا چور کرنا ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ستاون ریاستوں میں منقسم جاہل یا نیم خواندہ اکثریت پر مشتمل مسلمانوں کے وسائل لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ بس چند ایک بگڑے ہوﺅں کو سیدھا کرنا ہوگا۔ 

”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ اس نئی ستیزہ کاری کا عنوان قرار دیا گیا اور پھر کیا تھا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تو پہلے ہی استعمار کی باندی اور ناٹو اس کا ہتھیار ہے، جہاں جس کی ضرورت تھی اسے استعمال کر لیا۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے نام پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ ڈیڑھ ملین سے زیادہ انسانوں کو موت کی آغوش میں سلا دیا گیا۔ افغانستان پر چڑھائی کے لیے القاعدہ کی موجودگی کو جواز بنایا گیا۔ ان افغان عوام کا بے رحمی سے خون بہایا گیا، جن کی نائن الیون کے معاملے شرکت کا الزام خود امریکی بھی نہیں لگاتے۔
 
اِدھر یہ ستم پر ستم جاری تھا اور اُدھر پروردگار کی ظریف حکمتیں اپنا منصوبہ آگے بڑھا رہی تھیں۔ آج یہ منصوبہ اپنے کئی ایک پہلوﺅں کے ساتھ دارائے بصیرت نگاہوں کے سامنے آچکا ہے۔ اس کے کچھ اشاروں کا ذکر کرتے ہیں:
 
٭ 1979ء میں ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب استعماری طاقتوں کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود نہ فقط خم ٹھونک کر مقابلے میں کھڑا ہے بلکہ دل و دماغ کو تسخیر کرتے ہوئے پیش قدمی کر رہا ہے۔
 
٭ عراق میں ایک لاکھ پینسٹھ ہزار امریکی اور ساٹھ ہزار سے زیادہ برطانوی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود انتخابات میں ایسی قیادت برسراقتدار آئی، جس نے بالآخر استعماری فوجوں کو خاسر و نامراد ہو کر عراق سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ امریکی مقاصد کے برعکس آج عراق اور ایران کے درمیان اعتماد اور تعاون کے رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ گذشتہ کئی سو سالہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔
 
٭ تیونس سے 2010ء کے آخر میں عرب عوام کے اندر آزادی اور بیداری کا ایک ایسا چشمہ پھوٹا کہ جس نے دور دور تک عرصے سے بنجر دکھائی دینے والے اسلامی سرزمینوں کو نہاں کر دیا۔ 

٭ مسلمان عوام پر مسلط استعماری ایجنٹوں کے بت ایک ایک کرکے زمین بوس ہونے لگے۔ تیونس کا بن علی، مصر کا حسنی مبارک اور یمن کا عبداللہ صالح اسی انجام سے دوچار ہوئے جو تاریخ نے فرعونوں کے لیے لکھ رکھا ہے۔
 
٭ 2006ء میں اسرائیل کی شکست کے بعد سے لے کر آج تک لاکھوں یہودی اسرائیل کو چھوڑ کر اپنے انہی ملکوں میں واپس جا چکے ہیں جہاں سے لاکر انھیں اسرائیل میں بسایا گیا تھا، تاکہ یہودیوں کی آبادی کو بڑھا کر مظلوم فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ مضبوط کیا جائے۔ ریت پر بنے ہوئے صہیونی محل کی دیواریں کمزور پڑ چکی ہیں اور وہ کسی بھی وقت زمین پر آ رہے گا۔ 

عالم اسلام میں اٹھنے والی بیداری کی تحریک جس کی روح اسلامی ہے، اسے عرب بہار کہنے والے جتنی بھی خوش فہمی میں مبتلا رہیں یا انسانی افکار کو مبتلائے فریب کرنے کی جتنی بھی کوششیں کرلیں، لیکن تبدیلیاں جو شکل اختیار کر رہی ہیں اور مسلمان عوام جس انداز سے تمام تر اسلامی مظاہر کے ساتھ میدان میں آچکے ہیں وہ حقائق کو طشت ازبام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عالم اسلام پر ہی کیا بس ہے سرمایہ داری نظام کے خلاف خود امریکا اور یورپ میں جو عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہ مستکبرین پر مستضعفین کے غلبے کی نوید دے رہی ہے۔ 

27 مئی کو پشاور میں منعقد ہونے والی عظیم کانفرنس اسی نوید کا تسلسل قرار پا گئی ہے جس کا عنوان ہر مسلمان کے دل میں امید کی ایک نئی شمع روشن کیے دیتا ہے، یعنی ”عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید“۔ پشاور میں اس کانفرنس کا انعقاد ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان پرعزم ہیں کہ وہ خوف کو امن میں بدل دیں گے، مایوسیوں کو امید سے تبدیل کر دیں گے اور اللہ کی مدد سے اندھیروں پر اجالوں کو غالب کردیں گے۔ اس مقصد کے لیے مسلمان بنیادی نقطہ بہت اچھی طرح سے جان چکے ہیں اور وہ ہے ”اتحاد بین المسلمین“ جس کا شاندار مظاہرہ اس کانفرنس کے موقع پر کیا گیا۔ 

کانفرنس میں شرکاء اور اکابرین کے افکار اور جذبوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اسلامی بیداری کی لہر جو تہران سے اٹھی تھی اور عرب دنیا کے گلی کوچوں تک جا پہنچی تھی، وہی لہر آج پشاور میں اپنی تاثیر دکھا رہی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے ممتاز علماء، دانش ور اور جوان سب اکٹھے تھے۔ انتظامیہ میں بھی تمام مسالک کے جوان ایک ہی جوش و جذبہ سے مصروف کار دکھائی دے رہے تھے اور اسٹیج پر بیٹھے اکابرین میں سے جو بھی روسٹرم پر آتا دوسرے اس کی بات سن کر یہی محسوس کرتے”میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“۔
 
کانفرنس میں قاضی حسین احمد (سابق امیر جماعت اسلامی)، علامہ سید ساجد علی نقوی (سربراہ اسلامی تحریک پاکستان)، علامہ محمد امین شہید (ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین)، صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن (امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل)، ڈاکٹر حافظ ابتسام الٰہی ظہیر (ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث پاکستان)، صاحبزادہ ابو الخیر زبیر (سربراہ جمعیت علمائے پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز (وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی)، ڈاکٹر علامہ راغب حسین نعیمی (پرنسپل جامعہ نعیمیہ لاہور)، جنرل(ر) حمید گل (مرکزی راہنما دفاع پاکستان کونسل)۔

مرزا یوسف حسین (کراچی)، سید فقیر حسین بخاری (سینئر نائب صدر پاکستان مسلم لیگ ق)، ڈاکٹر فرید پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)، ڈاکٹر غیرت بہیر، مولانا محمد رمضان توقیر (صدر اسلامی تحریک خیبرپختونخوا)، غلام محمد صفی (راہنما حریت کانفرنس کشمیر)، پروفیسر عبدالرﺅف ظفر (سربراہ شعبہ علوم اسلامیہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سرگودھا)، قاضی احمد نورانی(سرپرست فلسطین فاﺅنڈیشن)، مولانا اصغر درس (کراچی)، حمید اختر نیازی (سربراہ رابطة امن الامة)۔
 
مولانا سید العارفین (مہتمم مرکز علوم اسلامیہ پشاور)، بحراللہ ایڈووکیٹ (امیر جماعت اسلامی پشاور)، صابر حسین اعوان (سابق رکن قومی اسمبلی )، عبداللہ گل(سربراہ میثاق راولپنڈی)، مولانا مقصود احمد سلفی (پشاور)، سکوارڈن لیڈر (ر) پیر سید مخدوم گیلانی (سربراہ مرکزی جمعیت مشائخ پاکستان)، مفتی گلزار احمد نعیمی (سربراہ جامعہ نعیمیہ اسلام آباد)، حافظ محمد طیب قریشی (خطیب جامع مسجد مہابت خان پشاور)ا وردیگر بہت سے اکابرین شریک تھے۔
 
جہاں دیدہ اور مردم شناس سب نگاہیں اس بات پر متفق تھیں کہ تاریخ پاکستان میں ایسا منظر خال خال ہی دکھائی دیا ہے اور شاید پشاور کی سرزمین نے تو پہلی بار محبت و آشتی کے پھول ایک ہی وقت میں ایک چمن میں اس طرح سے کھلے دیکھے ہیں۔ دیر تک اس کانفرنس کی یادیں ہی دلوں میں نہیں رہیں گی بلکہ وہاں سے پھوٹنے والا جذبہ اس پاک سرزمین کے سب دلوں کو گرمائے گا اور سب آنکھوں کو روشن تر کر دے گا اور عالمی سطح پر حق کے غلبے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 166618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
mashallah bahot achi kawish hai al baseerah traust ki janib sy ..... ittehad bainul muslimeen ka jo khawb quaid shaheed ny dekha tha wo Mma k bad milli yakjehati council k dobara ehyaaa or ab peshawar men munaqida is cofrence sy apni tabeer ki traf gamzan hai.. hum albaseerah trust ki is kawish per unko kheraj tehseen paish krty hain
Pakistan
Excellent efforts , please do next in Karachi on the same scale and keep arranging such events.
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش