2
Saturday 14 Mar 2009 13:42

پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اسلامی تہذیب و تمدن کے بانی

پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اسلامی تہذیب و تمدن کے بانی

تحریر: عباس ہمدانی [مجلہ امید ربیع الثانی ۱۴۲۸ ھ۔ق۔]



تہذیب و تمدن:

تہذیب سے مراد کسی شخص یا معاشرے کے اعتقادات کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ چیزیں جن پر ایک شخص یا معاشرہ مضبوط عقیدہ رکھتا ہو۔ لہذا تہذیب ایک ذہنی مخلوق ہے جس کا انسانی ذہن سے باہر کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔
ایک تہذیب تین چیزوں کا مجموعہ ہے:
۱۔ اعتقادات، ۲۔ اقدار، اور ۳۔ کردار۔
ہر تہذیب میں مرکزی کردار وہ عقائد ادا کرتے ہیں جن کے گرد ایک معاشرہ گردش کرتا ہے۔ انہیں عقائد کی بنیاد پر اقدار کا تصور جنم لیتا ہے۔ اقدار دو طرح کی ہوتی ہیں: مثبت اور منفی۔ مثبت اقدار وہ ہیں جو ان عقائد کے مطابق ہیں جن پر ایک تہذیب قائم ہے۔
تمدن سے مراد انسان کا مادی و معنوی سرمایہ اور اجتماعی نظم و نسق کو اپنانا ہے۔ ہر تمدن کی بنیاد ایک تہذیب پر ہوتی ہے جو اس کیلئے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمدن در واقع تہذیب کا مظہر ہے۔ ایک تمدن کو وجود میں لانے کیلئے مندرجہ ذیل عناصر کی ضرورت ہوتی ہے:
۱۔ انسان، ۲۔ تہذیب، ۳۔ قانون۔
اسلامی تہذیب و تمدن:
اسلامی تہذیب و تمدن وہ تہذیب و تمدن ہے جس میں اسلامی شریعت قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام دین کامل ہے۔ باین معنی کہ انسان کی زندگی کا کوئی پہلو اس کے دائرہ سے خارج نہیں ہے؛ چاہے وہ انفرادی پہلو ہو یا اجتماعی، فکری ہو یا اخلاقی یا عملی۔ اسلامی تعلیمات ان تمام پہلووں پر حاوی ہیں۔ ایسے کامل نظام کی بنیاد پر جو تہذیب و تمدن جنم لیتی ہے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کہلاتی ہے۔
ایک تہذیب کے وجود میں آنے اور ترقی کرنے میں موثر عوامل:
کسی بھی تہذیب کے وجود میں آنے کیلئے مختلف عوامل اور عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ویل ڈورنٹ، ایک معروف مغربی فلاسفر، کی نظر میں ایک تہذیب کے وجود میں آنے کیلئے مندرجہ ذیل چار عناصر کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ اقتصادی امور میں پیشین گوئی اور احتیاط،
۲۔ سیاسی تنظیم،
۳۔ اخلاقی روایات سے آگاھی اور
۴۔ ہنر کی وسعت میں کوشش۔
ویل ڈورنٹ معتقد ہے کہ: ایک تہذیب کا ظہور اس وقت ممکن ہے جب ناامنی اور لاقانونیت ختم ہو چکی ہو۔ کیونکہ خلاقیت اور ایجادات فقط خوف و ہراس سے عاری ماحول میں ہی امکان پذیر ہے۔ اور صرف اسی ماحول میں انسان خود بخود علم و معرفت کے حصول کے رستے پر گامزن ہو کر معیار زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
ابن خلدون، ایک مسلمان متفکر، مندرجہ ذیل عناصر کو ایک تہذیب کے وجود میں آنے کیلئے موثر قرار دیتا ہے:
۱۔ حکومت اور قائد، ۲۔ دینی یا رسمی قانون، ۳۔ اخلاق، ۴۔ عملی فعالیت، ۵۔ صنعت، ۶۔ آبادی، اور ۷۔ دولت۔
اس کی نظر میں پہلے تین عناصر باقی چار عناصر کی نسبت زیادہ بنیادی اور اہم ہیں۔
مختلف آراء اور خیالات کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل عناصر کو ایک تہذیب کے وجود میں لانے کیلئے ضروری شمار کیا جا سکتا ہے:
۱۔ امن و امان،
۲۔ قومی اتحاد، جس کو ابن خلدون نے "تعصب" کا نام دیا ہے۔ تعصب در واقع ہر تہذیب میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ عامل ہے جو ایک باہدف اجتماعی تعاون اور فعالیت کو وجود میں لانے کیلئے ضروری محرک فراہم کرتا ہے،
۳۔ باہمی ہمکاری اور تعاون،
۴۔ اخلاق،
۵۔ مختلف افکار کے مقابلے میں صبر، بردباری اور برداشت کا مظاہرہ۔ برداشت سے مراد دوسروں کی سمجھ بوجھ کے مقابلے میں صبر کرنا ہے اور اس سے مراد بے طرفی یا بیہودگی کو برداشت کرنا نہیں ہے،
۶۔ اتحاد کو قائم رکھنا اور تفرقہ اور علیحدگی سے پرھیز کرنا،
۷۔ دین،
۸۔ مناسب بہبود۔
پیغمبر اعظم ص اسلامی تہذیب و تمدن کے بانی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ظہور اسلام سے پہلے عرب بدو تہذیب و تمدن کے نام سے واقف بھی نہ تھے۔ دوران جاہلیت کی دو اہم تہذیبیں ایران اور روم کی تہذیبیں تھیں۔ انہوں نے بھی کبھی جزیرہ عرب پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ اجتماعی زندگی اور نظم و نسق عرب بدو کی فطرت میں ہی نہ تھا۔ ایک عرب بدو کی اجتماعی زندگی اپنے قبیلے تک محدود تھی اور ایک مرکزی حکومت کا تصور دور دور تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ایسے حالات میں پیغمبر اکرم ص نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی جو چند عشرے گزرنے کے بعد ایک عالمی حکومت کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ اسلامی معاشرہ جس کی بنیاد حضرت محمد ص نے مدینہ میں ڈالی، ایک ایسا معاشرہ تھا جس کا محور اسلامی تعلیمات اور عقائد تھے۔ اس میں اسلامی اقدار حاکم تھیں۔ بیامبر اکرم ص نے اس معاشرے کی بنیاد رکھ کر درحقیقت ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالی جو اسلامی تہذیب و تمدن کے نام سے معروف ہوئی۔ اسلامی تہذیب و تمدن میں مثبت اقدار کو "معروف" اور منفی اقدار کو "منکر" کہا جاتا ہے۔
آئیے پیامبر اکرم ص کی شخصیت اور اسلامی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے میں ان کے کردار کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے ان کے ہمیشگی حامی اور مددگار حضرت علی ع کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آپ نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں:
"خدا نے پیغمبر اسلام ص کو اس وقت مبعوث کیا جب لوگ فتنوں کا شکار تھے۔ دین کے ساتھ لوگوں کا رابطہ کمزور ہو چکا تھا اور ایمان و یقین کے ستون متزلزل ہو چکے تھے۔ لوگ دین کی بنیادی چیزوں میں اختلاف کا شکار تھے۔ نجات کا راستہ مشکل نظر آتا تھا اور کوئی پناہ گاہ موجود نہ تھی۔ ہدایت کا چراغ بجھا ہوا تھا اور دل کے اندھے پن نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ خدائے رحمان کی معصیت اور شیطان کی مدد کی جاتی تھی۔
ایمان بے یار و مددگار تھا اور اس کے ستون نابود ہو چکے تھے۔ اس کے راستے پرانے ہو چکے تھے اور بھلائے جا چلے تھے۔ جاہل لوگ شیطان کی اطاعت میں مشغول تھے اور اس کے راستوں پر چلتے تھے اور اسی کے سرچشمے سے سیراب ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسی طرح پہلے خطبے میں ہی ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "ان {پیامبر اکرم ص} کی ولادت سب کیلئے مبارک تھی۔ ایسے زمانے میں جب لوگ دنیا پرست، گوناگون مذاہب کے پیرو اور مختلف خواہشات کے اور طریقوں کے حامل تھے۔ کچھ خدا کو مادی چیزوں کے ساتھ تشبیہ کرتے اور کچھ خدا کے مقدس اسماء کا انکار کرتے ہوئے انہیں بتوں کے ساتھ جوڑتے تھے۔ پس خداوند سبحان نے لوگوں کومحمد ص کے ذریعے نجات دی اور ان کی ہدایت کی اور جہالت سے نکالا"۔
پیغمبر اکرم ص نے اس خشک اور خانہ بدوشوں کی سرزمین پر تمدن کے بیج بوئے۔ صرف جزیرہ عرب کی سرزمین ہی خشک نہ تھی بلکہ آپ ص نے وہاں کے سخت مزاج لوگوں کے دلوں میں محبت اور دوستی کے چراغ جلائے۔ پیغمبر اعظم ص نے توحید اور یکتا پرستی کو ایسے افراد میں رائج کیا جن کے ہر قبیلے اور حتی ہر گھر میں ایک خدا موجود تھا۔
"جان بی ناس" اپنی کتاب "مذاھب کی تاریخ" میں لکھتا ہے: "عرب قوم کی اکثریت نے، چاہے وہ جو شہر میں تھے یا وہ جو خانہ بدوش تھے، اپنے لئے مذکر اور مونث خدا بنائے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک خدا پورے قبیلے کیلئے مخصوص ہوتا تھا۔ مکہ میں تین مونث خدا خاص طور پر عبادت کئے جاتے تھے۔ لات، منات اور عزی"۔
جس طرح سے ایک بیج جو بویا جاتا ہے اور مناسب زمین اور دیکھ بھال کے نتیجے میں وہ نشوونما پا کر ایک تناور اور پھل دار درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب و تمدن کا درخت پیغمبر اکرم ص کے ہاتھوں اپنی کاشت کے کچھ صدیوں بعد پرثمر ہوا اور ثقافت، ہنر، شرعی، عقلی، اور ادبی علوم کے حوالے سے اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔
ہم اس مضمون میں چاہتے ہیں کہ ایک تہذیب کو وجود میں لانے والے موثر عوامل کی روشنی میں پیامبر اکرم ص کا اسلامی تہذیب و تمدن کے بانی ہونے کی حیثیت سے کردار کا مختصر جائزہ لیا جائے۔

الف۔ پیغمبر اعظم ص اور امن و امان کا قیام:
اسلامی تہذیب کا آغاز مکہ میں پیغمبر اکرم ص کی طرف سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت سے ہوا اور مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام سے اس نے ترقی پائی۔ جس عرصہ میں مسلمان مکہ میں رہ رہے تھے، قریش کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکیں۔ مکہ میں پیغمبر اکرم ص اور نو مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ مثلاً مشرکین مکہ کا شعب ابی طالب میں مسلمانوں کا اقتصادی اور اجتماعی محاصرہ، مسلمانوں اور خود پیغمبر اکرم ص کو اذیت و آزار دینا اور آپ ص کے دو بڑے حامیوں حضرت خدیجہ س اور حضرت ابوطالب س کا فوت ہو جانا وغیرہ۔ لہذا پیغمبر اکرم ص کو اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالنے کیلئے ایک پرسکون جگہ کی ضرورت تھی۔
اسی وجہ سے آپ ص نے طائف کا دورہ کیا تاکہ سخت دباو کا شکار مسلمانوں کیلئے ایک پرامن جگہ تلاش کی جا سکے لیکن بدقسمتی سے یہ دورہ کامیاب ثابت نہ ہوا اور شہر کے بااثر لوگوں نے آپ ص کی دعوت کو قبول نہ کیا حتی یہ کہ اوباش اور ناسمجھ لوگوں کو آپ ص کے خلاف اکسایا کہ آپ ص کا پیچھا کریں اور شہر سے باہر نکال دیں۔
اسی سال مدینہ کے کچھ لوگوں کو آپ ص کے ساتھ ملاقات کا موقع فراہم ہوا۔ پیغمبر اکرم ص کی روش یہ تھی کہ حج کے موقع پر جو قبائل خانہ کعبہ کی زیارت کیلئے آتے تھے ان میں جا کر اسلام کی دعوت کرتے تھے۔ ایک سال قبیلہ خزرج کے چھ افراد نے آپ ص سے ملاقات کی۔ آپ ص نے انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔ جب انہوں نے آپ ص کی بات سنی اور دیکھا کہ آپ ص کا پیغام صلح، صفائی اور پرہیزگاری پر مبنی ہے تو اس کا استقبال کیا اور کہا: "یم اپنے لوگوں کے درمیان جائیں گے اور انہیں آپ ص کے دین سے آگاہ کریں گے۔ شاید آپ ص کے وجود بابرکت سے ہمارے شہر میں جنگ و جدل ختم ہو جائے۔ اگر آپ ص ہمارے اتحاد کا باعث بنیں تو ہمارے نزدیک باعزت ترین افراد میں سے شمار ہوں گے"۔
دو سال کے بعد یعنی بعثت کے تیرہویں سال، حج کے وقت اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ ص کے ہاتھ پر بیعت کی اور عہد کیا کہ پیامبر اکرم ص کے دشمن کے ساتھ دشمن اور آپ ص کے دوست کے ساتھ دوست رہیں گے۔ اس واقعہ کے بعد آپ ص نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کر دی۔
اس طرح سے آپ ص کی ایک پرامن جگہ کی تلاش کی کوششیں پرثمر ثابت ہوئیں اور مدینہ کے پرسکون ماحول میں آپ ص کو اسلامی حکومت کے بنیادی عناصر کو عملی شکل دینے کا موقع فراہم ہوا۔
ب۔ پیغمبر اعظم ص اور قومی اتحاد:
اسلامی تہذیب کی بنیاد ڈالنے میں پیغمبر اکرم ص کا دوسرا قدم اتحاد کے جذبے کو وجود میں لانا تھا۔ مدینہ آتے ہی آپ ص نے ایسے اقدامات کئے جو وہاں کے ملسمانوں میں نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود ان میں مساوات، بھائی چارے اور وحدت کا باعث بنے۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل تھے:
ا۔ اسلام میں پہلے عمومی معاہدے کی تدوین:
رسول خدا ص نے مدینہ میں اپنے قیام میں کی ابتدائی مہینوں میں مہاجرین و انصار اور مدینہ کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ تحریر فرمایا۔ اس میں آپ ص نے یہودیوں کی دولت کو کچھ شرائط کے تحت قرار دیا۔ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ص کو قدر آزادی، نظم و ضبط اور عدالت کے اصولوں کو زندگی میں محترم سمجھتے تھے اور کس طرح اس معاہدہ کے ذریعے بیرونی حملوں کے مقابلے میں ایک اتحاد وجود میں لائے۔
اس معاہدے کے کچھ اہم اجزاء ابن اسحاق کے مطابق درج ذیل ہیں:
ا۔ مسلمان اور یہودی اپنی اپنی رسوم کی ادائیگی میں مکمل طور پر آزاد ہوں گے،
ب۔ مسلمان اور یہودی ایک قوم کی طرح مدینہ میں رہیں گے،
ج۔ بیرونی دشمن کے ساتھ جنگ کے مواقع پر، اگر ان میں سے کوئی جنگ کا شروع کرنے والا نہ ہو، تو دوسرے اس کی مدد کریں گے،
د۔ مدینہ کے شہر پر حملہ کی صورت میں سب مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے،
ہ۔ دشمن کے ساتھ صلح کا معاہدہ سب کے باہمی مشورے سے انجام پائے گا،
و۔ چونکہ مدینہ سب کیلئے قابل احترام ہے لہذا اس میں جنگ اور خونریزی ممنوع ہو گی،
ز۔ باہمی اختلافات اور جھگڑوں کی صورت میں آخری فیصلہ پیغمبر اکرم ص کا ہو گا،
ح۔ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور خیرخواہی کے ساتھ پیش آئیں گے۔
۲۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان پیمان اخوت کا قیام:
ہجرت کے ۸ ماہ بعد پیغمبر اکرم ص نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت اور برادری کا نظام قائم کیا تاکہ حق کے راستے میں ایکدوسرے کی مدد کریں اور مرنے کے بعد ایکدوسرے کے وارث قرار پائیں۔ آپ ص نے اس عمل کے ذریعے مہاجرین اور انصار کو ہر حوالے سے متحد کر دیا۔ یہ برادری یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو خود پر ترجیح دینے لگا۔ مثال کے طور پر جنگ "بنی نضیر" کے غنائم کی تقسیم کے دن پیغمبر اکرم ص نے انصار سے کہا: "اگر آپ چاہتے ہیں تو ان غنائم میں مہاجرین کو بھی شریک کر لیں ورنہ یہ سب آپ کے ہیں"۔ انصار نے جواب دیا: "ہم نہ صرف اپنے تمام غنائم اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دیں گے بلکہ انہیں اپنے اموال اور گھر میں بھی شریک کریں گے"۔
ج۔ پیغمبر اعظم ص کا تعاون اور ہمکاری کے جذبے کو وجود میں لانا:
آپ ص کا دوسرا قدم اس نئے معاشرے میں باہمی تعاون کے جذبے کو زندہ کرنا تھا۔ نیک کاموں میں باہمی تعاون قرآن کریم کی تاکیدات اور دستورات میں سے ہے؛
"و تعاونوا علی البر والتقوی و لا تعاونوا علی الاثم والعدوان" {مائدہ/۲}
اس آیہ میں جو کچھ تعاون کے حوالے سے ذکر ہوا ہے وہ ایک عمومی قانون ہے جس میں تمام اجتماعی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی مسائل شامل ہیں۔ اس قانون کے مطابق مسلمانوں کا فریضہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کریں لیکن باطل اہداف، غلط کاموں اور ظلم و ستم میں تعاون بالکل ممنوع ہے اگرچہ اس کا انجام دینے والا شخص اس کا قریبی دوست یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد آپ ص کے ابتدائی کاموں میں سے ایک کام مسجد کی تعمیر تھا۔ مدینہ کے عوام کی اکثریت کے پرجوش استقبال نے آپ ص کی حوصلہ افزائی کی کہ ہر کام سے پہلے مسلمانوں کیلئے ایک عمومی مرکز کے طور پر ایک مسجد کو تعمیر کیا جائے جس میں تعلیمی، تربیتی، اور عدالتی امور انجام پا سکیں۔ وہ زمین جس پر آپ ص کا اونٹ بیٹھا تھا، دس دینار میں مسجد کیلئے خریدا گیا۔ تمام مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر اور اس کیلئے تعمیری مواد فراہم کرنے میں شرکت کی حتی خود نبی اکرم ص باقی ملسمانوں کی مانند ارد گرد سے پتھر لانے میں مشغول تھے۔ اسید بن حضیر آگے بڑھے اور عرض کی: "یا رسول اللہ ص اجازت دیں میں لے جاوں" آپ ص نے فرمایا: "جاو اور دوسرا پتھر اٹھا لاو"۔
مختلف امور میں مشورت بھی باہمی تعاون کے جذبے کو ابھارنے کا باعث ہے۔ قرآن کریم میں چند آیات میں اس پر توجہ دی گئی ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک سورہ "شوری" کے نام سے ہے جس میں مشورے کو اہم ترین مسائل اور ایسے فرائض میں شمار کیا گیا ہے جو خدا کی طرف سے مورد تاکید اور تشویق قرار پائے ہیں اور ان کا ذکر استجابت دعا، نماز اور انفاق جیسے اہم موضوعات کے ساتھ ہوا ہے۔ خدا فرماتا ہے:
"و الذین یجتنبون کبائر الاثم و الفواحش و اذا ما غضبوا ھم یغفرون و الذین استجابوا لربھم و اقامواالصلاہ و امرھم شوری بینھم و مما رزقناھم ینفقون"۔ {شوری/۳۷،۳۸}
اسی طرح سورہ آلعمران کی آیہ ۱۵۹ میں عام معافی کے دستور کے بعد، ان کی شخصیت کو زندہ کرنے اور فکری و روحانی زندگی کے تجربے کیلئے خداوند پیغمبر اکرم ص کو دستور دیتا ہے کہ کاموں میں مسلمانوں سے مشورہ لیجئے اور ان سے راے اور نظر کو طلب کیجئے۔ مذکورہ آیہ میں معنی اور مفہوم کے لحاظ سے لفظ "امر" {کام} میں تمام انفرادی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور دفاعی امور شامل ہیں۔
پیغمبر اکرم ص آسمانی وحی سے قطع نظر اس قدر مضبوط سوچ کے حامل تھے کہ مشورے کے محتاج نہ تھے لیکن ایک طرف مسلمانوں کو مشورت کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کی خاطر تاکہ وہ اسے اپنی زندگی کے بنیادی پروگرامز میں شامل کریں اور دوسری طرف تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو افراد میں بڑھانے کیلئے مسلمانوں کے عمومی مسائل میں جو قوانین الھی کو عملی جامہ پہنانے کا پہلو رکھتے تھے {نہ قانون بنانے کا} مشورتی میٹنگز کو تشکیل دیتے تھے اور مخصوصاً صاحب نظر افراد کی راے کیلئے خاص احترام کے قائل تھے۔ حتی بعض مواقع پر ان کی راے کو اپنی ذاتی راے پر ترجیح دیتے تھے۔
حضرت امام رضا ع پیغمبر اکرم ص کے فیصلہ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: "آپ ص اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد جو پسند فرماتے تھے اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے"۔
ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشورہ کرنا آپ ص کی سیرت کا حصہ تھا اور آپ ص اپنی سیرت پر ثابت قدم رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم ص کی زندگی میں کئی مواقع ایسے ملتے ہیں جہاں آپ ص نے فیصلے کی خاطر شوری کو تشکیل دیا اور مسئلے کا حل ان کے ذمہ لگایا یا اپنے اصحاب کی ساتھ مشورہ کیا۔ ایسے کچھ مواقع درج ذیل ہیں:
ا۔ جنگ احد سے پہلے آپ ص نے ایک شوری تشکیل دی اور مشرکین مکہ کی فوج سے مقابلہ کرنے کی نوعیت کے بارے میں اس شوری سے مشورہ کیا اور اس کے بعد فیصلہ کیا،
ب۔ جنگ خندق کے موقع پر مشرکین کی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اصحاب کے مشورے پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کیا،
ج۔ بنی قریظہ اور بنی نضیر کی جنگوں میں مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ برتاو کے حوالے سے مشورہ کیا،
د۔ حدیبیہ کے مقام پر جب مشرکین مکہ مسلمانوں کے زیارتی قافلے میں رکاوٹ بنے تو آپ ص نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا،
ہ۔ غزوہ طائف میں دشمن کو محاصرہ میں لینے کے بعد اس محاصرے کو جاری رکھنے کے بارے میں مشورہ انجام دیا،
و۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ص نے سنا کہ ابوسفیان آپ ص کی طرف آ رہا ہے تو مشورہ کیا۔
ان تمام مواقع پر رسول اکرم ص کا مقصد اتحاد، تعاون اور ہمکاری کے جذبے کو فروغ دینا تھا۔ پیغمبر اکرم ص کی نظر میں وہ انسانی معاشرہ یا تنظیم جو من مانی کی بنیاد پر چل رہا ہو ایک زندگی سے عاری اور مردہ مجموعہ ہے اور بقاء اور پایداری کا حقدار نہیں ہے۔
د۔ پیغمبر اعظم ص کا صبر، برداشت اور بردباری کے جذبے کو تقویت دینا:
ایک اور خصوصیت جس کا ذکر تہذیبوں کی ترقی اور نشوونما میں کیا گیا ہے، برداشت اور نرم خوئی کا جذبہ ہے۔ "صبر" ایسے الفاظ اور مفاہیم میں سے ہے جن پر قرآن کریم میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ سو سے زیادہ مرتبہ قرآن میں دہرایا گیا ہے۔ مختلف آیات میں پیغمبر اکرم ص کو دستور دیا گیا ہے کہ مشکلات میں صبر و بردباری کا مظاہرہ کریں۔ ان میں سے چند آیات درج ذیل ہیں:
"فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل و لا تستعجل لھم" {احقاف/۳۵}
"و لربک فاصبر" {مدثر/۷}
"اصبر علی ما یقولون" {ص/۱۷}
"فاصبر لحکم ربک و لا تکن کصاحب الحوت" {قلم/۴۸}
"فاصبر انَ وعد اللہ حق" {غافر/۷۷}
رسول خدا ص مختلف امور ذمہ داری اور لوگوں کی ہدایت میں سب سے زیادہ صبر اور نرم خوئی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ابن شہر آشوب علماء اور تاریخ دانوں سے نقل کرتا ہے:
"پیغمبر اکرم ص سب لوگوں سے زیادہ بردبار تھے۔ آپ ص خود فرماتے تھے: میں مبعوث ہوا ہوں تاکہ بردباری کا مرکز اور علم کی کان صبر کا مسکن بنوں"۔
آپ ص کے صبر و بردباری کے چند نمونے درج ذیل ہیں:
ا۔ پیغمبر اکرم ص مدینہ میں اسلامی حکومت کے آغاز سے ہی اس شہر میں ساکن غیر مسلم اقلیتوں جیسے یہودیوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور حتی ان کے ساتھ معاہدے بھی کیا کرتے تھے اور جب تک وہ ان معاہدوں کی پابندی کرتے تھے ان کے ساتھ صلح و صفائی سے پیش آتے تھے۔
۲۔ جنگ احد کے بعد کچھ اصحاب نے آپ ص سے قریش اور مشرکین پر نفرین کرنے کو کہا۔ آپ ص نے فرمایا: "میں لعنت اور نفرین کرنے کیلئے مبعوث نہیں ہو بلکہ حق اور رحمت کی طرف دعوت دینے کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔ خدایا میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ نادان ہیں"۔
۳۔ یہودیوں کی اذیت و آزار کے مقابلے میں آنحضرت ص کا صبر و بردباری {جب تک انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازش اور فوجی اقدام نہیں کیا}۔
ڈاکٹر طہ حسین اس حوالے سے کہتے ہیں: "جب پیغمبر اکرم ص نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اپنے مہاجر اور انصار دوستوں کے ہمراہ وہاں پر سکونت اختیار کی تو یہودیوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور نہ انکے ساتھ بدسلوکی کی۔ بلکہ ان کے ساتھ بنا کر رکھی اور چاہا کہ آپ ص اور ان کے درمیان ہمسائگی روابط کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم ہوں اور مشکلات میں ایکدوسرے کا ساتھ دیں اور مدد کریں"۔
۴۔ اسلام کی راہ میں منافقین کی بدعہدی کے باوجود انکے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ مخصوصاً انکے سرکردہ عبداللہ ابن ابی کے ساتھ اسکے مرنے تک {۹ہجری} اچھا برتاو رکھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص نے اسکی نماز جنازہ پڑھوای۔
۵۔ مختلف ادیان اور مذاھب کے پیروکاروں کی مدینہ میں آزادی اور انکا آپ ص کے حضور بحث و مناظرہ کیلئے آنا اس امر پر دلالت کرتا ہے۔
ہ۔ پیغمبر اعظم ص اور ایجاد وحدت:
ایک اور خصوصیت جو تہذیبوں کی پیدایش میں موثر واقع ہو سکتی ہے، وحدت اور ہم آہنگی ہے حو آپ ص کی دعوت اسلام کے آغاز سے خاص توجہ کا مرکز رہی ہے۔
قرآن کریم مختلف آیات میں مسلمانوں کو اتحاد کی طرف دعوت دیتا ہے۔ قرآن "توحید" کو محور بناتے ہوئے سب کو خدا کے ساتھ رابطے یا "حبل اللہ" کے گرچ جمع ہونے کی طرف بلاتا ہے:
"واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا"۔ {آلعمران/۱۰۳}
پیغمبر اکرم ص کم عرصے میں ان قبائل کے درمیان جو صدہوں سے جنگ اور خونریزی اور اختلافات کا شکار تھے اسلام کے ذریعے صلح و صفائی کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو گئے اور انکے اتحاد کے ذریعے مدینہ میں ایک مضبوط محاذ قائم کیا۔
جان ڈیون پورٹ برطانیہ کے مشہور محقق، لکھتے ہیں: "محمد ص ایک سادہ عرب تھے جنہوں نے اپنے ملک کے بکھرے ہوئے بھوکے اور ننگے قبائل کو ایک منضبط اور پیوستہ معاشرے میں تبدیل کر دیا اور دنیا کی اقوام میں انہیں نئی صفات اور نئے اخلاق کے ساتھ پیش کیا۔ اس طریقے اور سلیقے نے تیس سال سے کم عرصہ میں قسطنطنیہ کو مغلوب کر دیا اور ایران کے بادشاہوں کو ختم کر دیا۔ شام، عراق اور مصر کو فتح کر لیا اور اپنی فتوحات کے دامن کو اٹلانٹک اوشن سے کیسپین سی اور دریای سیحون تک پھیلا دیا"۔
و: پیغمبر اعظم ص کا دین اور تہذیب سازی:
مین کسی بھی تعمیری کام میں ایک اہم مقام اور مخصوص اور برتر کردار کا حامل ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ کسی بھی قوم میں ایسی کوئی بھی تہذیب و ثقافت نہیں پائی جا سکتی جس میں دین نے اہم کردار ادا نہ کیا ہو۔ رادھا کریشن دین کو تہذیب کا باطن سمجھتا ہے اور کہتا ہے: "دین اجتماعی ڈھانچے میں ایک روح کی مانند ہے"۔
ایک تہذیب کو وجود میں لانے کیلئے دین کے کردار کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے: اولاً یہ کہ ہدایت الہی فطری صلاحیتوں کے ذریعے انسانوں کو نشوونما دیتی ہے اور اس کی روح اور فکر میں انقلاب برپا کرتے ہوئے پرانے اور ناقص نظاموں اور رسوم کو ختم کر دیتی ہے اور ایک زندہ اور ترقی یافتہ نظام کو تشکیل دیتی ہے۔ ایسی تبدیلی کی روشنی میں انسان کی اقتصادی زندگی بہتر ہو جاتی ہے اور اس کی علمی، فنی، ہنری اور ادبی صلاحیتیں نشوونما پاتی ہیں۔
دوسرا یہ کہ دین اتحاد اور اتفاق یا ابن خلدون کے مطابق "تعصب" کا باعث بنتا ہے۔ ابن خلدون کی نظر میں تعصب اور دین میں راست تناسب پایا جاتا ہے۔
ز: پیغمبر اعظم ص اور مناسب فلاح و بھبود کا ایجاد کرنا:
مسلمان جب تک مکہ میں تھے وہاں کے سخت حالات کے باعث زندگی کی بنیادی ضروریات کو فراہم کرنے میں بہت زیادہ مشکلات سے روبرو تھے۔ مکہ کا کاروباری ماحول معاشرے کے نچلے طبقے کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ لیکن مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد مسلمان ایک نئے ماحول اور جدید وسائل سے روبرو ہوئے۔ مدینہ میں نسلی اور قبائلی تعصبات جو کہ فخر فروشی اور تکبر کا ذریعہ تھے کافی کم تھے۔ ایک ایرانی غلام جیسے سلمان فارسی ایک کالے حبشی غلام جیسے بلال کے برابر تھے۔ برابری کا یہ معیار اس حد تک بلند ہوا کہ ایک اصیل قریشی غیر قریشی کے ساتھ عہد اخوت باندھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔
دوسری طرف پانی، کھجور کے باغات اور دوسرے باغات کی مکہ کی نسبت فراوانی نے مہاجرین کیلئے زراعت کی راہیں کھول دیں اور اس کے ذریعے روزمرہ زندگی کی ضروریات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ ان کی مسلسل کوششوں اور بعد میں حاصل ہونے والے جنگی غنائم نے مسلمانوں کی بہبود پر کافی اچھا اثر ڈالا۔ معاشرے میں مناسب بہبود کا وجود میں آنا بعض بنیادی ضروریات کے پورا ہونے کا باعث بنتا تھا جو کہ نشوونما کا زمینہ فراہم کرتا تھا۔
"ابراہم موزلو" ایک مشہور ماہر نفسیات، کی نظر میں فقیر معاشروں میں علمی، ثقافتی، ہنری اور اخلاقی حوالے سے بہت کم خلاقیت پائی جاتی ہے۔
کام اور اقتصادی فعالیت کیلئے اہمیت کا قائل ہونا اور مزدور کے کام کو اہمیت دینا، مدینہ میں مسلمانوں کی سکونت کے ابتدائی سالوں میں ترقی اور بہبود کو ایجاد کرنے میں وہ اہم اور موثر عوامل تھے جو آپ ص کی سیرت میں پائے جاتے تھے۔
نتیجہ:
مدینۃالنبی ص میں تشکیل پانے والا اسلامی معاشرہ تہذیب کے راستے پر گامزن ہونے کیلئے تمام ضروری خصوصیات کا حامل تھا۔ لہذا پیغمبر اکرم ص کی مدینہ میں موجودگی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کو بعثت اور دعوت اسلام کے بعد اسلامی تہذیب کے قیام کیلئے دو اگلے قدم گنے جانے چاہئیں۔ پیغمبر اکرم ص نے اہل یثرب کے مناسب استقبال کے بعد اپنے معاشرے اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادوں کو شرح صدر، حسن تفاہم، استبداد کی نفی، مہربانی اور انسانوں کے اکٹھے رہنے پر استوار کیا۔
آپ ص کا اسلامی تہذیب کی بنیاد ڈالنے اور اسے ترقی دینے میں بے مثال کردار، ایک قابل توجہ، گہری اور وسیع تحقیق و مطالعے کا محتاج ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ اہل تحقیق اور ماہر افراد اس موضوع پر توجہ دیں تاکہ آپ ص کے اس کردار کے مختلف پہلو بہترین انداز میں روشن اور واضح ہو سکیں۔





خبر کا کوڈ : 1667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش