0
Thursday 31 May 2012 00:25

ملی یکجہتی کونسل کا احیاء اور وحدت امت کے تقاضے

ملی یکجہتی کونسل کا احیاء اور وحدت امت کے تقاضے
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری

جماعت اسلامی کے سابق سربراہ اور بزرگ دینی و سیاسی رہنما قاضی حسین احمد نے پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے، مذہبی و مسلکی تعصبات کو ختم کرنے اور دہشتگردی کی بیخ کنی کرکے امن و امان کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کا ازسرنو احیاء کیا ہے، جو قابل تحسین اور لائق قدردانی عمل ہے۔ 1995ء میں جب ملی یکجہتی کونسل کا احیاء ہوا تھا تو اس وقت ملک میں فرقہ وارانہ فضاء اس حد تک کشیدہ یا خطرناک نہیں تھی جس حد تک ان دنوں ہوچکی ہے۔ لہذا موجودہ وقت میں ملی یکجہتی کونسل جیسے پلیٹ فارم کی اہمیت اور ضرورت مسلّم ہے۔ 

سابقہ کونسل میں ایک کالعدم گروہ بھی شامل تھا، لیکن اس مرتبہ قاضی حسین احمد کی دور بین نگاہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ اسی گروہ کی وجہ سے ہی ملک میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی کے شعلہ فشاں خطبوں سے خودکش حملہ آوروں کے جذبات میں بلندیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اسی کی شہہ پر سانحہ مستونگ، سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس جیسے واقعات کے منصوبے بنا کر اُن پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ اس کالعدم گروہ کے سربراہ نے متعدد بار ان واقعات کے پس منظر کا ذکر کرکے باقاعدہ اعتراف کیا ہے۔ 

گذشتہ دنوں کوئٹہ میں کالعدم گروہ کے سربراہ نے ایک غیر منظقی اور من گھڑت جواز قائم کیا کہ اگر حکومت ناموس صحابہ بل میں مطالبہ کی گئی سزا کو منظور کرا کے اس پر عمل درآمد کرتی تو ملک پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی، لہذا اب ہم خود جھنگوی کے اہداف کو پورا کریں گے۔ یعنی اگر حکومت نے ہمارا غیر منطقی اور غیر عادلانہ مطالبہ تسلیم نہیں تو ہم خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگز اور بم دھماکوں کے ذریعے اپنے دشمنوں کا مار کر اہداف پورے کرتے رہیں گے۔
 
اسی گروہ کی طرف سے خودکش حملوں اور دہشتگردی کے واقعات انجام دینے کے لیے چند دلیلوں میں سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُن کا ہدف فرقہ صحابہ کرام کی توہین یا اہانت کرتا ہے، اس لئے لوگ اشتعال میں آ کر ایسے جارحانہ اقدامات کرتے ہیں۔ حالانکہ اس بات میں قطعاً کوئی صداقت نہیں، کیونکہ دہشتگردی کا ہدف فرقے کے جیّد اور مسلّمہ علماء و مجتہدین بالخصوص رہبریت اور سربراہی کی منزل پر فائز شخصیات نے اس تاثر کی مکمل نفی کی ہے، اس کی سب سے بڑی مثال اسلامی انقلاب ایران کے رہبر، ایران کے سپریم لیڈر اور دنیا بھر میں کروڑوں عوام کے مرجع و مجتہد آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ازواج پیغمبر اکرم  اور صحابہ کرام کی اہانت کرنا یا ان پر تہمت لگانا حرام ہے۔
 
اتنا ہی واضح، روشن اور صریح حکم عراق میں تشریف فرما ایک عظیم عالمی مجتہد اور دنیا بھر کے کروڑوں عوام کے مرجع آیت اللہ سید علی السیستانی نے بھی جاری کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ برادران اہل سنت ہم میں سے ہی ہیں اور ہمارے اندر فرق نہیں ہے۔ لبنان کے عظیم عالم دین، دینی علوم کی جدید تعبیر و تشریح کے ماہر اور یورپی ممالک میں کروڑوں عوام کے مرجع تقلید آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے بھی ازواج پیغمبر اکرم  اور صحابہ کرام کی توہین و اہانت یا سب و شتم تو کجا حتٰی کہ اُن پر لعن کو بھی کو حرام قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو باہم اتحاد کا درس دیا ہے۔
 
اس بزرگوار کے بارے میں لبنان میں اہل سنت کے سب سے بڑے مفتی نے واضح کہا ہے کہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ لبنان کے ستر فیصد اہل سنت سیّد ( آیت اللہ فضل اللہ) کے مقلد ہیں۔ ان تین بزرگان سے بڑھ کر دور حاضر میں کسی دوسرے کی رائے نہیں ہے اور دنیا میں فقہ جعفریہ کی غالب ترین اکثریت ان ہی تین بزرگان کی تقلید کرتی ہے۔ ان کے علاوہ مکتب تشیع کے ایک بزرگ اور جید ترین مرجع و مجتہد آیت اللہ مکارم شیرازی نے بھی اسی شدومد کے ساتھ فتوی جاری کیا ہے۔ 

قاضی حسین احمد جیسے زیرک سیاستدان اور دینی مسالک و دینی جماعتوں کے حقائق سے آگاہ شخص نے بہت بروقت اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مذکورہ شرپسند گروہ کو امت مسلمہ پاکستان کے مثالی اتحاد میں شامل نہ کرکے جہاں انصاف و عدل کا معیار قائم رکھا ہے، وہاں ظالم اور مظلوم اور قاتل اور مقتول میں تفریق کر کے پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ حقائق سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے۔ قاضی صاحب کے اس رویے سے توازن کی پالیسی کے رسیا حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کو سبق لینا چاہیے اور سرکاری سطح پر کئے جانے والے اقدامات کے دوران جانبدارانہ اور توازن سے آلودہ پالیسیوں کی تشکیل کی بجائے حقیقت پر مبنی اور انصاف پسندانہ پالیسیاں مرتب کرکے نافذ کرنی چاہیں۔
 
حکمرانوں کی اسی قسم کی غیر منطقی پالیسی کا تازہ اظہار پاکستانی شہریوں نے گلگت میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد دہشتگردوں اور امن پسندوں کی برابر گرفتاریوں، برابری کی سطح پر مذاکرات، برابری کی سطح پر ضابطہ اخلاق و قانون کے نفاذ کی چالیں اور مستقبل میں بھی برابری کی سطح پر رویہ اختیار کرنے کی شکل میں دیکھا۔ جہاں قاتل کی مسجد بھی سیل ہوئی اور مقتول کی مسجد بھی نمازیوں کے بند۔ جہاں دہشتگردوں کی بھی وہی قیمت لگائی گئی جو قیمت امن پسندوں اور متاثرین کے لیے لگی۔ اور اب عین اسی پالیسی کے تسلسل میں سرکاری سطح پر کہا جا رہا ہے کہ ہم کافر کہنے والوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو کافر نہ کہنے والوں کے ساتھ کریں گے۔ 

پتہ نہیں حکمران کس قوت یا طاقت کے خوف سے ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول اور امن پسند و دہشتگرد کو ایک پلڑے میں تولتے ہیں۔؟ حیرت کی بات ہے کہ قاضی حسین احمد سمیت پاکستان کے تمام انصاف پسند شہری بلاخوف و خطر ایک ہی گروہ کو تمام شرپسندی کی بنیاد سمجھتے ہیں اور شیعہ مکتب فکر کو دہشتگردی سے متاثرہ فریق سمجھتے ہیں، لیکن حکمران اور مقتدر طبقات ہمیشہ سے اس عوامی اور سیاسی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے اپنے انداز سے سوچ کر جانبدارانہ پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔
 
خیال کیا جاتا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کا ازسرنو احیاء دراصل ایم ایم اے کی بحالی کا پہلا زینہ، مقدمہ یا آغاز ہے۔ ممکن ہے بہت سارے لوگوں کو اس پر اعتراض بھی ہو کہ ایک بار پھر مذہبی قوتیں اپنی سیاسی دکانداری کو چمکانے کے لیے مذہب اور مسلک کے ساتھ مربوط مسائل یعنی فرقہ وارانہ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ایشوز استعمال کرنا چاہ رہی ہیں، اس کے علاوہ امریکی ڈرون حملوں، نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کا مسئلہ اور دو بڑی جماعتوں کی حکومتوں کی ناکامی کو دلیل بنا کر مذہبی اتحاد تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، تاکہ آمدہ انتخابات میں عوام سے ووٹ لینے کے لیے اپنی جگہ بنائی جا سکے۔ اس کے لیے ایم ایم اے یا اس طرز کا کوئی اتحاد معرض وجود میں آ سکتا ہے اور اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر مذہبی معاملات، فرقہ وارانہ اختلافات اور دہشتگردی کے موضوعات پر مذہبی جماعتیں جمع ہو کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں تو سیاسی میدان کو خالی کیوں چھوڑا جائے؟
 
ایران کے سپریم لیڈر کے ساتھ قاضی حسین احمد اور پاکستان کے بڑے دینی و مذہبی رہنماؤں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔ سال میں چند بار پاکستانی رہنماء آیت اللہ خامنہ ای کے افکار و خیالات اور پالیسیوں سے آگاہی حاصل کر آتے ہیں، ان میں سب سے اہم اور وزنی بات اتحاد امت اور وحدت اسلامی کا فروغ و استحکام ہوتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ کا امتیاز ہے کہ جب بھی عالم اسلام کے کسی کونے میں وحدت امت اور اتحاد بین المسلمین کے خلاف کوئی اندرونی یا بیرونی گروہ سازش کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس پر عملی کارروائی کرتے ہیں۔
 
زبانی جمع خرچ کی بجائے عمل کے میدان میں اپنا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ عرصے میں ایک شخص کی طرف سے امہات پیغمبر گرامی اور اصحاب پیغمبر اکرم  کے بارے میں اشتعال انگیز جملے جاری ہونے اور اس پر بعض متعصب گروہوں کی طرف سے منفی پروپیگنڈے کے وقت سید علی خامنہ ای نے اپنی رہبرانہ اور شرعی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے فوری طور پر فتوی صادر کیا، جسے پوری امت مسلمہ کے جید اکابرین نے نہ صرف سراہا بلکہ تسلیم کیا۔ اس کے بعد حالیہ مہینوں میں جب عرب دنیا میں انقلابات کا چرچا ہوا تو رہبر معظم نے ہر ہر ملک کے ہر ہر باشندے اور تمام مسالک کے رہنماؤں تک اتحاد سے لبریز اپنا پیغام پہنچایا۔
 
اسلامی بیداری کے عنوان سے پورے عالم اسلام میں بالخصوص اور دنیا کے دیگر ممالک میں بالعموم شیعہ سنی مشترکہ اجتماعات منعقد کرانے کا حکم دیا، ان اجتماعات اور روابط کی وجہ سے آج تمام عرب ممالک کے انقلابات پرامن طریقے اور وحدت اسلامی کی عملی مثالوں کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ ان دنوں شام کی صورتحال بھی وحدت اسلامی کا تقاضا کر رہی ہے، شاید رہبر کے پیغام کا اثر شام تک بھی چلا جائے۔
علامہ شاہ احمد نورانی کے بعد قاضی حسین احمد نے اپنی پدرانہ و بزرگانہ حکمت کے تحت بہت ذمہ دارانہ اور مناسب پالیسی اختیار کر لی ہے۔ بالخصوص تمام اسلامی مسالک و مکاتب کے درمیان اعلٰی روابط و ہم آہنگی اور شرپسند و امن پسند میں تفریق کر کے حد فاصل قائم کرنا۔ ممکن ہے کہ دفاع افغانستان کونسل کی مجبوریوں کی طرح قاضی صاحب کے سامنے بھی کچھ اس طرح کی مجبوریاں سامنے آ جائیں، جس کے تحت انہیں چار و ناچار کسی شرپسند اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے مرتکب گروہ کو ملی یکجہتی کونسل میں شامل کرنا پڑے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس سے بڑھ کر المیہ اور ظلم و ناانصافی کوئی نہیں ہو گی۔ 

جبکہ یہ یقینی بات قاضی حسین صاحب کو معلوم ہے کہ فرقہ پرست گروہ کی شمولیت سے ملی یکجہتی میں یکجہتی نہیں آئے گی، بلکہ فوری انتشار و افتراق پیدا ہوگا، لہذا انہیں مکمل احتیاط اور گریز کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ملی یکجہتی کے حسین گلدستے میں کوئی بدنما یا بدبودار پھول شامل نہ کریں۔ بعض طبقات کا موقف ہے کہ ایم ایم اے کے ٹوٹنے کے بعد لوگوں کا اعتماد مذہبی طبقے سے اٹھ چکا ہے اور وہ کسی صورت ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ اگر مخلصانہ اور سنجیدہ طریقے سے ملی یکجہتی کے سفر کو ایم ایم اے کی طرف طے کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ قوتوں کو ہم نوا و ہم سفر لیا جائے تو سیاسی قوتوں کے مظالم سے قریب المرگ عوام کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 166993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش