0
Saturday 2 Jun 2012 12:33

فرزند قرآن و سنت، سید روح اللہ موسوی

عالم اسلام کے درخشاں ستارے
فرزند قرآن و سنت، سید روح اللہ موسوی
تحریر: سید اسد عباس تقوی 
 
قرآن و سنت کی تعلیمات کے زیر سایہ پلنے والے ویسے تو بہت گزرے۔ بہت سوں نے قرآن کے حیات آفرین چشموں سے اپنی علمی و فکری تشنگی کو دوچند کیا۔ فرقان کی پاکیزہ آبشاروں نے بہت سے مردان باصفا کو جنم دیا۔ حریت و مردانگی کے دروس سے لبریز اس عظیم کتاب کے اسباق نے کئی ایک مرد قلندر پیدا کئے۔ ابراھیم بت شکن کی تقلید میں کئی ایک حر میدان عمل میں اترے اور باطنی و خارجی بتان وہم وگماں سے نبرد آزما ہوئے۔ مگر آج جس ”ابوذر دوراں“ کا ذکر خیر میرے پیش نظر ہے اس کی شخصیت کا سحر اب بھی قلب و ذہن انسان پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سید روح اللہ الموسوی نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو یوں اپنے وجود پر نافذ کیا کہ اس معاشرے کا فرد ہونے کے باوجود یہ مرد جری اس کہکشاں کا ستارا معلوم ہوتا تھا، جنہوں نے صدر اسلام میں دین حق کو الہی پیشوا سے اخذ کیا اور اپنی زندگیوں کو ان اسالیب میں ڈھالا جو قرآن و حامل قرآن کی منشا تھے۔

واذکرونی اذکرکم، واشکرولی اشکرکم کی وہ مثال جو ہم نے اپنے زمانے میں خود مشاہدہ اور محسوس کی، کہ جس کی محبت کو خدا نے قلوب مومنین پر واجب قرار دیا اور آج دنیائے اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ جس کے احسانات پر اس کا شکر گزار ہے۔ سید روح اللہ کو خدا نے زندگی میں ہی وہ جذب قلوب عطا کیا جو عشق کے درجات عالی کو چھوتا نظر آتا ہے۔ کیا شاگرد، کیا عوام اور کیا بعد میں آنے والی نسلیں، اس سید بزرگوار کا ذکر جس جس فرد سے گزرا قلب پر اثر چھوڑتا چلا گیا۔ سید باقر الصدر جیسی عالی مرتبت شخصیت روح اللہ موسوی کے بارے میں کہتی ہے:
ذوبوا فی الخمینی کما ھوذاب فی الاسلام
خمینی کی ذات میں یوں جذب ہو جاﺅ جیسا کہ وہ اسلام میں جذب ہوگئے۔

حیران کن ہے ایک فقیہ عصر کا دوسرے فقیہ عصر کے بارے میں یہ بیان۔ آ ج بھی دنیائے اسلام میں بہت سے راہنما اور لیڈر موجود ہیں، تاہم تاریخ نے کبھی کسی غیر معصوم کے بارے میں ایک فقیہ کی زبانی اس قسم کے کلمات نہیں سنیں ہوں گے۔ سید روح اللہ موسوی کی حیات کے بارے میں لکھنا مجھ جیسے عام لکھاری کے بس میں کہاں؛ جس بزرگ کی ذات کے ہر ہر گوشے پر محققین نے تحقیق کے دفتر بھر دیئے۔ جس کے بارے میں زبان و بیان پر عبور رکھنے والے اذہان نے اپنے تاثرات پیش کرکے اپنے علم و فضل کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ 

دنیا بھر کے عبقری اذہان چاہے ان کا تعلق اس جہان اسلام سے ہو یا نہ ہو، نے اس مرد اعجاز آفرین کے بارے میں کچھ کہنا اپنے لیے سعادت سمجھا۔ خمینی بت شکن کا کارنامہ آج بھی عالم انسانیت کی نظروں کے سامنے ہے۔ آج بھی عالم اسلام میں خمینی بت شکن کے نقش پا پر چلتے ہوئے ایک کے بعد دوسری نسل استبداد اور استعمار کے خلاف آمادہ پیکار نظر آتی ہے۔ 

سید روح اللہ نے ثابت کیا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل سے وہ انسان جنم لیتا ہے جو زمانے کی رفتار کو بدلنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور عزم بھی۔ آپ کے کردار و عمل سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن و سنت سے درس زندگی اخذ کرنے والا کوئی بھی شخص آج بھی خداوند متعال کے برگزیدہ نمائندگان کے طریق پر چلتے ہوئے فرعون زمان کو للکار سکتا ہے۔ تعلیمات دین حق کی حقانیت کی دلیل بننے والا سید روح اللہ، اس قافلہ مردان باصفا کا سالار ہے جس میں سید جمال الدین، سید محمد عبدہ، شیخ شلتوت، علامہ اقبال، سید قطب شہید، امام حسن البنا وغیرہ جیسے نام شامل ہیں۔

اس قافلہ سالار کاروان حریت کے طفیل، انسانی آزادی اور استقلال کے وہ زمزمے جاری ہوئے جو مطہری، بہشتی، سید علی خامنہ ای، موسٰی صدر، مصطفٰی چمران، شہید باہنر، شہید رجائی، سید عباس موسوی، سید حسن نصراللہ، احمدی نژاد کی صورت میں جہان اسلام کے گوش و کنار میں آزادی و استقلال کا استعارہ بن گئے۔ عالم اسلام تو ایک طرف مغرب میں اٹھنے والی وال اسٹریٹ تحریک خمینی بت شکن کی استعماریت و استبدادیت کے خلاف آواز کا ہی تسلسل ہے۔

ابھی تو قرآنی تعلیمات کی اس جلوہ گاہ کے فکری اثرات کا ابتدائی دور ہے، انسانی تاریخ اور فکر عالم اس بات پر شاہد ہو گی کہ خمینی بت شکن کی پر تاثیر زبان سے پھوٹنے والے قرآن و سنت کے حیات آفرین نغمے، بہت جلد دنیا بھر کے انسانوں کے لیے نجات و فلاح کے ضامن ہوں گے۔

میری فرط جذبات سے مملو یہ تحریر خمینی بت شکن کی شخصی سحر آفرینی کی بین دلیل ہے، نہ تو میں اس بت شکن سے ملا، نہ ہی اسی کے رنگ و بو کو محسوس کر پایا ،تاہم فقط ان کے اقوال اور احوال کے مطالعہ کے بعد اپنے قلب میں پائی جانے والی اس مرد جری کی محبت میرے لیے اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن و سنت کا فرزند اگر اس تاثیر کا حامل ہے تو حامل قرآن کس اعجاز آفرینی کے مالک ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ ایرانی مائیں اپنے چار چار فرزند راہ اسلام میں قربان کرنے کے بعد بھی اس بات کی آرزو مند ہوتی تھیں کہ خداوند کریم اور رسول خدا ان کی اس قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں اور ان کا رہبر و راہنما یہ جان لے کہ تجھ پر ماں کو اس قدر اندھا اعتماد ہے کہ وہ اب بھی اپنا سب کچھ تیرے ایک اشارے پر راہ اسلام میں قربان کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ 

تین لاکھ سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی انقلابی معاشرے کے جوان اور بزرگ اس بت شکن کے ایک اشارے کے منتظر نظر آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خمینی بت شکن کے وصال کو 23 سال ہونے کو آئے، مگر یہ مرد جری آج بھی نہ صرف ایران کے انقلابی معاشرے میں بلکہ عالم اسلام کے لیے دھڑکنے والے ہر دل میں زندہ و تابندہ ہے۔ بقول شاعر
 
عزم انسانی پہ مظہر عقل پھر حیران ہے
یہ ضعیف و ناتواں کتنا عظیم انسان ہے

ذات جس کی عظمت آل پیمبر کی دلیل
مخزن قول نبی ہے عالم قرآن ہے 

ترجمان دین حق حرمت کدوں کا پاسباں
ایک نشان آبرو اک منبع عرفان ہے 

فکر تیری ہے یقیناً امت خیر الوری
قید مسلک تجھ کو دینا گویا ایک بہتان ہے
خبر کا کوڈ : 167574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش