QR CodeQR Code

صیہونیزم اور ٹروریزم

12 Dec 2009 16:44

"صیہونیزم" انیسویں صدی کے آخر میں "تھئوڈور ہرٹزل" نامی ایک یہودی مفکر کی جانب سے دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے اور وہاں پر ان کیلئے ایک خودمختار ریاست قائم۰۰۰


"صیہونیزم" انیسویں صدی کے آخر میں "تھئوڈور ہرٹزل" نامی ایک یہودی مفکر کی جانب سے دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے اور وہاں پر ان کیلئے ایک خودمختار ریاست قائم کرنے کے ہدف سے معرض وجود میں آیا۔ اس مکتب فکر کے مطابق ہدف وسیلے کو جائز بنا دیتا ہے باین معنا کہ ہر وہ فعل جو ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جائز ہے چاہے دینی اور عقلی حوالے سے قابل مذمت ہی کیوں نہ ہو۔ ہرٹسل پہلے اس مقصد کی خاطر عثمانی خلافت کے سربراہ سلطان عبدالحمید کے پاس گیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ عثمانی خلیفہ سے مایوسی کے بعد اس نے برطانیہ کا رخ کیا اور برطانوی حکومت کو یہودی ریاست کے قیام کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔ دوسری جنگ عظِم میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد ہرٹسل نے فلسطین میں ایک یہودی ایجنسی قائم کی جس کو برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ برطانیہ نے رسمی طور پر اس ایجنسی کو دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا کے یہودیوں نے اس ایجنسی کی مدد سے فلسطین کا رخ کیا۔ تھوڑی مدت کے بعد اس ایجنسی کی زیر نگرانی یہودیوں کی حفاظت کے بہانے مسلح گروپس بننا شروع ہو گئے۔ یہ گروپس فلسطین میں یہودی مہاجرین کی حفاظت کو اپنا فرض ظاہر کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان گروپس نے فلسطینی مسلمانوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ یہ گروپس نظریاتی حوالے سے ایکدوسرے سے اختلافات رکھتے تھے لیکن سب کا ہدف ایک تھا اور وہ یہودیوں کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔
صیہونیزم:
انسائیکلوپیڈیا میں صیہونیزم کے لفظ کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے: "صیہونیزم ایسا لفظ ہے جو 1890 میں ایک ایسی تحریک کیلئے مشہور ہو گیا جس کا ہدف دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا تھا"۔ 1896 سے یہ لفظ ایک سیاسی تحریک کیلئے استعمال ہونے لگا جسکی بنیاد تھئوڈور ہرٹسل نے رکھی"۔ یہ لفظ "صیہون" نامی ایک پہاڑ سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہودیوں کے نزدیک "مقدس سرزمین" یا "سرزمین موعود" کے معنا میں رائج ہو گیا ہے۔ اس لفظ کو پہلی بار ایک جرمن یہودی مصنف بارنتن برینیوم نے انیسویں صدی میں یہودیوں کے درمیان ایک نئی سیاسی سوچ کیلئے استعمال کیا تھا۔ سیاسی صیہونیزم ہرٹسل کی جانب سے اسکی تحریروں میں ایک عملی منصوبے کے طور پر استعمال کیا گیا جسکی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ دنیا میں ایک مسئلہ "مسئلہ یہود" کے عنوان سے موجود ہے جسکی اصل وجہ یہودیوں کی دربدری اور اصلی وطن نہ ہونا ہے اور اسکا واحد حل یہ ہے کہ دنیا کے تمام یہودی اپنی اصلی سرزمین یعنی فلسطین کی طرف لوٹ جائیں اور وہاں ایک خالص یہودی ریاست قائم کریں۔ یہ تحریک انیسویں صدی میں اس وقت وجود میں آئی جب دو بڑے سیاسی نظریئے پائے جاتے تھے۔ پہلا نظریہ انسانی بھائی چارے، مساوات، ترقی اور ایسی دنیا قائم کرنے پر مبنی تھا جس میں تمام انسان ایک گھرانے کے طور پر زندگی بسر کر سکیں جبکہ دوسرا نظریہ ایک خاص نسل کی دوسرے انسانوں پر برتری کا نظریہ تھا۔ پہلا نظریہ لیبرالیزم سے لیا گیا تھا جسکے حامی فقیر یہودی تھے جبکہ دوسرا نظریہ ایسے یہودیوں کا تھا جو انسانی مساوات کے قائل نہیں تھے بلکہ یہودی نسل کی برتری کے قائل تھے۔
سیاسی صیہونیزم کی تشکیل کے اسباب:
سیاسی صیہونیزم انیسویں صدی میں مختلف وجوہات کی بنا پر معرض وجود میں آیا۔ ان میں سے ایک وجہ یہودی ستیزی کی بحث ہے جو 1880 کی دہائی کے شروع میں "یوگرومز" کی شکل میں روس میں ظاہر ہوئی۔ یوگرومز یہودیوں کے پاس ایک الگ اور خودمختار حکومت بنانے کا اصلی بہانہ سمجھا جاتا ہے۔ پنسکر نے 1882 میں "خودمختاری" کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ یہودی ستیزی کی اصلی وجہ یہودیوں کی بزدلی ہے۔ اس نے اس کتاب میں یہودیوں کو منظم ہونے کی ترغیب دلائی۔ اس نے اس بارے میں یوں لکھا: "دنیا یہودیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ دنیا میں ہماری کوئی وطن نہیں ہے اور ہم ہر جگہ اجنبی سمجھے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ ساری دنیا کے یہودی فلسطین میں جمع ہو جائیں اور ایک آزاد یہودی ریاست قائم کریں"۔ اس کا نتیجہ یہودی کانگرس کی تشکیل تھا۔ سیاسی صیہونیزم کی تشکیل میں ایک اور اہم کردار فلسطین میں عبری زبان کے احیاء کی تنظیم کا تھا۔ یہ تنظیم مختلف وجوہات کی بنا پر 1880 اور 1881 میں روس سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کا نتیجہ تھی۔ ان متعصب یہودیوں نے اپنے قومی مفادات کی خاطر فلسطین میں اس زبان کی ترویج شروع کی تاکہ دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے یہودی ایک مشترکہ شناخت پیدا کر سکیں۔ اسی طرح صیہونیزم کی تشکیل کی ایک اور اہم وجہ ہرٹسل کی طرف سے "یہودی حکومت" نامی کتاب کا منظر عام پر آنا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت نے اس وقت کے یہودیوں میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کر دی۔ ہرٹسل نے جب دیکھا کہ اسکی کتاب کا کس قدر استقبال کیا گیا ہے تو وہ اپنی فکری استعداد کی بنیاد پر صیہونیزم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے پر تیار ہو گیا۔ لہذا اس نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے رابطہ کیا۔ وہاں سے مثبت جواب نہ ملنے پر برطانوی حکومت سے رابطہ کیا۔ اسکے بعد سے یہودیوں کے نزدیک اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے برطانیہ ایک اہم گزینہ بن گیا۔ اسی طرح برطانیہ یہودیوں کے اقتصادی اداروں کا مرکز بن گیا۔ یہودیوں کا نیشنل فنڈ، یہودی ٹرسٹ اور دوسری بہت سی یہودی کمپنیاں برطانوی کمپنیوں کے روپ میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ برطانیہ نے بھی اپنے استعماری اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہودیوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی اور انہیں اپنے زیر سایہ قرار دیا۔
سیاسی صیہونیزم کا بانی:
اگرچہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد کا زمینہ مختلف یہودی تنظیموں نے فراہم کیا تھا لیکن سیاسی صیہونیزم اور اسرائیلی کا بانی تھئوڈور ہرٹسل کو سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ نظریہ 1896 میں ہرٹسل کی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد وجود میں آیا۔ اس کتاب میں اس نے صہیونیسم کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ اس کتاب کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ یہودی دنیا میں جہاں بھی ہیں ایک قوم کو تشکیل دیتے ہیں،
۲۔ وہ دنیا میں ہر جگہ آزار و اذیت کا شکار رہے ہیں،
۳۔ وہ جن اقوام میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں گھل مل نہیں سکتے۔
ہرٹسل نے 1887 میں "دی وسٹ" کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا جو صیہونیستی سوچ کو پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کرنے لگا۔ اسی سال ہرٹسل نے سویٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک صیہونیستی کانگرس کی تشکیل کا اہتمام کیا۔ اس کانگرس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین میں ایک یہودی مرکز ایجاد کیا جائے اور ایک بین الاقوامی صیہونی تنظیم کی بنیاد ڈالی جائے جس کا ہدف "یہودی قوم کیلئے ایک آزاد اور خودمختار وطن کا قیام" ہو۔ اسی طرح اس کانگرس میں ہرٹسل کو بین الاقوامی صیہونی تنظیم کے صدر اور دوسرے افراد میں سے اس کے معاونین کے طور پر انتخاب کیا گیا۔
سرزمین موعود:
سرزمین موعود یا ارض موعود سے صیہونیستوں کی مراد فلسطین ہے۔ یہ سرزمین صیہونیستوں کی طرف سے یہودی حکومت کے قیام کی اصلی جگہ کے طور پر پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ شروع میں صیہونیستوں کے درمیان یہودی حکومت کی تشکیل کی جگہ کے بارے میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ برطانیہ نے بھی یہودیوں کے حامی کے طور پر ان کو اس بارے میں مختلف مشورے دیئے تھے۔ 1902 میں برطانیہ نے ہرٹسل کی سربراہی میں ایک یہودی وفد کو صحرای سینا میں یہودی وطن قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہودی انجینئرز نے وہاں جا کر کچھ مطالعات انجام دیئے اور پھر یہ کہ کر اس پیشکش کو رد کر دیا کہ وہاں کی سرزمین ایک ریگ زار اور صحر ہے جو ان کیلئے مناسب نہیں ہے۔ اسکے بعد برطانیہ نے انہیں یوگنڈا اور چاڈ کے علاقے کی پیشکش کی لیکن یہودیوں نے اسکو بھی قبول نہیں کیا۔ یہودیوں نے اپنی کانگرس میں صرف فلسطین کو سرزمین موعود کے طور پر پیش کیا۔ برطانیہ جو خلافت عثمانی کو توڑنے کا ارادہ سر میں لئے ہوئے تھا نے یہ مطالبہ قبول کر لیا اور روس اور فرانس سے بھی اس بارے میں مذاکرات کئے۔ یہ معاہدہ جو 1916 کے اوائل میں برطانوی نمائندے مارک سایکس اور فرانسوی نمائندے جرج پیکو کے درمیان طے پایا "سایکس پیکو" معاہدے کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ فلسطین کی دو اہم بندرگاہیں عکا اور حیفا برطانیہ کو دے دی جائیں۔ اس خفیہ معاہدے کے بعد برطانیہ نے ایک بیانیہ صادر کیا جس میں یہودیوں کے وطن کا ذکر کیا گیا۔ یہودی اور صیہونیست اس بیانیہ سے بہت خوش ہوئے۔ اس طرح صیہونیزم کے سیاسی اقدامات اور برطانیہ کی حمایت دنیا کے مختلف حصوں سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنی۔
صیہونیزم کے حامی یہودی:
اس زمانے میں یہودیوں کے اندر مذہبی اعتقادات کے حوالے سے دو بڑے دھڑے پائے جاتے تھے۔ ایک مذہبی دھڑا اور دوسرا سیکولر دھڑا۔ سیکولر دھڑے کی اکثریت چونکہ سیاسی طور پر سرگرم تھی لہذا اس نے فوراً صیہونیزم کو قبول کر لیا۔ لیکن یہودیوں کا مذہبی دھڑا صیہونیزم کے مقابلے میں دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ جو صیہونیزم کا حامی تھا "مذہبی صیہونیزم" کے نام سے معروف ہو گیا اور دوسرا گروہ جو صیہونیزم کا مخالف تھا "متعصب ارتھوڈوکس" یا "شدت پسند" کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس تقسیم بندی سے باہر بھی ایسے یہودی موجود ہیں جو صیہونیزم کے مخالف ہیں۔ سیاسی صیہونیزم کی تشکیل کے بعد دنیا کے مختلف علاقوں سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والے یہودیوں میں اکثر تعداد ایسے متعصب یہودیوں کی تھی جو شدید صیہونیستی تمایلات کے حامل تھے اور مقامی افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی کے ساتھ اختلافات کا شکار تھے۔ فلسطین کے مقامی افراد انہیں ایسے غاصب کی نظر سے دیکھتے تھے جو سیاسی، جارحانہ اور نسلی اہداف رکھتے ہوں۔ لہذا ان مہاجروں نے برطانیہ کی مدد سے پہلے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کیا اور پھر وہاں کی حاکمیت مقامی افراد سے چھین لی۔
مسلح گروہوں کی تشکیل میں صہیونیستوں کا پہلا قدم:
فلسطین میں ہجرت کرنے والے یہودیوں کے نسلی اور مذہبی تعصبات اور مقامی فلسطینی شہریوں کا ان متعصب افراد سے مقابلہ ان کے درمیان دشمنی کے پیدا ہونے کا سبب بن گیا۔ یہی چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہودی مہاجر فلسطین میں آتے ہی اپنے دفاع کی خاطر مسلح گروہ بنانے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ یہ گروہ بنانے کا ایک اور مقصد اردگرد کے علاقوں پر حملہ کرنا اور اپنی سرزمین کو وسعت بخشنا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ مسلح گروہ تشکیل دینے کی خواہش، وایزمین کی طرف سے اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان اور سیاسی صیہونیسم کی تشکیل وہ عوامل تھے جنہوں نے یہودیوں کو برطانیہ کے ہاتھ میں ایک آلہ کار کے طور پر تبدیل کر دیا اور برطانیہ انہیں اپنے استعماری اہداف کے حصول کی خاطر استعمال کرنا شروع ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوا چاہتی تھی۔ یہ جنگ برطانیہ کیلئے کافی پریشان کن تھی۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ امریکہ کو بھی اس جنگ میں شامل کرے تاکہ دشمن کے خلاف ایک اور محاذ کھولا جا سکے۔ یہودیوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور برطانیہ سے اس بات پر مذاکرات کئے کہ اگر وہ انہیں فلسطین میں ایک آزاد ریاست بنانے کا وعدہ دے تو وہ اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو بھی جنگ میں شامل ہونے پر رضامند کر لیں گے۔ گویا کہ یہ مذاکرات کامیاب رہے اور امریکہ میں مقیم یہودیوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ اسی دوران جنگ میں برطانیہ کی مدد کیلئے یہودیوں کا ایک مسلح گروہ جیوش لژیون (jewish legion) معرض وجود میں آیا جس کے ممبران جنگ کے بہانے فلسطین میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے آخر میں اس گروہ میں شامل افراد کی تعداد تقریباً 11000 تک پہنچ چکی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اس گروہ کے افراد ولادیمیر جابوٹینسکی (Vladimir jabotinsky) کی قیادت میں فسطین آ گئے۔ اس طرح سے فلسطین میں موجود صیہونیست بہت زیادہ طاقتور ہو گئے۔ ان مسلح افراد کی سرگرمیاں مقامی افراد کی طرف سے شدید اعتراض کا سبب بنیں۔ حتی فلسطین کے اندر اور باہر موجود مذہبی یہودیوں نے بھی ان سرگرمیوں پر شدید اعتراض کیا۔ مخالف یہودیوں کا تعلق ارتھوڈوکس فرقے سے تھا جنکے عقیدے میں یہودی ریاست کے قیام کی کوشش مذہبی اعتبار سے ممنوع تھی اور خدا کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف تھی۔ ان کی نظر میں اسرائیلی ریاست کے قیام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے یہودیوں کا معروف ترین گروہ "نٹوریکاٹا" تھا۔ سیاسی صیہونیزم برطانیہ کی مدد سے فلسطین میں یہودی کالونیاں بنانے اور انکی حفاظت کیلئے مسلح افراد مہیا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جیوش ایجنسی برطانیہ کی طرف سے رسمی طور پر فلسطین میں یہودیوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کر دی گئی جو فسطین میں مقامی افراد کی حاکمیت کو ختم کرنے میں پہلا قدم ثابت ہوئی۔
صیہونیستی ٹروریسٹ گروہوں کی تشکیل:
برطانیہ بیت المقدس پر قبضہ کرنے اور اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب خلافت عثمانی میں اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رہی، وہاں پر ایک آزاد اور خودمختار یہودی ریاست قائم کرنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہو گیا۔ لہذا برطانیہ نے جیوش لژیون کے مزید اعضاء کو فلسطین آنے سے روک دیا اور اکتوبر 1919 میں اس مسلح گروہ کے سربراہ ولادیمیر جابوٹینسکی کو بھی 30 ماہ تک برطانوی فوج میں ملازمت کرنے کے بعد اپنے عہدے سے برکنار کر دیا۔ اس طرح سے یہ مسلح گروہ رسمی طور پر ختم ہو گیا۔ لیکن جابوٹینسکی نے مقامی عرب باشندوں کے مقابلے میں یہودی مہاجرین کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لہذا فلسطین میں مختلف قسم کے مسلح صہیونیست گروہ معرض وجود میں آنا شروع ہو گئے۔ ہم ان مسلح گروہوں پر ایک مختصر نظر ڈالیں گے اور ساتھ ہی وہ عمدہ دہشت گردانہ کاروائیاں بھی ذکر کریں گے جو ان گروہوں نے انجام دیں۔
1۔ ھاگانا آرگنائزیشن:
دسمبر 1919 میں جابوٹینسکی نے فلسطین کے کچھ مہاجر یہودیوں کو متقاعد کیا کہ یہودیوں کے دفاع کیلئے "ھاگانا" نامی ایک تنظیم بنائی جائے۔ یہ مسلح گروہ در واقع جیوش ایجنسی کی فوج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جیوش ایجنسی ابتدا سے ہی اس کوشش میں تھی کہ ھاگانا آرگنائزیشن کو فلسطین کی سیکورٹی فورسز کے طور پر متعارف کروائے۔ اسی مقصد کیلئے جابوٹینسکی نے برطانوی جنرل رونلڈ ریسٹورس سے مذاکرات کئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ ھاگانا آرگنائزیشن کے افراد کو بیت المقدس کی پولیس کے طور پر بھرتی کرے۔ جیوش ایجنسی نے ھاگانا آرگنائزیشن کو مختلف مواقع پر کبھی برطانیہ کے حق میں اور کبھی اسکے خلاف استعمال کیا۔
ھاگانا کے دہشت گردانہ اقدامات:
جولائی 1933: حیسیم آرلوسوروف کا قتل،
17 جولائی 1937: فلسطین میں تین عرب باشندوں کا قتل،
25 نومبر 1940: پیٹریا بحری جہاز میں دھماکہ جس میں فلسطین آنے والے یہودی مہاجر سوار تھے۔ 140 مہاجر ہلاک ہو گئے،
24 فروری 1942: استقروما بحری جہاز میں دھماکہ جس میں 769 یہودی مہاجر سوار تھے۔ سب اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جیوش ایجنسی نے اسکو یہودی مہاجرین کی طرف سے اعتراض کے طور پر خودکشی کا واقعہ قرار دیا،
20 فروری 1947: حیفا کے نزدیک عراق کی آئل پائپ لائن میں دھماکہ۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں موشہ دایان بھی شریک تھا،
19 دسمبر 1947: صفر کے نزدیک ایک عرب دیہات میں دو گھروں کو مسمار کرنا جس میں 10 افراد جن میں سے 5 بچے تھے جاں بحق ہو گئے،
20 دسمبر 1947: قزازہ کے دیہات پر حملہ اور گھروں کو دھماکے سے اڑا دینا۔
2۔ بیتار گروپ:
اس گروپ کا نام اپنے بانی برٹ یوسف ٹرومیلڈر کے نام سے لیا گیا ہے۔ یہ شخص 1920 میں جلیلیہ کیمپ کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ ایک لڑائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس گروپ میں شامل شدت پسند یہودی جوان "براون شرٹ گروپ" کے نام سے مشہور تھے۔ اس گروپ کے افراد ھاگانا آرگنائزیشن سے نکل کر آئے تھے۔ جابوٹینسکی نے بھی اس گروپ کی سربراہی کی تھی۔
3۔ ارگون زیائی لیومی گروپ:
یہ شدت پسند گروہ 1930 کی دہائی کے اواسط میں ھاگانا سے الگ ہونے والے افراد نے تشکیل دیا اور 1940 کی دہائی میں مناخیم بگن کی سرکردگی میں سرگرم عمل رہا۔ مناخیم بگن نے اپنی ڈائری میں اس گروپ کی تشکیل، تنظِم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی مکمل تفصیل لکھی ہے۔ اس نے اس گروہ کی تشکیل کے بارے میں لکھا ہے: "ہم نے ایک فوج تشکیل دی اور اسکا نام ارگون رکھا اور اس میں مختلف سیکشنز کو تشکیل دیا جن میں کمانڈوز کا سیکشن، انقلابی سیکشن اور پروپیگنڈہ سیکشن شامل تھے"۔ اسکے بعد وہ اس گروپ کے تنظیمی ڈھانچے اور اسکے طرز کار کی وضاحت کرتا ہے۔ وہ ارگون کے اندرونی سیسٹم کے بارے میں کہتا ہے: "ہمارا اندرونی سیسٹم دو بنیادوں پر استوار تھا؛ پہلی اطاعت اور دوسری مخفی کاری۔ ارگون اپنے اس اندرونی سیسٹم اور کامیاب دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے بہت جلد ایک خوفناک صیہونیستی دہشت گرد تنظیم میں تبدیل ہو گئی حتی کہ بیگن یہ اعتراف کرتا ہے کہ: "ہر جگہ اس تنظیم کے نام کا خوف اور دہشت طاری تھی۔ ایسی دہشت جو صرف کہانیوں میں ملتی ہے۔ اس رعب و وحشت نے ہماری کامیابیوں میں بہت اہم کردار ادا کیا جو اسکے بغیر ممکن نہ تھیں"۔ ارگون کی کامیابیاں باعث بنیں کہ 1940ء کی دہائی میں یہود ایجنسی ارگون کے رہنماوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرے جسکے مطابق دونوں کے درمیان دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے میں تعاون اور ہمکاری برقرار ہو گیا۔
ارگون گروپ کے دہشت گردانہ اقدامات:
اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ درج ذیل ہے:
2 جولائی 1939ء: بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،
12 اور 26 فروری 1944ء: بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،
25 فروری 1944ء: دو برطانوی پولیس اہلکاروں کا قتل،
8 اکتوبر 1944ء: برطانوی ہائی کمیشن کے قتل کی کوشش اور سر ہارولڈ مک میچل کا قتل،
27 ستمبر 1944ء: چار پولیس چوکیوں پر حملہ اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،
مارچ اور مئی 1945ء: مختلف جگہوں پر بم دھماکے اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،
13 ستمبر 1946ء: تل ابیب اور حیفا میں عثمانی بینکوں پر حملہ،
1 اکتوبر 1946: روم میں برطانوی سفارتخانے میں بم دھماکہ،
13 مارچ 1947ء: بیت المقدس میں برطانوی فوجی مرکز میں بم دھماکہ،
19 جولائی 1947ء: حیفا میں ایک برطانوی پولیس اہلکار کا قتل اور دوسرے کو زخمی کرنا،
16 دسمبر 1947ء: ڈیلی ٹائمز کو بھیجے گئے ایک خط کے ذریعے برطانوی عہدے داروں کو دھمکی،
1 مارچ 1948ء: فلسطین کو تقسیم کرنے کے اقوام متحدہ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے 254 فلسطینی دیہاتیوں کا قتل عام۔
4۔ اشٹرن گروپ:
یہ گروپ 1930 کے عشرے کے آخر میں ارگون سے الگ ہوا۔ اس گروپ کے سربراہ کا نام ابراہم اشٹرن تھا جو برطانیہ کا شدید مخالف اور نسل پرستانہ، نازی اور فاشیستی سوچ کا مالک تھا۔ اشٹرن 1939ء میں جرمنی کے خلاف برطانیہ کی مدد کیلئے صیہونیستوں کے بھیجے جانے پر احتجاج کے طور پر ارگون سے علیحدہ ہو گیا اور "اشٹرن" کے نام سے اپنے نئے دہشت گرد گروپ کی بنیاد ڈالی۔ وہ موسولینی کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے گروپ میں شامل جنگجووں کو برطانیہ اور عربوں کے خلاف فلسطین میں منظم کیا۔ اشٹرن نے اپنے نسل پرستانہ عقائد اور نازیزم اور فاشیزم کے ساتھ دلبستگی کی بدولت یہ عہد کیا تھا کہ فلسطین میں صیہونیستی حکومت کی تشکیل میں اٹلی اور جرمنی کی حمایت کے بدلے یہ حکومت جرمنی کے ساتھ وفادار رہے گی اور فلسطین میں یہودیوں کے مقدس مقامات واٹیکن کے ساتھ وابستہ رہیں گے۔ یہود ایجنسی کے مقابلے میں اشٹرن کا موقف بظاہر ایک تضاد تھا لیکن درحقیقت عالمی صیہونیزم کے اہداف کے مطابق تھا۔ اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں اس قدر وسیع تھیں کہ برطانیہ کے جاسوسی ادارے M15 کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: "اس ادارے کی طرف سے انجام دی گئی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ دو گروپ اشٹرن اور ارگون تقریبا 100 دہشت گردانہ کاروائیوں میں شریک رہے ہیں، جسکی بنیاد پر انکے کچھ ممبران کو سزائے موت جبکہ دوسروں کو عمر قید سنائی گئی ہے"۔
اشٹرن گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں:
یہ گروہ اپنی نازی اور فاشیستی سوچ کی وجہ سے اپنے مقاصد کو دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ تمام دہشت گردانہ اقدامات سیاسی صیہونیزم کے اہداف کے مطابق تھیں۔ ذیل میں کچھ دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ دی جا رہی ہے:
جنوری 1942ء: 2 برطانوی فوجی افسروں کی ملاقات کی جگہ پر بم دھماکہ،
22 اپریل 1942ء: ایک پولیس افسر اور اسکے ساتھیوں پر ناکام قاتلانہ حملہ،
6 نومبر 1944ء: جنگ کے دوران برطانوی سفیر لارڈ موین کا قتل،
25 اپریل 1946ء: فوجی بیرکس میں 9 برطانوی فوجیوں کا قتل،
4 جنوری 1948ء: یافا کے ایک چوک میں بم دھماکہ جو 30 عام شہریوں کے قتل اور 98 کے زخمی ہونے کا باعث بنا،
3 مارچ 1948ء: حیفا میں ایک فوجی گاڑی کا سامنے بم دھماکہ،
31 مارچ 1948ء: قاہرہ سے حیفا جانے والی ٹرین کی پٹڑی کو مائن سے اڑانا جس کی وجہ سے 40 عرب باشندے قتل اور 60 زخمی ہو گئے،
17 ستمبر 1948ء: مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایلچی کنٹ فولک برناڈٹ اور اسکے ایک ساتھی کا قتل۔
5۔ لہی (Lehi) دہشت گرد گروپ:
برطانیہ کی طرف سے دباو کے نتیجے میں ارگون نے 1939ء سے برطانیہ کے خلاف اپنی دہشت گرد کاروائیاں بند کر دیں اور اسکے کچھ ممبران برطانوی فوج میں شامل ہو گئے۔ 1948ء میں سویڈن نژاد اقوام متحدہ کے ایلچی برناڈٹ کے قتل کے بعد اشٹرن کے اکثر اراکین کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ ان دونوں کے سب سے زیادہ فعال اراکین جو زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے نے ایک نیا دہشت گرد گروپ تشکیل دیا جسکا نام لہی رکھا گیا۔ یہ گروپ ممبران کی تعداد کے حوالے سے سب سے چھوٹا گروپ تھا لیکن سب سے زیادہ فعال اور سرگرم تھا۔ اس گروپ نے اشٹرن اور ارگون کے برخلاف روس کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی قائم کی اور آئرلینڈ کے مزاحمتی گروپ آئی آر اے کے طرز پر کاروائیاں شروع کر دیں۔ اشٹرن کا سب سے زیادہ سنگدل اور بے رحم ممبر اسحاق شامیر بھی اس گروپ میں شامل ہو گیا۔ شامیر اس گروپ میں مائیکل آئرلینڈی کے نام سے مشہور تھا۔ اسرائیل کے امور کے ماہر شلنڈر اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے بارے میں لکھتا ہے: "یہ گروپ سب سے چھوٹا دہشت گرد گروہ تھا لیکن 1942ء سے 1948ء کے درمیان ہونے والے قاتلانہ حملوں میں سے 71 فیصد اس گروہ نے انجام دیئے۔ اس گروپ کا پہلا لیڈر 1942ء میں تل ابیب میں پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا"۔ اس گروپ کی سب سے بڑی دہشت گردانہ کاروائی 1944ء میں مصر میں لارڈ موین، برطانوی فوجی کمانڈر کا قتل تھی۔
6۔ پالماخ گروپ:
یہ گروہ ھاگانہ دہشت گرد گروپ کی ایک شاخ تھی۔ 1941ء میں جب ھاگانہ کی موبائل ایکشن ٹیم تشکیل دی گئی تو یہ گروپ ھاگانہ کی کمانڈ میں جداگانہ طور پر تحریک مزاحمت کی آڑ میں قاتلانہ حملے انجام دیتا تھا۔ اس گروپ کی کچھ دہشت گردانہ کاروائیاں درج ذیل ہیں:
14 اور 15 فروری 1938ء: پالماخ کی تھرڈ بٹالین نے سعسع کے گاوں پر حملہ کیا اور 20 گھروں کو بم سے اڑا دیا جسکے نتیجے میں 60 عرب باشندے قتل ہو گئے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی،
30 اور 31 دسمبر 1947ء: پالماخ نے بلد الشیخ کے گاوں پر حملہ کیا اور 60 سے زیادہ عرب باشندوں کو انکے گھروں میں قتل کر ڈالا،
12 اپریل 1948ء: قلوینا کے گاوں پر حملہ کر کے 14 افراد کو قتل کر ڈالا،
12 جولائی 1948ء: لد کے شہر میں صیہونیستوں کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے پر حملہ کر کے 250 افراد کو قتل کر دیا۔
7۔ تحریک مزاحمت:
دوسری جنگ عظیم اور جرمنی اور اٹلی کے خلاف نبرد آزمائی کی وجہ سے برطانیہ کی کمزوری نے فلسطین میں برطانوی استعمار کے زیر اثر حکومت پر دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے کاری ضربیں لگانے کا زمینہ فراہم کر دیا تھا۔ اس وقت یہود ایجنسی اور صیہونیزم سیاسی نے کئی حوالے سے فعالیت کا آغاز کر دیا۔ عالمی صیہونیزم کا اپنے اہداف کے حصول کی خاطر امریکا کی طرف جھکاو ایسے وقت میں تھا جب سوشلسٹ صیہونیزم نے امپریالیسٹ امریکہ کی پناہ حاصل کی۔ اسکے علاوہ شدت پسند ترین صیہونیستی دہشت گرد گروہوں کی مدد سے تحریک مزاحمت کا قیام فلسطین میں برطانیہ کے مفادات کو دھچکا پہنچانے، برطانوی فوجیوں کو وہاں سے نکالنے اور انکی جگہ صیہونیستی گروہوں کو بٹھانے کی غرض سے عمل میں آیا۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے 1945ء میں ھاگانہ، اشٹرن اور ارگون کا اتحاد تحریک مزاحمت کی شکل میں وجود میں آیا۔ یہود ایجنسی جو ھاگانا کو چلا رہی تھی اور ارگون میں ایک خفیہ معاہدہ طے پایا۔ اس تحریک میں ارگون اور مناخیم بگین دہشت گردانہ کاروائیوں میں مرکزی کردار ادا کرتے تھے۔ بگین اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے: "ہمارا پروگرام تین بنیادوں پر استوار تھا۔ ملک میں حکومت کی طرف سے اختیار کئے جانے والے طریقوں کا بغور مطالعہ، بین الاقوامی حالات کا جائزہ اور دوسری جنگ جہانی کے خاتمے پر برطانیہ کے اندرونی حالات کا مکمل جائزہ۔ ہم اپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے اس نتیجے پر پہنچے کہ برطانیہ کا رعب و دبدبہ ختم کیا جائے تاکہ فلسطین میں اسکی حکومت زوال پذیر ہو سکے"۔
تحریک مزاحمت کی دہشت گردانہ کاروائیاں:
مناخیم بگین کی ڈائری کے مطابق تحریک مزاحمت کی کچھ مشترکہ دہشت گردانہ کاروائیاں درج ذیل ہیں:
۱۔ حیفا میں دو اور یافا میں ایک کشتی کو غرق کرنا جنکا کام مہاجرین کا پیچھا کرنا تھا،
۲۔ ریلوے ٹریکس کو 186 مختلف مقامات پر 500 دھماکوں کے ذریعے تباہ کرنا جسکے نتیجے میں شام سے غزہ، یافا سے سمخ اور لد سے قدس کے درمیان تمام ٹرینیں بند ہو گئیں،
۳۔ لد کے ریلوے سٹیشن پر حملہ اور جانی و مالی نقصان پہنچانا،
۴۔ حیفا میں آئل ریفائنری پر حملہ،
۵۔ فلسطین میں برطانوی مستعمرہ حکومت کے ہوائی اڈوں پر حملے اور جنوب فلسطین میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری،
۶۔ جولائی 1946ء ملک داود ہوٹل کو منہدم کرنا،
۷۔ اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو آزاد کروانے کیلئے اشٹرن اور ارگون کا قدس جیل پر حملہ،
۸۔ قدس اور یافا میں CID کے مراکز پر دہشت گردانہ حملہ۔
یہود ایجنسی ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کی مکمل نگرانی کر رہی تھی اور یہ تمام کاروائیاں اسکی مرضی سے انجام پائی تھیں۔ اشٹرن، ارگون اور پالماخ گروپس ھاگانا کی جانب سے ان دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور اجراء کرتے تھے۔
نتیجہ گیری:
انیسویں صدی کے آخر میں سیاسی صیہونیزم کی پیدائش اور اپنے اصلی مقصد کے حصول کیلئے برطانوی حکومت میں اسکے اثر و رسوخ نے برطانیہ کے سیاسی فیصلوں کے ساتھ مل کر اس استعماری سوچ کے حامل ملک کیلئے یہ زمینہ فراہم کیا کہ وہ 1916ء میں سایکس-پیکو معاہدے کے انعقاد اور 1920ء میں بالفور اعلان کے جاری کرنے کے بعد فلسطین کی سرپرستی اپنے ہاتھ میں لے لے اور اس طرح سے بظاہر قانونی طور پر پورے یورپ اور دنیا سے صیہونیستوں کی برطانیہ کے زیر سایہ فلسطین کی طرف مہاجرت کا زمینہ فراہم کرے۔ اسی طرح یہود ایجنسی کو دنیا کے یہودیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر قبول کر لے اور اس ایجنسی کے طرفدار مسلح صیہونیستوں کو فلسطین کے سیکورٹی اداروں میں بھرتی کرے اور اس طرح سے 1920ء کی دہائی میں قدس پر انکے قبضے کا راستہ ہموار کر دے۔ 1930ء کی دہائی کے بعد جب برطانیہ نے یہودیوں کی بے تحاشہ مہاجرت اور صہیونیستی دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں سے خطرے کا احساس کیا تو انہیں محدود کرنے کی کوشش کی۔ یہ شدت پسند گروہ جو فلسطین میں یہود ایجنسی کے زیر سایہ سرگرم تھے، برطانیہ کے اس منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان گروہوں نے برطانیہ کے مفادات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مقامی افراد کی قتل و غارت کے علاوہ فلسطین کے اندر اور باہر برطانوی جاہ و جلال کے مظہر مراکز پر بھی حملے شروع کر دیئے۔ دوسری عالمی جنگ نے برطانیہ کی بین الاقوامی طاقت کو کم کر دیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ اپنی کالونیوں کو برقرار رکھنے پر قادر نہ تھا۔ لہذا فلسطین کی سرپرستی اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی۔ یہود ایجنسی اور عالمی صیہونیزم نے اپنی پالیسیوں میں اسٹریٹجک تبدیلی کی جسکے مقدمات 1930ء کی دہائی میں فراہم کئے گئے تھے اور امریکا کا رخ کیا۔ امریکہ جو برطانیہ کے زوال کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کی کوشش میں مصروف تھا نے اقوام متحدہ کی مدد سے صیہونیستوں کو اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچا دیا۔ اس طرح غیر فلسطینی صیہونیست مہاجروں نے فلسطینی حکومت کو غصب کر لیا اور قدس کی قابض رژیم کی بنیاد ڈال کر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دہشت گرد صہیونیست گروہوں نے 1930ء سے لے کر رژیم صیہونیستی کی تشکیل تک عالمی صیہونییزم اور برطانیہ کی سیاست اور پالیسیوں پر انتہائی گہرا اثر ڈالا جن میں سے کچھ موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ صہیونیزم کو ایک نسل پرستانہ اور یہودیوں سے مخصوص ملک کے حصول کے راستے پر لگا دیا جو اس جمہوری حکومت کے نظریے سے یکسر مختلف تھا جو ہرٹزل نے پیش کیا تھا۔
۲۔ یہودیوں کے قومی وطن پر مبنی برطانیہ کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور برطانیہ کو یہ یقین دلوایا کہ وہ فلسطین کی دیکھ بھال پر قادر نہیں ہے جو فلسطین سے برطانیہ کے نکلنے میں انتہائی موثر ثابت ہوا۔
۳۔ دہشت گرد گروہوں کی قتل عام اور بے رحمانہ قتل و غارت کے ذریعے رعب و وحشت کی فضا قائم کرنے میں کامیابی اور برطانیہ کا ان دہشت گردانہ کاروائیوں کا موثر انداز میں مقابلہ نہ کرنا اور عرب باشندوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا فلسطین پر یہودیوں کے قبضے اور عرب باشندوں کے جلاوطن ہونے پر منتج ہوا۔
۴۔ ان دہشت گردانہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہود ایجنسی اور عالمی صہیونیزم یہ سمجھ گئے کہ اگر وہ باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھنا ہوں گی۔


خبر کا کوڈ: 16802

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/16802/صیہونیزم-اور-ٹروریزم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org