0
Sunday 10 Jun 2012 10:42

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
تحریر: نذیر ناجی 

شکاگو میں صدر زرداری کو نظرانداز کرنے کا جو ڈرامہ تیار کیا گیا تھا، اس کا ایک پس منظر ہے۔ پہلے اس ڈرامے کی تھوڑی سی تفصیل بھی عرض کر دوں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ماہرین نے پینٹاگون کی مشاورت سے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ کس طرح قدم قدم پر میڈیا کے سامنے ایسے مناظر مینوفیکچر کئے جائیں گے، جن میں امریکی بتا سکیں کہ صدر زرداری کو ان کے میزبان ہراساں کر رہے ہیں۔ ایک ایک حرکت منصوبے کے مطابق ہوئی۔ حتیٰ کہ جس مکھی کو مار کے صدر اوباما نے میڈیا کو نمایاں طور پر آنکھ ماری، وہ بھی ایک واضح اشارہ تھا اور کچھ بعید نہیں کہ 30 برس گزرنے کے بعد اس کی تفصیل بھی سامنے آ جائے کہ مکھی اور اس کی ہلاکت کا انتظام کیسے کیا گیا تھا؟ اب جو کچھ سامنے آ رہا ہے، وہ اس امر کی شہادت ہے کہ مکھی مار کے صدر اوباما نے جس خوشی اور خواہش کا اظہار کیا تھا، اس کا ہدف کون تھا؟
 
حقیقت یہ ہے کہ عام تصور اور اندازے کے برعکس صدارت کا منصب سنبھالتے ہی صدر زرداری امریکہ کو کھٹکنے لگے تھے۔ آپ جانتے ہیں افغان صدر حامد کرزئی، امریکہ کی مٹھی میں بند پرندہ ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ وہی طرزعمل اختیار کرتے ہیں جس کی انہیں اجازت دی جائے۔ لیکن صدر زرداری نے اپنے حلف وفاداری سے پہلے جس طرح صدر حامد کرزئی کو مدعو کر کے خصوصی مہمان بنایا، وہ امریکہ کی رضامندی سے نہیں ہوا تھا اور امریکیوں کو صدر زرداری کی یہ پہل بری لگی تھی۔ اس کے بعد صدر زرداری نے خاموشی سے پاکستان کو علاقائی برادری کے قریب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
 
میں بارہا قارئین کو یاد دلاتا رہتا ہوں کہ پاک بھارت کشیدگی، درحقیقت امریکی سازشوں کا نتیجہ ہے اور جب بھی یہ کشیدگی ختم ہونے لگتی ہے، تو امریکہ فکرمند ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے حکمران ٹولے کا مائنڈ سیٹ پاک بھارت دشمنی سے اوپر اٹھنے کا عادی ہی نہیں۔ جب صدر زرداری نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کئے، تو اندرونی مزاحمت میں شدت آنے لگی، جبکہ امریکہ نے اسے مزید ہوا دی اور جب صدر نے ایران کے ساتھ رابطے شروع کئے، تو ان پر مزید دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیسے جیسے دباؤ بڑھتا گیا، صدرزرداری اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق آگے بڑھتے چلے گئے۔ 

چین سے دیرینہ اور آزمودہ تعلقات کی بنیادیں مضبوط کرنا شروع کر دیں اور سب سے بڑا چھکا انہوں نے یہ مارا کہ روس جسے ہم نے سردجنگ میں اپنی مخالفت پر مامور کر رکھا تھا، اس کی طرف بھی بڑی رازداری سے پیش قدمی شروع کر دی۔ اب یہ باتیں منظر عام پر آنے لگی ہیں کہ وزیراعظم پیوٹن کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ اور انہوں نے صدر بنتے ہی سب سے پہلے پاکستان کو ایک نئے دور کی بشارت دیتے ہوئے خیرسگالی کے پیغامات کیسے بھیجے؟ یہ ایک طویل کہانی ہے۔ 

صدر زرداری نے تلوار کی دھار پہ پاؤں رکھ دیا تھا اور انہوں نے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اثرات کے طوفان میں اپنے خطرناک سفر کا آغاز کیا۔ پاکستان کا ریاستی ذہن جو امریکہ کے سوا دوسرے راستے کی طرف دیکھنے کا روادار نہیں تھا، اسے آہستہ آہستہ احساس دلایا گیا کہ ہمیں امریکہ کے ساتھ دوستی کی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے، مگر اس کی یہ قیمت ہرگز ادا نہیں کی جا سکتی کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو امریکی مفادات کی نظر سے دیکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ”امریکہ سے دوستی کا مطلب دوسروں سے دشمنی نہیں۔“ 

یہ وہی پاکستان تھا جس میں نواز شریف جیسے مضبوط وزیراعظم کو بھرپور عوامی تائید کے ساتھ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش میں نہ صرف ناکام کیا گیا، بلکہ عبرت کا نشان بنانے کے لئے انہیں ہتک آمیز طریقے سے پہلے برطرف اور پھر جلاوطن کر دیا گیا۔ ان سے پہلے بھٹو صاحب کو بھی اسی ناکردہ جرم کی سزا دی گئی جو وہ تنازعہ کشمیر حل کر کے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کی صورت میں کرنے جا رہے تھے۔ 1976ء میں آزاد کشمیر کی سرزمین پر ایک تقریر میں انہوں نے یہ کہہ کر اپنے مستقبل پر مہر لگا دی تھی کہ ”انتخابات کے بعد میں بھارت کے ساتھ تنازعہ کشمیر حل کر کے دوستی اور تعاون کے رشتے استوار کروں گا۔“ 

میرے ذہن میں یہ سارا پس منظر تھا۔ جب 2009ء کے اوائل میں صدر زرداری نے ایک ملاقات میں اپنا یہ عزم دہرایا کہ ”میں پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے لئے ناپسندیدہ اور اجنبی نہیں رہنے دوں گا۔ امریکہ سے ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ اس کے ساتھ ہم اپنے قریبی اور دیرینہ تعلقات برقرار رکھیں گے، مگر اپنے پڑوسیوں کی برادری میں اپنے لئے اعتماد اور عزت و احترام پیدا کر کے نئے رشتے قائم کریں گے۔“ ماضی کے تجربات کو یاد کرکے میں نے انہیں ڈرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے ملک میں امریکی اثر و رسوخ کی طاقت کا خیال رکھیے گا۔ آپ ایک انتہائی پرخطر راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔“ 

انہوں نے حسب عادت ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ”مجھے اللہ تعالٰی کی مدد اور عوام کی محبت چاہیے اور تم تو میرے حق میں ضرور دعا کرو گے۔“ یہ کہانی جو میں نے چند سطور میں بیان کر دی ہے، اسے موجودہ موڑ تک پہنچانے کے لئے صدر زرداری کو بارہا سازشوں کا شکار ہونا پڑا۔ کئی مرتبہ وہ برطرف ہوتے ہوتے بچے۔ کئی بار انہوں نے اپنی موت کے لئے پھیلائے گئے جال توڑے۔ لیکن اپنے عزم سے دستبردار نہیں ہوئے۔ 

آج پاکستانی ریاست کا وہی مائنڈ سیٹ جو امریکہ کے بغیر سانس لینے سے بھی ڈرتا تھا، امریکہ کی حالیہ غضبناکیوں کے سامنے بھی ڈٹ جانے پر آمادہ ہو چکا ہے اور خودمختاری کی بحالی کے راستے پر شروع کئے گئے سفر میں جنرل کیانی اور ان کے ساتھی ڈٹ کر اس منزل کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج بھی اقتدار کے ڈھانچے کے اندر سے کئی بار خوف کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں امریکی مطالبات کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ مگر انہی آوازوں کے اندر سے حنا ربانی کھر کی مردانہ آواز بھی ابھرتی ہے کہ ”امریکہ کو معافی مانگنا پڑے گی۔“ اس آواز کے پیچھے وہ اعتماد ہے جو پاکستان کو اپنے حق میں منظم ہوتی ہوئی نئی حمایت کے نتیجے میں پیدا ہونے لگا ہے۔
 
فی الحال کش مکش کی فضا ہے۔ امریکہ پاکستان کی طرف سے سر اٹھا کر بات کرنے کے لہجے پر بری طرح سٹپٹایا ہوا ہے اور روایتی جاگیردار کی طرح دانت پیستے ہوئے دھمکی پر دھمکی دے رہا ہے۔ لیکن پاکستان جس کا سربراہ، امریکیوں کے ایک ٹیلیفون پر کانپنے لگتا تھا، آج پے درپے دھمکیوں اور تادیبی اقدامات کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑا ہے۔ وہ ان دھمکیوں کے جواب میں اشتعال انگیزی بھی نہیں کر رہا، مگر جھکنے سے بھی انکاری ہے۔ قوم کو پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ آزادی و خودمختاری کا حق محض یو این کے چارٹر میں لکھے ہوئے الفاظ نہیں۔ بلکہ اگر کوئی قوم چاہے تو انہیں حقیقت میں بھی بدل سکتی ہے۔
 
آج ہم اپنے حق کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ کر چکے ہیں اور آپ کو خوشی ہو گی کہ ہمیں ایسی ایسی جگہ سے حمایت اور حوصلہ مل رہا ہے، جہاں سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی تھی۔ اس حوالے سے روس انتہائی ٹھوس فیصلے کرنا چاہتا ہے۔ صدر پیوٹن کے دورے سے پہلے ان کی حکومت کے کئی عہدیدار، اسٹریٹجک ماہرین اور سفارتکار اپنے اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہی روس جو کبھی شنگھائی تعاون کی تنظیم میں پاکستان کو بطور مبصر بلانے کا روادار نہیں تھا، آج اس کا رکن بنانے کے لئے سرگرم ہے۔ 

میں اپنے ملک کے دشمنوں کو خبردار کر کے زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ بتانے سے اپنے آپ کو نہیں روک پا رہا کہ روس اور پاکستان نے مشترکہ فوجی مشقوں کا خاکہ بھی تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی کی پاکستان منتقلی کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ پاک روس تعاون کو چین کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہ مشورہ ہمیں چین کی طرف سے دیا جا رہا ہے کہ ”آپ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھنے بلکہ آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں۔“ 

ہمارے یہ نئے دوست اور ساتھی قرضے اور امداد دینے کے قائل نہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ کرپشن کی لعنت نے امداد اور قرضوں سے جنم لیا۔ ہمارے یہ دوست بقول چینیوں کے ہمیں مچھلی نہیں دیں گے، مچھلی پکڑنے کے طریقے سکھائیں گے۔ یعنی اپنی ترقی کے ثمرات کی خیرات دے کر ہمیں ہڈحرام نہیں بنائیں گے بلکہ خود ترقی کرنے کے راستوں پر لگا کر خوشحالی کی راہیں دکھائیں گے۔ آزادی و خودمختاری کے الفاظ حقیقت میں اسی وقت بدلتے ہیں، جب آپ اپنے وسائل خود پیدا کر رہے ہوں۔
 کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ 
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ 
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 169803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش