0
Monday 18 Jun 2012 00:53

بعثت و قرآن

بعثت و قرآن
تحریر:جابر حسین

زمین کا وسیع و عریض فرش بچھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس میں بسنے کے لئے ایک خاص قسم کی مخلوق انسان کو بھی خلق فرمایا۔ اس خاص قسم کی مخلوق میں ارتقاء و تکامل کا مادہ و شوق فطری طور پر رکھا، پھر اس کی ارتقاء و تکامل پسندی کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص قسم کے کچھ گنے چنے پاکیزہ نمائندوں کو بھی ان کی راہنمائی کی خاطر مبعوث فرمانے کا سلسلہ شروع کیا، جنھیں انبیاء کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان پاکیزہ و منتخب شخصیات کو ارتقاء و تکامل پسند مخلوق خلق فرمانے سے قبل ہی فرش زمین جلوہ افروز کرایا۔ ان پاکیزہ ہستیوں کی بعثت کا سلسلہ جاری کرنے کے بعد اللہ نے ارتقاء و تکامل پسند مخلوق کی خاطر اپنے نمائندوں کے ہاتھ میں اپنے قوانین پر مشتمل ایک ایک کتاب بھی دے دی اور اپنے آخری نمائندے کو ایک ایسی جامع کتاب ضابطہ حیات کے طور پر عنایت فرمائی جس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہو۔ آخری الہٰی نمائندے کو بطور ضابطہ حیات ملنے والی اس مقدس کتاب میں چند ایسی اور بھی وجوہات جہاں بیان ہوئی ہے جن کی خاطر ان مقدس و پاکیزہ و منتخب ہستیوں کو مبعوث کیا گیا۔

1۔ قیام عدل۔ ارتقاء و تکامل پسند مخلوقات چونکہ علمی، فکری سطح کے لحاظ سے خلقت کے وقت پست تر تھی لہٰذا پست تر فکری و علمی سطح پر ہونے کا نتیجہ معاشرے میں ایک دوسرے پر ظلم و ناانصافی کرنا ہے اور کسی معاشرے میں ظلم و ناانصافی اگر رواج پالے تو اس کا لازمی نتیجہ تمام ترقیاتی میدانوں میں پیچھے رہ جانا ہے۔

اس طرح ارتقاء و تکامل پسند مخلوق کی فطری خواہش میں خلل پڑنے نیز اس کی خلقت عبث و فضول ہونے کا مسئلہ درپیش آ سکتا تھا، لہٰذا خالق حکیم و علیم نے اس مخلوق کی علمی و فکری سطح کی پستی کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل کو مدنظر رکھ کر اپنی طرف سے کچھ کامل ترین منتخب راہنما ( رسول ) مبعوث فرمائے جیسا کہ صریحا اشارہ ہے کہ ’’ ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دیکر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ (حدید۔۲۵) تاکہ یہ برگزیدہ ہستیاں قولا و فعلا معاشرے سے ظلم و ناانصافی کو مٹا کر عدل و انصاف کا پرچم بلند کریں اور ان کی وجہ سے ارتقاء و تکامل پسند مخلوق اپنے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے کے قابل بن جائے جیساکہ قرآن کریم اس نکتے کی طرف صریحا اشارہ کررہا ہے۔

2۔ تقاضائے عدل الہٰی۔ تمام عقلاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ خدا کسی پر ظلم نہیں فرماتا۔ مخلوقات کو پیدا کرنے کے بعد خدا نے خود مخلوقات کی فلاح و سلامتی و تکامل پسندی کا مادہ فطرتا ودیعت فرمانے کے بعد ان کے لئے ظاہری طور پر ہدایات، قوانین، احکامات پر مشتمل ایک ضابطہ حیات عطا فرمایا تاکہ یہ مخلوقات فلاح و تکامل کی منازل کو چھونے کے لئے متعینہ و ممکنہ راستوں سے بٹھک نہ جائے اور اس بھٹکنے کی وجہ سے قہری طور پر مشکلات و مصائب سے دوچار ہوں۔ 

پس خدا اپنی ارتقاء و تکامل پسند مخلوق کو منزل مقصود تک پہنچانے والے راستوں کی راہنمائی کرنے والے راہنما نہ ملنے کی وجہ سے بھٹکے ہوئے مشکلات کا سامنا کرتے دیکھنا نہیں چاہتا اور نہ ہی راہنما فراہم نہ کرکے اپنی عدالت پر حرف آنے کو پسند فرماتا ہے لہٰذا اللہ نے اپنی فضل و کرم اور عدالت کو مدنظر رکھ کر مخلوقات کے لئے ان برگزیدہ و معصوم ہستیوں کو مبعوث فرمایا۔ اس بات کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے۔ ’’ کیا تمھار ے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات سناتے تھے اور آج کے دن کے بارے میں متنبہ کرتے تھے؟۔ وہ اس لئے کہ آپ کا رب بستیوں کو ظلم سے تباہ نہیں کرتا کہ وہ بے خبر ہوں ‘‘۔ (انعام ۔۱۳۱،۱۳۲)

3۔ رفع اختلافات۔ سطح زمین میں وجود میں آنے والی ارتقاء و تکامل پسند مخلوق اپنی اپنی فطرت کے اولین مرحلے میں وحدت کے قالب میں ڈھلی ہوئی تھی اور اپنی فطرت پر باقی تھی۔ زمانہ گزرتا گیا انسان کی خواہشات و ضروریات بڑھتی گئیں نظریات بدلتے گئے۔ آخرکار انسان کی خواہشات و ضروریات بہت بڑھ گئیں اور نظریات بھی بہت بدل گئے، یہاں تک کہ خود اسی کاروان کے درمیان اختلافات وجود میں آنے لگے۔

آہستہ آہستہ یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ خود کاروان کا باقی و جاری رہنا دشوار ہوا لہٰذا اللہ نے ان کے درمیان اپنی طرف سے ایسے نمائندے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جو برحق کتاب کے حامل تھے تاکہ ایسے نمائندے اس کاروان کے درمیان موجود اختلافات کا قلع قمع کریں اور انہیں اپنی وحدت کے قالب سے نکل کر اختلافات و فساد کی دلدل میں پھنسنے سے ڈرائیں اور وحدت و اتحاد کو برقرار رکھنے کی صورت میں ملنے والی مراعات و رحمتوں کی بشارت سنائیں۔ قرآن کریم اس نکتے کو صراحتا یوں بیان فرماتا ہے۔’’ لوگ ایک ہی دین پر تھے ( ان میں اختلاف رونما ہوا ) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان کا فیصلہ کریں ‘‘۔ (بقرہ ۔۲۱۳)

یہاں سے معلوم ہوا کہ کاروان انسانیت کی خاطر اللہ نے انبیاء و رسل مبعوث کرنے کا سلسلہ ان کے درمیان موجود اختلافات کو ختم کرنے، ان کو عدل قائم کرنے کے قابل بنانے کی خاطر شروع کیا، نیز خدا کے فضل و کرم اور عدالت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانیت کو صحیح و سالم اپنی منزل مقصود تک پہنچانے والے راستے کا ہادی فراہم کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ نے تو اپنی فضل و کرم کا دروازہ کھول کر دیا لیکن انسان اللہ کی اس عنایت کا شکر کیسے ادا کرتا ہے اور اپنے سفر کی کشتی کو کیسے سمندر کے کنارے لگا کر خود کو سعادت دارین سے ہمکنار کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 171916
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش