0
Sunday 24 Jun 2012 12:19

سول سپیریر سروس

سول سپیریر سروس
اسلام ٹائمز: ایک وقت تھا کہ پاکستان کی CSS میں پاکستانی نوجوانوں کی کریم منتخب ہو کر جاتی تھی یہ لوگ نہایت دیانتداری سے میرٹ پر کام کرتے تھے۔ سیاسی لوگ اسمبلیوں میں قوانین بناتے تھے اور ضلع میں انتظامیہ پر نظر ضرور رکھتے تھے، لیکن یہ بالکل اُن کا اختیار نہ تھا کہ وہ انتظامیہ کو یہ بتائیں کہ پٹواری، پولیس مین، تحصیلدار یا سکول ٹیچرز کی تعیناتی کہاں کی جائے اور ریونیو آفیسر مقدمات کو سن کر فیصلہ ایک سیاسی ناظم یا پھر منتخب رکن اسمبلی کی مرضی سے کیسے کرے۔ اب معاملات مزید گھمبیر ہو چکے ہیں۔ سول سروس بدحالی کا شکار ہے اور اس کے روایتی اعلٰی معیار نہیں رہے اور اس لئے انتظامی امور میں سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی ہے۔

 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
درس گاہوں میں جا کر مجھے ہمیشہ روحانی خوشی ہوتی ہے، چونکہ وہاں ایک تو اُن طلباء سے ملاقات ہو جاتی ہے جن کا ایمان ہے کہ
"Excellence of a man is the excellence of the knowledge he possesses"
یعنی ایک آدمی کی عمدگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کے زیور سے کس حد تک آراستہ ہے۔ اس کے علاوہ درس گاہوں میں اساتذہ کی شکل میں وہ خوش قسمت لوگ بھی ملتے ہیں جو اپنے علم کے موتی دوسروں میں بکھیرتے ہیں۔ نبی کریم ص نے فرمایا تھا کہ
" The excellence of a learned man above a mere worshipper is as my excellence above the average man among you"
یعنی ’’ایک اہل علم کی ایک عام پرہیزگار انسان پر اتنی ہی برتری ہے جتنی میری تم میں سے ایک اوسط انسان پر ہے۔‘‘
 
قارئین! قرآن کریم کی سورۃ ناظر آیت 28 میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:۔
’’خدا سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہیں‘‘ یعنی جو جتنا لاعلم ہے اتنا ہی وہ گمراہ ہے۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ اسلام میں تعلیم اور علم کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے، جو ہمیں موجودہ دنیا کے معمولات تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ جہاں اسلامی تعلیمات ہمیں دنیاوی علوم سے اپنے دماغ اور سینے مزین کرنے کیلئے چین جانے کی تلقین کرتی ہیں، وہاں یہ بھی بتاتی ہیں کہ انسان کی اصل زندگی تو اس وقت شروع ہوگی جب ہم اس جہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ اس لئے اسلامی تعلیمات ہمیں صرف جسمانی نشوونما اور ذہنی ارتقاء کی طرف مائل نہیں کرتیں، بلکہ روحانی پاکیزگی، کردار کی مضبوطی اور ایمانی طاقت کی تقویت کا درس بھی دیتی ہیں، جو ہمیں دنیاوی رشتوں، وقتی لذتوں اور بے سود ہوسوں سے ہٹا کر اللہ کی خوشنودی کی طرف مائل کرتا ہے۔ 

اس لئے تعلیم حاصل کرنے والے اور تعلیم دینے والے اگر واقعی اس سوچ کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروف ہیں تو پھر درس گاہیں دراصل عبادت گاہوں کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ دنیاوی تعلیم کیلئے نصابی کتابیں غور سے پڑھنی چاہئیں، لیکن انسان کی افضلیت کے معیار، اخلاقی اقدار کی اہمیت اور روحانی طہارت کے طریقے قرآن کریم، سنتِ رسول ص اور مسلمہ احادیث میں پنہاں ہیں، جن سے آشنائی کے بغیر انسانی تعلیم نامکمل ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں اسلامی تعلیم کی تشنگی نے ہم میں سے بیشتر لوگوں اور اُن کی اولاد کو بے علم رکھا۔ ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں، اس لئے آج مسلمانوں کے زوال کا سبب اسلامی انتہا پسندی نہیں بلکہ اسلام سے دوری ہے۔ 

آج سے چند دن قبل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید الحسن چشتی میرے پاس تشریف لائے اور مجھے اسلامک یونیورسٹی کے اُن سینئر طلباء سے خطاب کی دعوت دی، جو سنٹرل سپیریر سروس (CSS)آف پاکستان میں جانے کیلئے تیاری کر رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب سے عرض کر رہا تھا کہ ایمان کی پختگی اور کردار کی مضبوطی ہی اُن نوجوانوں کا مضبوط ترین ہتھیار ہوسکتے ہیں، جو اعلٰی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر حکومت کی ملازمت میں چوٹی کے عہدوں پر جانا چاہتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ پاکستان کی CSS میں پاکستانی نوجوانوں کی کریم منتخب ہو کر جاتی تھی یہ لوگ نہایت دیانتداری سے میرٹ پر کام کرتے تھے۔ سیاسی لوگ اسمبلیوں میں قوانین بناتے تھے اور ضلع میں انتظامیہ پر نظر ضرور رکھتے تھے، لیکن یہ بالکل اُن کا اختیار نہ تھا کہ وہ انتظامیہ کو یہ بتائیں کہ پٹواری، پولیس مین، تحصیلدار یا سکول ٹیچرز کی تعیناتی کہاں کی جائے اور ریونیو آفیسر مقدمات کو سن کر فیصلہ ایک سیاسی ناظم یا پھر منتخب رکن اسمبلی کی مرضی سے کیسے کرے۔ اب معاملات مزید گھمبیر ہو چکے ہیں۔ سول سروس بدحالی کا شکار ہے اور اس کے روایتی اعلٰی معیار نہیں رہے اور اس لئے انتظامی امور میں سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی ہے۔

اس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری ذاتی رائے میں ضلع کا ناظم بھی غیر سیاسی آدمی ہونا چاہیے، جس کی دو یا تین سال کی مدت ملازمت ہو۔ یہ لوگ انتہائی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہوں، جو ضلعی اور صوبائی سطح پر تعلیم، صحت، زراعت، صنعت، مالیات اور قانون کے بنیادی تصورات سے آشنا ہوں اور جن کا ایڈمنسٹریشن کا کم از کم دس سال کا تجربہ ہو۔ جس نے دوبارہ ووٹ لے کر منتخب نہ ہونا ہو اور جو ضلعی سطح پر ہر سیاسی کارکن اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو انصاف دے۔
 
منتخب سیاسی نمائندے فلاحی منصوبے کی توثیق کریں، لیکن ٹھیکے دینا یا مالیاتی امور میں دخل اندازی اُن کیلئے ممنوع ہو۔ ناظم کے اوپر زبردست آڈٹ کی ٹیم ہو، جو ہر حکومتی ادارے پر ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ہر ضلع میں ایک محتسب مقرر کیا جائے۔ میٹرک پاس سیاسی ناظم کے بس کی یہ بات بالکل نہیں کہ وہ غیر جانبداری سے ضلعی سطح پر کوئی فلاحی ترجیحات ترتیب دے سکے۔ میں تو حیران ہوں کہ کچھ لوگ تھانیدار کا انتخاب بھی کروانے کی بات کر رہے ہیں، کل وہ یہ کہیں گے کہ سیشن اور سول ججز بھی سیاسی طور پر منتخب ہوں گے۔ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کو ضلعی سطح پر انتظامی امور کی باریکیوں اور نزاکتوں کا ذرا برابر بھی علم نہیں۔
 
سول سپیریر سروسز میں جانے والے نوجوان سیکرٹری بننے تک اپنے علم میں لگاتار اضافہ کرتے رہیں۔ باعمل مسلمان بنیں۔ یاد اللہ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا فرمان ہے کہ جب میں اللہ تعالٰی سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں تو نماز پڑھتا ہوں اور جب میری خواہش یہ ہو کہ اللہ تعالٰی میرے ساتھ گفتگو کرے تو میں کلامِ اللہ یعنی قرآن کریم پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالٰی کی یاد آپ کو روحانیت اور ایمانداری کی طرف لے جاتی ہے۔ جو ایک لیڈر کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہے۔ سول سپیریر سروس کے امیدواروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی لکھنے اور بولنے کی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کریں، چونکہ ایک سول ایڈمنسٹریٹر اپنے تجربات اور خیالات کو اپنے ماتحتوں اور عوام تک اسی صورت میں پہنچا سکتا ہے جب وہ ایک اچھا راقم اور بہترین مقرر ہو۔
 
سول سروس کے آفیسرز کو سادگی اپنانی چاہیے، صاف ستھرا لباس پہننا چاہیے اور اپنے ماتحتوں اور عوام سے کوئی تحفہ قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے منتظمین موجودہ شہروں کو Develop ہی نہیں کرتے بلکہ نئے شہر بسانے کے طویل المعیاد منصوبے بھی بناتے ہیں۔ سول سروس کا آفیسر خواہ ضلعی انتظامیہ میں ہو، پولیس آفیسر ہو یا کسٹم کمشنر یا کنٹونمنٹ بورڈ کا ملازم ہو۔ اس کےConduct اور کام سے حب الوطنی، دیانتداری، پیشہ وارانہ صلاحیت اور انصاف پسندی کی مہک آنی چاہیے۔
 
قارئین، ایسٹیبلشمنٹ کسی بھی ملک کے انتظامی امور چلانے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتی ہے۔ اس ہڈی کے گودے میں اگر TB کے جراثیم گھس جائیں تو پورا جسم ٹوٹ جائے گا۔ ایسے لوگ جو اخلاقیات کو خیرباد کہہ کر اسلامی تعلیمات سے دور ہو جاتے ہیں، وہ بہت بلندیوں پر پہنچ کر بھی نیچے گرسکتے ہیں، چونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اس لئے مجھ جیسے گناہ گاروں کی نجات کا راز یاد خدا میں ہی ہے۔ اس شعر پر کالم ختم کرتا ہوں۔
صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
خبر کا کوڈ : 173456
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش