0
Thursday 28 Jun 2012 18:37

ایران اور حماس کے درمیان تعلقات کا مستقبل

ایران اور حماس کے درمیان تعلقات کا مستقبل
تحریر: ہادی مشہدی

فلسطین بولٹن سے وابستہ "پولیٹیکل اسٹڈیز ریسرچ سنٹر" ندا نے اپنے 26ویں شمارے میں "اسلامی بیداری کے تناظر میں ایران اور حماس کے درمیان تعلقات" کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا ہے جسے جناب ہادی مشہدی نے تحریر کیا ہے۔ ہم موجودہ تحریر میں اسی مقالے کے اہم نکات کو بیان کریں گے۔
 
مشرق وسطٰی میں اسلامی بیداری کا معرض وجود میں آنا اور مغرب کے حمایت یافتہ آمرانہ حکام کا سرنگون ہونا خطے میں سیاسی اثرات کا باعث بنا ہے۔ عرب دنیا میں اسلامی بیداری کے اثرات میں سے ایک اہم اثر مصر اور تیونس میں اسلام پسند گروہوں کی کامیابی اور ان گروہوں کا اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں ایجاد کرنا ہے۔ اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس نے بھی فلسطین کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر مصر میں عظیم سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے اور پارلمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی واضح کامیابی کے نتیجے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا شروع کر دی اور خطے میں ایک وسیع اسلامی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالنے پر غور شروع کر دیا۔ اس تبدیلی کے آثار اہم سیاسی مسائل جیسے اسلامی مزاحمت، فتح کے ساتھ حماس کے تعلقات، قومی مفاہمتی مذاکرات، شام کا بحران اور اسلامی بیداری والے ممالک میں نئے دفاتر کی بنیاد ڈالنے سے متعلق حماس رہنماوں کے موقف میں واضح طور پر مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔
 
اسلامی مزاحمت کے مراکز (شام، حزب اللہ لبنان، فلسطین کی اسلامی مزاحمت) کی حمایت سے متعلق حماس کی نئی پالیسیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی میں ٹکراو مسئلہ فلسطین پر اسلامی بیداری کا وہ اہم پہلو ہے جس کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے نتائج ہمیں حماس کی آئندہ پالیسیوں کی پیش بینی کرنے میں مدد دیں گے۔ اس تحریر میں ہم درج ذیل سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کریں گے:
1۔ اسلامی بیداری سے قبل ایران اور حماس کے درمیان تعلقات کس نوعیت کے تھے؟
2۔ ایران اور حماس کے درمیان اختلافات پیدا ہونے میں کون سے عوامل دخیل ہیں؟
3۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات آئندہ کیا رخ اختیار کریں گے؟
 
الف۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات:
شیخ احمد یاسین کی جانب سے 1987ء میں اخوان المسلمین فلسطین کی ایک شاخ کے طور پر حماس کی بنیاد رکھے جانے کے بعد یہ تحریک اسلامی رنگ کے ساتھ ایک عوامی اور قومی مزاحمت کی تحریک بن کر ابھری اور اپنے آغاز سے ہی اس کوشش میں مصروف ہوگئی کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے چنگل سے فلسطین کی تمام سرزمین کی مکمل آزادی کا زمینہ فراہم کر سکے۔ حماس کے نزدیک دشمن کے ساتھ مقابلے میں اسلامی بنیادوں کو ایک مستقل قانون کی حیثیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے فلسطین اسے عظیم عوامی حمایت حاصل ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے برعکس جس نے 1988ء میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کو رسمی طور پر قبول کر لیا، حماس نہ صرف اسرائیل کی مشروعیت اور جواز کو قبول نہیں کرتی، بلکہ اسکی نابودی اور خاتمے کی خواہاں ہے اور اسرائیل کے اصل وجود کے ہی مخالف ہے۔
 
اسرائیل کے غاصبانہ رویے کے خلاف حماس کی مزاحمتی پالیسی اور اسکا انقلاب اسلامی ایران کی نظریاتی بنیادوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رہ کے عالم اسلام کی جانب سے مسئلہ فلسطین کی بھرپور حمایت کی ضرورت پر مبنی تفکر سے ھمسوئی، 1991ء میں ایران اور حماس کے درمیان تعلقات برقرار ہو جانے کا باعث بن گئی۔ اسرائیل کے ساتھ سازباز اور مذاکرات کی پالیسی کے مقابلے میں حماس کی جانب سے فلسطین میں اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینا، ایران میں حماس کی سرگرمیوں میں مزید وسعت کا باعث بنا اور حماس نے تہران میں اپنے سیاسی دفتر کا افتتاح کر دیا۔ اسکے بعد حماس رہنماوں کی جانب سے ایران کے دوروں میں تیزی آگئی اور ایران اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کے ایک اہم کوآرڈی نیٹر میں تبدیل ہوگیا۔
 
ایران کی جانب سے اسلامی مزاحمت خاص طور پر حماس کی حمایت اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 22 روزہ جنگ کا آغاز کر دیا۔ ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران فرمایا:
"ہم جس جگہ بھی مداخلت کرتے ہیں اسکا واضح طور پر اعلان کرتے ہیں جیسا کہ صہیونیستی رژیم کی سرطانی غدود سے ضدیت کے باعث ہم نے 33 روزہ اور 22 روزہ دو فتح سے ہمکنار جنگوں میں مداخلت کی اور آج کے بعد بھی دنیا کے جس حصے میں کوئی قوم یا گروہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم سے مقابلہ کرے گا، ہم اسکی مدد کریں گے اور یہ بات کہنے میں ہم کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے"۔
 
ب۔ ایران اور حماس کے درمیان اختلافات کے اسباب:
خطے میں صہیونیستوں کے ساتھ ساز باز کرنے والے کرپٹ حکمران حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد مسئلہ فلسطین کی جانب ایک نئی نگاہ کے پیدا ہونے اور ملت فلسطین کے درد و الم کے خاتمے کی امید زندہ ہوگئی۔ حماس نے بھی اپنے روحانی باپ یعنی اخوان المسلمین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جس نے انتخابات کے میدان کو اپنی سیاسی جدوجہد کیلئے چن رکھا تھا، خطے کی سیاسی تبدیلیوں پر نئی نظر کے ساتھ پہلے قدم پر انقلابی حکومتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کیا اور پھر مغرب کے حمایت یافتہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کی اصلاح میں مصروف ہوگئی۔
 
حماس کے رہنما اس کام میں بعض غلطیوں کے بھی مرتکب ہوئے، وہ تصور کر رہے تھے کہ شام میں ہونے والی بدامنی بھی اسلامی بیداری کی تحریک کا حصہ ہے، جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شام کے سیاسی نظام کی حقانیت اور استحکام سب پر واضح ہوگیا۔ حماس کی یہ نئی نگاہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض سیاسی اصولوں سے ٹکراتی ہے اور یہ امر حماس رہنماوں اور ایران کے درمیان کچھ اختلافات جنم لینے کا باعث بنا ہے۔ حماس اور ایران کے درمیان اختلافات کے بعض اہم اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
 
1۔ مزاحمت سے متعلق حماس کی پالیسی میں تبدیلی:
حماس نے 1995ء کے انتخابات میں کامیابی اور غزہ میں قانونی طور پر عوامی حکومت ہاتھ میں لینے اور اسرائیل کے ساتھ 22 روزہ جنگ کے تجربے کے بعد مزاحمت کے بارے میں اپنی نگاہ کو تبدیل کر دیا۔ یہ نئی نگاہ غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت کو مستحکم بنانے کیلئے بعض ملاحظات کی حامل تھی، جن میں سے فتح اور مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے آپشن کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ خطے میں اسلامی بیداری کے آغاز اور مصر کے سابق آمرانہ نظام کی سرنگونی کے بعد فتح اور حماس نے 8 مئی 2011ء کو قومی مفاہمتی معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ فتح کے ساتھ حماس کی دوستی کے بعض نتائج ظاہر ہوئے، جس میں سے ایک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ جناب خالد مشعل کی جانب سے پرامن مزاحمت اور جدوجہد کو قبول کیا جانا تھا۔ ایران کی جانب سے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کا ایک اہم معیار کسی بھی شکل میں مزاحمت کو جاری رکھنا ہے، جبکہ حماس
اس اہم اصول سے عقب نشینی کی جانب گامزن ہے۔
 
دوسری طرف غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں حماس کے ردعمل اور حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے جوابی کارروائی کے طور پر میزائل فائر نہ کرنے نے اس مزاحمتی تحریک کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ اب یہ سوال انسان کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آیا حماس پہلے کی مانند ایک مزاحمتی تحریک باقی رہے گی یا فلسطین میں اخوان المسلمین کی فقط ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو جائے گی۔؟
 
2. سازباز کرنے والے ابومازن کو قبول کرنا:
محمود عباس کی سربراہی میں فتح تحریک نے 1993ء کے اوسلو معاہدے کے بعد ہمیشہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے ساتھ سازباز اور مذاکرات پر زور دیا ہے اور آج تک اپنی اس پالیسی سے ذرہ بھر پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ ابومازن کی ساز باز کرنے والی خصوصیت کے پیش نظر، فتح اور حماس میں اچانک دوستی اور مفاہمت نے اسلامی مزاحمت کے حامیوں خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ذہن میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا فتح اسرائیل کے ساتھ کئے گئے اپنے گذشتہ معاہدوں کو ختم کرنا چاہ رہی ہے؟ یا یہ کہ حماس ایک غاصب ہمسایہ کو تسلیم کرنے کی سمت گامزن ہے؟
 
قاہرہ میں دونوں تنظیموں کے درمیان متعدد اور بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اچانک قطر کی حکومت فلسطین کے قومی مفاہمت کے میدان میں کود پڑی اور ابومازن اور خالد مشعل نے دنیا کے سامنے دوحہ میں ایکدوسرے سے ملاقات کی اور ایکدوسرے کے ساتھ اتفاق نظر پر پہنچ گئے۔ دونوں اس بات پر متفق ہوگئے کہ قومی حکومت کی باگ ڈور اور انتخابات برگزار کرنے کی ذمہ داری ابومازن کو سونپ دی جائے۔ یہ وہی مسئلہ اور مشکل ہے جسکی وارننگ قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حماس حکومت کے وزیراعظم جناب اسماعیل ھنیہ کو اپنی ملاقات کے دوران دے چکے تھے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے اس ملاقات میں اسماعیل ھنیہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا:
"فلسطین میں گذشتہ چند سالوں کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیاں اور حتٰی خطے میں اسلامی بیداری کی بعض وجوہات فلسطینی گروہوں کی جانب سے مزاحمت اور جدوجہد کا شاندار مظاہرہ ہے، اور مستقبل کی کامیابی بھی اسی مزاحمت سے وابستہ ہے۔ اس مزاحمت کو کمزور بنانے والا ہر اقدام مستقبل کو مشکوک بنا دے گا، ہمیشہ مزاحمتی اسٹرکچر میں ساز باز کرنے والے عناصر کے اثر و رسوخ سے ہوشیار رہیں، کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جو بتدریج ظاہر ہوتی ہے"۔
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں یاسر عرفات کے انجام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو اسرائیل کی خلاف جدوجہد کے دور میں اپنی مقبولیت کے اوج پر پہنچ چکے تھے، لیکن مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کی وجہ سے خطے کی اقوام نے انہیں مسترد کر دیا، اس بات پر تاکید کی کہ مزاحمت اور جدوجہد عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کا اہم سبب ہے۔
 
3. شام کا بحران:
شام میں احتجاج اور اعتراض شروع ہونے اور بیرونی سازشی عناصر کی سرگرمیاں تیز ہو جانے کے بعد دنیا کے ممالک نے اس ملک میں جاری کشمکش کے بارے میں مختلف موقف اختیار کیا۔ بعض ممالک جیسے سعودی عرب، قطر، ترکی اور لبنان کے 14 مارچ گروپ نے امریکہ اور اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی مزاحمت کے حامی سیاسی نظام کی سرنگونی کا مطالبہ کر دیا اور شام کے حکومت مخالف مسلح دہشتگرد گروہوں کو اسلحہ اور معلومات کی فراہمی کے ذریعے ملک کے سرحدی علاقوں میں پرامن احتجاج کو خون آلود جھڑپوں میں تبدیل کر دیا اور حتٰی دمشق بھی دہشتگردانہ اقدامات سے محفوظ نہ رہا۔ اس موقف کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کے حامی ممالک جیسے ایران، لبنان، روس اور فلسطین کے مجاہد گروپس شام میں ایک جمہوری نظام کے تحت قوم کی مطلوبہ اصلاحات کے اجراء پر زور دیتے ہیں۔
 
لیکن حماس نے شام کی اخوان المسلمین جماعت کے زیر اثر جو صدر بشار اسد کے شدید مخالفین میں شمار کی جاتی ہے، دوغلی پالیسی اختیار کی۔ حماس رہنماوں نے آہستہ آہستہ دمشق میں واقع اپنے سیاسی دفتر کو ترک کر دیا اور قومی مفاہمتی مذاکرات اور بین الاقوامی سطح پر ملاقاتوں کے بہانے شام سے خارج ہوگئے۔ اس وقت حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل، عزت الرشق اور سامی خاطر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا دفتر قائم کئے ہوئے ہیں، جبکہ حماس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ موسی ابومرزوق مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں دفتر بنائے ہوئے ہیں، اور حماس کے سیاسی ترجمان ابراہیم غوشہ اور اعلٰی سطحی سیاسی رہنما محمد نزال اردن کے دارالحکومت عمان میں موجود ہیں۔ البتہ حماس کے رہنما آج تک شام سے رسمی طور پر خارج ہونے کا انکار کرتے ہیں، جبکہ شام میں حماس کے دفتر کے بورڈ کے علاوہ اور کوئی چیز باقی نہیں بچی۔
 
ان اقدامات کے علاوہ حماس کے رہنماوں کے بیانات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسماعیل ھنیہ نے الازہر یونیورسٹی قاہرہ میں اپنی آخری تقریر کے دوران واضح انداز میں شام میں پائی جانے والی بدامنی اور صدر بشار اسد کے خلاف پرتشدد احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا:
"حماس شام کی شجاع قوم جو جمہوریت اور اصلاحات کی جانب گامزن ہے، کی حمایت کا اعلان کرتی ہے"۔
اسماعیل ھنیہ کی اس تقریر کے بعد موسٰی ابو مرزوق نے بھی شام میں جاری مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ حماس کے ایک اور رہنما صلاح بردویل کا خیال ہے کہ حماس ہرگز عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اسکے ساتھ ساتھ شام کے عوام کی قتل و غارت کو بھی برداشت نہیں کرسکتی و اس خونریزی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسکے علاوہ خالد مشعل نے شام کے انقلاب کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے شام کی حکومت مخالف قومی کونسل کے اراکین سے بھی ملاقات کی ہے۔ شام کے بارے میں حماس کا موقف ایران کے ساتھ اسکے مستقبل کے تعلقات میں ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔
 
4۔ اردن کے ساتھ حماس کے تعلقات کی بحالی:
حماس اور اردن کی حکومت کے درمیان لمبے عرصے تک کشمکش کے بعد جسکے دوران 1999ء میں خالد مشعل سمیت بڑی تعداد میں حماس کے رہنماوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی، آخرکار اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین کی وفات اور ملک عبداللہ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے دباو کے نتیجے میں اس ملک میں حماس کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
اردن میں ابراہیم غوشہ سمیت حماس کے بعض رہنماوں کی موجودگی کے باوجود حکومت اور حماس کے درمیان تعلقات اسلامی بیداری کے معرض وجود میں آنے تک نہ ہونے کے برابر تھے۔ قومی مفاہمتی مذاکرات کی برگزاری اور خالد مشعل کی جانب سے خطے کے ممالک کے دوروں کے آغاز کے بعد انہوں نے 2011ء میں قطر کے ولیعہد شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے ہمراہ عمان میں اردن کے بادشاہ ملک عبداللہ سے انکے محل رغدان
پیلس میں ملاقات کی۔ حماس کی پالیسی میں اس تبدیلی نے بھی جو اخوان المسلمین اردن کی جانب سے دباو کا نتیجہ تھی، اس تنظیم پر اسرائیل کے بالواسطہ اثر و رسوخ کا زمینہ فراہم کیا، کیونکہ اردن اسرائیلی مفادات کی حفاظت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 

5۔ حماس رہنماوں کی جانب سے قطر اور بحرین کے دورے:
قاہرہ معاہدے کا لب لباب مسئلہ فلسطین میں قطری حکومت کی ثالثی کو قبول کرنا ہے۔ قطر جو آجکل شام کے خلاف مغربی ممالک کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری سنبھالے بیٹھا ہے اور شام میں عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ ایسی صورتحال میں حماس رہنماوں کا دوحہ میں قیام کیا معنی رکھتا ہے؟ دوسری طرف اسماعیل ھنیہ کی یوسف قرضاوی سے ملاقات، جس نے شام کی حکومت کا کافر قرار دیتے ہوئے صدر بشار اسد کے خلاف جہاد کا حکم دے رکھا ہے، کا کیا عذر پیش کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ایسی صورتحال میں جب بحرین کی مظلوم قوم نے مسلمانان عالم کی جانب مدد کیلئے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں، اسماعیل ھنیہ بحرین کے بادشاہ ملک حمد بن عیسی آل خلیفہ کے ساتھ اسکے دربار میں ملاقات کرتے ہیں اور اس سے قدس شریف کی آزادی میں مدد کی درخواست کرتے ہیں۔
 
لہذا حماس میں سرگرم بھائیوں سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ:
ایسی صورتحال میں جب کوئی عرب ملک غزہ کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور کچھ ہی عرصہ قبل حماس کو ایک شدت پسند دہشتگرد گروہ قرار دیتا تھا، اب ان عرب حکمرانوں جو مزاحمت کے خاتمے کے حامی ہیں، کی جانب سے حماس کے پرتپاک استقبال کی کیا وجہ ہے؟
 
6. اسرائیل کے دہشت گردانہ اقدامات پر حماس کی خاموشی:
اسرائیل کی صہیونیستی رژیم نے ایران کی جانب سے اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے عزم کے مقابلے میں شکست کھانے کے بعد مجبوراً ایران کے خلاف ایٹم بم بنانے کے جھوٹے پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا۔ اس بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے تسلسل میں بعض اسرائیلی حکام نے ایران کی روز افزون ترقی کو روکنے کا واحد راستہ اسکی ایٹمی تنصیبات پر حملہ قرار دے دیا۔ سیاسی ماہرین نے اس اسرائیلی دعوے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ کو انتہائی خطرناک قرار دیا، جسکے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں دفاعی کارروائیوں کا سلسلہ صرف اپنی حدود تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ حزب اللہ لبنان سمیت فلسطین کے مجاہد گروپس اسرائیل پر برس پڑیں گے۔
 
حماس رہنماوں نے اسرائیل کے ان دعووں اور ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ کے مقابلے میں متعدد اور متضاد موقف اختیار کئے اور کبھی بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت میں واضح اور قاطع موقف اختیار نہیں کیا۔ حماس کی جانب سے اس رویے کا اظہار اور ساتھ ہی اسلامک جہاد کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بھرپور میزائل حملے اس گمانہ زنی کا باعث بنے کہ ایران نے حماس کی حمایت کم کرکے اسلامک جہاد کو مضبوط بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
 
حماس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے قیدیوں کا کامیاب تبادلہ اور ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کروانا اگرچہ ایک اہم اور مثبت اقدام جانا جاتا ہے، لیکن اس کامیابی کا ایسی صورتحال میں حاصل ہونا جب مصر میں نیا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوا اور مغرب کے حمایت یافتہ حکام (سعودی عرب، قطر اور اردن) سمیت خطے کے تمام ممالک حماس کو سبز جھنڈی دکھانے میں مصروف ہیں، حماس کے ساتھ اسرائیلی رویوں کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ دوسری طرف سوئٹزرلینڈ کی جانب سے حماس کا نام دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا جانا بھی حماس کے بارے میں مغربی پالیسیوں میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح حماس رہنماوں کی جانب سے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتیں عرب اسپرنگ کے سائے تلے ایک نئی فتح تحریک کے جنم لینے کے خطرے کی گھنٹی ہے۔ 

نتیجہ:
اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کے درمیان آئندہ تعلقات میں ایک انتہائی اہم رکن تین اہم ایشوز یعنی مزاحمت، قومی مفاہمت اور شام کے بارے میں حماس کا نقطہ نظر ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت اور ثابت قدمی پر پابند رہنا، یقیناً ایران کے ساتھ اسکے بہتر تعلقات کی ضمانت فراہم کرے گا۔ حماس کو اس نکتے کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ ایران کی حمایت کا مقصد فسلطینی سرزمین کو اسرائیلی چنگل سے آزاد کروانا ہے جبکہ قطر، سعودی عرب، اردن اور دوسرے اسرائیل اور امریکہ نواز ممالک کی جانب سے دیئے گئے ڈالرز یہودی قبضے کے خاتمے کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ حربے ماضی میں بھی فتح تحریک کی جانب سے آزمائے جاچکے ہیں۔
 
قومی مفاہمت بھی باقی فلسطینی مسائل کی مانند مزاحمت اور آزادی فلسطین کی بنیاد پر استوار ہونی چاہئے۔ محمود عباس نے اس وقت حماس کی جانب رجوع کیا، جب وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی سے مایوس ہو چکے تھے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں شکست نے بھی فلسطین اتھارٹی کو مجبور کیا کہ وہ فلسطین کے مجاہد گروپس کا راستہ اختیار کرے۔ لہذا فتح تحریک قومی مفاہمتی عمل میں مزاحمت پر زیادہ توجہ نہیں دے گی۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران بھی ایسے تمام منصوبوں کی مخالفت کرتا ہے، جس میں مزاحمت اور سرزمین فلسطین کی آزادی کو نظرانداز کر دیا گیا ہو۔ اگر حماس چاہتی ہے کہ ایران کے ساتھ اسکے تعلقات ماضی کی طرح باقی رہیں تو اسے مسئلہ فلسطین کے حل میں ساز باز کرنے والے عناصر کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ حماس شام کے بارے میں بھی غلطی کا شکار ہوئی ہے۔ حماس چاہتی ہے کہ بیرونی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے اور اس عمل میں غلطی کا امکان بھی موجود ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران حماس اور شام کے درمیان ثالثی کرتے ہوئے مزاحمتی بلاک میں پیدا ہونے والے فاصلوں کو دور کرسکتا ہے اور اس طرح شام کے سیاسی نظام کیلئے بھی ایک مضبوط اور مستحکم سپورٹ فراہم کرسکتا ہے۔ حماس کے برادران کو بھی اپنے ماضی کی طرف رجوع کرتے ہوئے شام کی حکومت اور قوم کی جانب سے اسلامی مزاحمت کی بے پناہ حمایت اور مدد کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
 
آخری نکتہ یہ کہ مزاحمتی بلاک سے حماس کے جدا ہونے اور دوسری فتح تنظیم میں تبدیل ہونے سے فلسطین اور مزاحمت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ حماس جب تک اسرائیل کے ساتھ جدوجہد میں فرنٹ لائن پر کھڑا ہے اور غاصب صہیونیستی رژیم کے ساتھ رسمی طور پر مذاکرات میں شامل نہیں ہوا، قابل احترام اور حمایت کے لائق ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے دوران حماس کی کامیابیوں جیسے 22 روزہ جنگ اور قیدیوں کے تبادلے کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا اور حماس جب تک مزاحمت کی پالیسی پر ثابت قدم رہے گی، ایران کی جانب سے اسکی حمایت بھی جاری رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 175067
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش