0
Friday 6 Jul 2012 20:35

انتظار

انتظار
تحریر: سید رضا نقوی 
 
امام زمانہ (عج) کی غیبت کے بعد دانشوروں و علماء نے امام کے انتظار کیلئے كچھ فرائض معين كركے كتابوں ميں رقم كئے ہيں، جيسے امام زمانہ كيلئے دعا كرنا، آپ (ع) كى طرف سے صدقہ دينا، آپ (ع) كى طرف سے حج كرنا يا كرانا، آپ سے استعانت و استغاثہ كرنا، يہ سب نيك كام ہيں اور اس میں کسی قسم کا شک بھی نہیں ہونا چاہئے، ليكن دوسری طرف روایات میں جو سب سے اہم ترین فریضہ بیان ہوا ہے، اس پر بحث کی بھی ضرورت ہے اور عمل کی بھی۔ انتظار امام زمانہ (عج) كى فضيلت كے بارے ميں ائمہ اطہار كى بہت زيادہ احاديث، حديث كى كتابوں ميں موجود ہيں مثلاً:

حضرت امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے:
"جو شخص ہم اہل بيت علیہ السلام كى محبت پر مرتا ہے جبكہ وہ منتظر فرج بھى ہو تو ايسا ہى ہے جيسے حضرت قائم كے خيمہ ميں ہو۔"
حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد كے واسطہ سے رسول خدا (ص) سے نقل كيا ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:
"ميرى امت كا بہترين عمل انتظار فرج ہے۔"
حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام كا ارشاد ہے:
"جو شخص ہمارى حكومت كا انتظار كرتا ہے، اس كى مثال راہ خدا ميں اپنے خون ميں غلطان ہونے والے كى ہے۔"
حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہيں:
"صبر اور انتظار فرج كتنی بہترين چيز ہے؟ كيا لوگوں نے نہيں سنا ہے كہ خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے: تم انتظار كرو ميں بھى منتظر ہوں، پس صبر كرو كيونكہ نااميدى كے بعد فرج نصيب ہوگا، تم سے پہلے والے زيادہ بردبار تھے۔"

ایسی احادیث ہمیں بہت ملتی ہیں، جس میں شیعوں کو انتظار مہدی (عج) کی تاکید کی گئی ہے اور اس کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے، ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ انتظار مہدی (عج) بذات خود خوشحالی ہے، جو انتظار مہدی (عج) میں مصروف ہوگا، اسے تشبیہ دی گئی ہے اس مجاہد سے جو میدان جنگ میں کفار سے نبردآزما ہو اور اپنے خون میں غلطاں ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے پہلے بھی کہا کہ یہاں بحث کی ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ انتظار مہدی (عج) کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ انتظار مہدی (عج) کرنے والے کو ایسے ثواب کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ 

یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ انتظار مہدی (عج) کا مفہوم کیا ہے۔؟ كيا انتظار مہدی (عج) كيلئے اتنا ہى كافى ہے كہ انسان زبان سے يہ كہدے كہ ميں امام زمانہ كے ظہور كا منتظر ہوں؟ يا گریہ و زاری کے ساتھ خدا سے امام کے ظہور کی دعا کرے، یا نماز پنجگانہ میں دعائے فرج کی تلاوت کرے ۔۔۔ یا درود کے ساتھ و عجل فرجھم کہے ۔۔۔۔۔ یا بروز جمعہ دعائے ندبہ پڑھے ۔۔۔۔ یا مسجد جمکران میں نماز ادا کرے اور امام کے ظہور میں تعجیل کی دعا کرے ۔۔۔۔۔۔ یا شب جمعہ دعائے کمیل پڑھے اور تعجیل کی دعا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کافی ہے۔؟؟؟؟

اگرچہ يہ تمام چيزيں بجائے خود بہت اچھى ہيں، ليكن ميں سمجھتا ہوں كہ انسان ايسے امور كى انجام دہى سے حقيقى انتظار كے منتظر كا مصداق نہيں بن سكے گا، كيونكہ آئمہ كى زبانى اسكى اتنى زيادہ فضيلتيں بيان ہوئي ہيں کہ انتظار مہدی (عج) كرنے والے كو ميدان جہاد ميں اپنے خون ميں غلطان انسان كے برابر قرار ديا ہے۔

جو لوگ ہر قسم كى اجتماعى ذمہ داريوں اور امر بالمعروف و نہى عن المنكر كے فريضہ سے پہلو تہى كرتے ہيں، فساد و بيدادگرى پر خاموش بيٹھے رہتے ہيں، ظلم و ستم و كفر و الحاد اور فساد كو تماش بينوں كى طرح ديكھتے ہيں اور ان حوادث پر صرف اتنا ہى كہتے ہيں: خدا امام زمانہ (عج) کے ظہور میں تعجيل فرما، تاكہ ان مفاسد كو ختم كريں، ميرے خيال ميں ہمارا ضمير اتنى سى باتوں سے مطمئن نہيں ہونا چاہئے اور انھيں آپ ان لوگوں كى صف ميں كھڑا نہيں كريں گے، جنہوں نے دين کے دفاع كى خاطر اپنے اہل و عيال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولئے اور ميدان جہاد ميں اپنى جان كو سپر قرار ديكر جام شہادت نوش كيا ہے۔

اس انتظار کے نتائج اور اسلامی معاشروں کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا اس طرح کے ظھور کا انتظار انسان کو اس منزل فکر تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت کو بھول جاتا ہے اور ہر طرح کی شرائط کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے؟ یا یہ کہ دراصل یہ عقیدہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دیتا ہے؟ کیا یہ عقیدہ انسان کو متحرک کرتا ہے یا اس پر جمود طاری کرتا ہے۔؟
اور کیا یہ عقیدہ انسان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ کرتا ہے یا ذمہ داریوں سے آزاد کر دیتا ہے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کو خواب غفلت کی دعوت دیتا ہے یا انسانیت کو بیدار کرتا ہے۔؟

یہ تمام سوال کافی اہم ہیں، اگر انکے جوابات مل جائیں تو یقیناً انتظار مہدی (عج) کرنے والوں کو جس اجر کی نوید ملی ہے، اسکی وجہ بھی پتہ چل جائیگی۔ بہرحال اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہمیں مزید گہرایوں میں جانا ہوگا۔ ”انتظار“ عام طور پر اس حالت کو کہا جاتا ہے کہ جس میں انسان پریشان ہو اور اس سے بہتر حالت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
 
مثال کے طور پر ایک بیمار اپنی بیماری کے ختم ہونے اور شفا کا منتظر ہوتا ہے، جیسے کوئی کسی کی کہیں سے واپسی کا منتظر ہوتا ہے، جیسے کوئی تاجر بازار کی ناگفتہ بہ حالت سے پریشان ہو اور وہ اقتصادی بحران کے خاتمہ کا انتظار کرتا ہے، ان تمام میں یہ دو حالتیں پائی جاتی ہیں:
1۔ اپنی موجودہ حالت سے پریشانی۔
2۔ حالت بہتر بنانے کے لئے کوشش۔
 

اس بنا پر امام مھدی (عج) کی حکومت عدالت اور آنحضرت کے قیام کا انتظار دو عنصر سے مرکب ہے: عنصر ”نفی“ اور عنصر ”اثبات“ عنصر نفی یعنی موجودہ حالت سے غمگین اور پریشان رہنا، اور عنصر اثبات یعنی حالات بہتر بنانے کے لئے سعی و کوشش کرنا۔ اگر یہ دونوں پہلو انتظار میں ساتھ ساتھ ہیں تو پھر یقیناً انتظار کرنے والے کے اعمال میں قابل قدر تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے اور انسان ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آھنگی سے پرھیز کرے گا، اپنے نفس کی اصلاح کرے گا، تاکہ جسمی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ سے حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیار ہو جائے۔ اور یہ بات بھی مسلّمہ ہے کہ یہ دونوں پہلو انسان کی اصلاح اور بیدری کے لئے مفید ہیں۔

یہ بات اظہر من شمس ہے کہ اگر میں خود ظالم ہوں تو پھر کسی ایسے کی حکومت کا کیسے انتظار کروں گا کہ جس کی تلوار ظلم و ستم کو ختم کر دے گی اور ظالم و جابر کے سر کو تن سے جدا کر دے گی؟ میں اگر گناہوں سے آلودہ اور ناپاک ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسے انقلاب کا انتظار کروں جس کا پہلا شعلہ گناہوں سے آلودہ لوگوں کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ انتظار کا دوسرا نام تیاری ہے ۔۔۔۔ اگر آپ سفر سے کسی کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں تو اسکے استقبال کیلئے خاص انتظامات کرتے ہیں، اگر آپ فصل کے پکنے کا انتظار کرہے ہیں تو وہ کام پہلے سے انجام دے دینا چاہتے ہیں جو فصل کے پک جانے پر انجام دینے چاہیں۔۔۔۔ 

یعنی ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہوتی ہے، اب آپ غور کیجئے کہ جو لوگ ایک عالمی عظیم الشان اصلاح کرنے والے کا انتظار کرتے ہیں، وہ لوگ دراصل ایک بہت بڑے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں، جو تاریخ بشریت کا سب سے بڑا انقلاب ہوگا۔ یہ انقلاب گزشتہ انقلابات کے برخلاف کوئی علاقائی انقلاب نہ ہوگا بلکہ ایک عالمگیر انقلاب ہوگا، جس میں انسانوں کے تمام پہلوؤں پر نظر ہوگی اور یہ انقلاب سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہوگا۔

اس انقلاب کے برپا ہونے کیلئے اور انتظار مہدی (عج) کرنے والوں کیلئے دو چیزیں تو لازم ہیں، ایک اپنی اصلاح یعنی اصلاح نفس اور ایک معاشرے کی اصلاح ۔۔۔۔۔۔ اس طرح کے انقلاب کے لئے ہر دوسری چیز سے پہلے مکمل طور پر آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ اس طرح کی اصلاحات کے بھاری بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھا سکے، اس چیز کے لئے سب سے پہلے علم واندیشہ، روحانی فکر اور آمادگی کی سطح کو بلند کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے اھداف و مقاصد تک پہنچا جاسکے، تنگ نظری، کج فکری، حسد، بچگانہ اختلافات، بیھودہ چیزیں اور عام طور پر ہر طرح کا نفاق اور اختلاف ”سچے منتظرین“ کی شان میں نہیں ہے۔
 
ایک اھم نکتہ یہ ہے کہ حقیقی طور پر انتظار کرنے والا شخص ایک تماشائی کا کردار ادا نہیں کرسکتا، بلکہ سچا منتظر وہ ہے جو ابھی سے انقلابیوں کی صف میں آجائے۔ اس انقلاب کے نتائج پر ایمان رکھنا ہرگز اس کو مخالفوں کی صفوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور موافقین کی صف میں آنے کے لئے ”نیک اعمال، پاک روح، شجاعت و بہادری اور علم و دانش“ کی ضرورت ہے۔ میں اگر گنہگار اور فاسد ہوں تو پھر کس طرح اس حکومت کا انتظار کروں، جس میں نااہل اور گنہگاروں کا کوئی کردار نہ ہوگا، بلکہ ان کو قبول نہ کیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔ کیا یہ انتظار انسان کی فکر و روح اور جسم و جان سے آلودگی کو دور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟!

ایک ایسے مصلح کے انتطار کے معنی یہ ہیں کہ اپنے آپ کو اور معاشرہ کو فکر، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار کریں۔ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جائے، اور بس۔ بلکہ دوسروں پر بھی توجہ دینی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی، کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کر رہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نھیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پھلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ کے لئے کام کرنا ہوگا، سب کی سعی و کوشش میں ہم آہنگی ہو، اس انقلاب کے لئے کوشش اسی عظیم الشان پیمانہ پر ہو جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔
 
بالکل اسی طرح جیسے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نھیں ہوسکتا، بلکہ ہر فوجی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جھاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّباب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسوئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نھیں ہے۔ لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 177035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش