1
0
Monday 9 Jul 2012 13:31

شام، جمہوری جدوجہد یا جمہوری تماشہ (1)

شام، جمہوری جدوجہد یا جمہوری تماشہ (1)
تحریر: ثاقب اکبر 
 
آج کل مغربی میڈیا کا سب سے گرم موضوع شام ہے۔ اس موضوع کو انھوں نے اس طرح سے اٹھا رکھا ہے کہ عقل حیراں ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ مغرب کے آزاد میڈیا کی بنیادی خدمت ہی یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کو اس طرح سے خلط ملط کر دیا جائے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے اور دھندلکوں کے سائے میں پھر مغربی سرمایہ داری کے محافظ اپنا کام بھی کر گزریں۔ بعد میں میڈیا یہ کہتا رہے کہ ہم نے فلاں خبر بھی پہلے دی تھی اور ہم نے فلاں بات بھی پہلے کہی تھی۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے ناٹک میں امریکہ اور برطانیہ کا اس طرح سے ساتھ دیا کہ جھوٹ کو دنیا کے سامنے سچ بنا کر پیش کر دیا۔ اس موقع پر مجھے اپنی ایک نظم یاد آرہی ہے۔ چند شعر ملاحظہ کیجیے: 

دھول اٹھی ہے چار طرف
دھندلے دھندلے چہرے ہیں
ایسے میں پہچانے کون؟
ایک سے اجلے، میلے ہیں
شور بپا ہے محفل میں
بات کہاں؟ مفہوم کہاں؟
سچا کون ہے؟ جھوٹا کون؟
مشکل ہے ادراک یہاں
تاریکی ہے ظلمت ہے
ہر اک ٹھوکر کھاتا ہے
کھو دیتا ہے اپنے تئیں
جو کچھ ڈھونڈنے آتا ہے
اہلِ نظر میں ہر کوئی
اس سچ کا تو قائل ہے
حق باطل کی سرحد پر
پردہ سا اک حائل ہے
شخص اٹھے اک ایسا یہاں
جو کچھ ایسا کام کرے
جب نہ بصارت کام آئے
تب وہ بصیرت عام کرے
 
یہ بصیرت عام کرنا بہت مشکل کام ہے۔ جب حق اور باطل کو ملا کر شیطانی قوتیں کوئی معجون تیار کرتی ہیں تو بیمار ذہنوں کی اکثریت اسے اپنے لیے تریاق سمجھ لیتی ہے۔ شام کے مسئلے پر آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ آئیے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ہماری مدد کرے۔
 
مسئلہ فلسطین اور شام کی موجودہ حکومت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ عرصہ ہوا اسرائیل کی تمام ہمسایہ مسلمان ریاستیں اس کے سامنے سجدہ ریزہ ہو چکیں، اسے ایک جائز ریاست تسلیم کر چکیں اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکیں۔ جن اردگرد کی ریاستوں نے بظاہر اسے تسلیم نہیں کیا، ان کی بھی بیشتر کیفیت ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ والی ہے۔ کیمپ ڈیوڈ کا بدنام زمانہ معاہدہ کرکے سادات اور حسنی مبارک کا مصر کب کا اسرائیل کے حضور جھک چکا۔ جب کہ مصر ہی اس خطے میں مسلمانوں اور عربوں کی سب سے بڑی قوت سمجھا جاتا تھا۔ 

ہم فی الحال آج کے نسبتاً بدلتے مصر کی بات نہیں کر رہے۔ اردن، بیت المقدس کے اپنے حصے سے دستبردار ہو کر کب کا ڈھیر ہو چکا۔ لبنان میں اگر اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے نام سے وجود میں نہ آتی تو آج لبنان بھی انہی دو ملکوں کے نقش قدم پر چل رہا ہوتا۔ بن علی کا تیونس، مراکش، قطر، اومان اور ترکی بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں، بلکہ ترکی سمیت بعض ممالک اسرائیل کے ساتھ فوجی مشقوں کا کھیل بھی کھیلتے رہتے ہیں۔ 

ایک شام ہے جو ابھی تک اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے، جسے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیمیں اپنے لیے اطمینان بخش پناہ گاہ محسوس کرتی ہیں۔ حماس، اسلامی جہاد، عوامی محاذ آزادی برائے فلسطین اور دیگر تمام قابل ذکر تنطیموں کے دفاتر ایک عرصے سے شام میں موجود ہیں۔ ایسی تنظیمیں جو اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ہیں، انھیں شام کے علاوہ کوئی پناہ بھی دینے کو تیار نہ تھا، لیکن شامی حکومت نے امریکی جبروت اور اسرائیلی دھونس کے مقابلے میں ہمیشہ جرات مندی سے ان تنظیموں کا ساتھ دیا۔ آج بھی لاکھوں فلسطینی مہاجر شام میں موجود ہیں۔
 
شام کی جولان ہائٹس پر اب بھی اسرائیل کا قبضہ ہے۔ شامیوں کو کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدے پر مجبور کرنے کے لیے طرح طرح کے داﺅ پیچ آزمائے گئے، لیکن ابھی تک وہ خم ٹھونک کر اسرائیل کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی فلسطینی راہنما اور تنظیمیں کھل کر موجودہ بحران میں بشار الاسد کی حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں اور بعض نے تو اعلان کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ شامی فوج کے شانہ بشانہ دہشتگردوں کے خلاف میدان عمل میں اتریں گی۔
 
اس سلسلے میں عوامی محاذ آزادی برائے فلسطین کے جنرل سیکرٹری احمد جبرئیل کا حال ہی میں سامنے آنے والا بیان قابل توجہ ہے۔ انھوں نے دمشق میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ شام کا نظام داخلی لحاظ سے قوی ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ غیر ملکی سازشوں سے کامیابی سے نکل آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ غیر ملکی عناصر کے شام کے خلاف کسی احتمالی اقدام کے بارے میں ہم نے اپنے شامی بھائیوں، حزب اللہ اور ایرانی بھائیوں سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ ہم بھی اس معرکے کا حصہ ہیں اور ان کے ساتھ غیر ملکی دشمنوں کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر ترکی یا نیٹو نے اپنے موقف میں شدت اختیار کی اور شامی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ہم فوراً سڑکوں پر آجائیں گے اور اپنے معزز شامی بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف جنگ کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جنگ میں ہم نے فتح حاصل کرنی ہے اور اس جنگ میں فتح کا مطلب امریکہ اور صہیونزم کے منصوبے کی شکست ہے۔ احمد جبرئیل کا یہ انٹرویو المیادین چینل نے نشر کیا ہے۔ 

شام میں جمہوریت کے حامی:
دیکھنا یہ ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو آمریت اور مخالفین کو عوامی و قومی ہیرو قرار دینے والے کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ شام کے خلاف سرگرم عمل اور پیش پیش امریکہ ہے اور پھر اس کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں۔ علاقے میں شامی اپوزیشن کو سب سے زیادہ سعودی عرب، قطر اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ایک عرصے سے شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ 

لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کا ملبہ انھوں نے ہی پہلے شام پر ڈالا اور جب عالمی سطح پر بے پناہ دباﺅ کے باوجود کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا تو خفت مٹانے کے لیے اور نیا جال بچھانے کے لیے یہ الزام حزب اللہ پر دھر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ شام پر لگائے گئے الزامات پر رفیق حریری کے صاحبزادے سعد حریری کو آخر کار شام سے معافی مانگنا پڑی۔ عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ کا سب سے بڑا ہدف شام ہی تھا، لیکن ”الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا“۔ اب امریکا کو شام میں اپنی من پسند تبدیلی کے لیے ایک نیا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ 

لطف کی بات یہ ہے کہ قطر اور سعودی عرب جہاں خاندانی بادشاہتیں قائم ہیں امریکہ کو وہاں جمہوریت اور عوامی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں۔ قطر خطے میں رفتہ رفتہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کا نیا فعال اتحادی بن کر ابھر رہا ہے۔ امریکا اور خطے کے اس کے تمام اتحادی بحرین میں عوام کا خون بہانے میں شریک ہیں، جہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا لنگر انداز ہے اور سعودی و قطری فوجیں عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ بحرین میں بھی ایک خاندان کی حکومت قائم ہے، جسے بیرونی سہارے پر قائم رکھا جا رہا ہے۔ وہ تمام قوتیں جو بحرین میں یہ کردار ادا کر رہی ہیں سب مل کر شام میں کوئی اور ناٹک کھیل رہی ہیں۔
 
ایران کا نقطہ نظر:
ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیداری اسلامی کی ابتدا ہی سے وہ ممالک جو اس کے خلاف تھے، انھوں نے مقابلے کے لیے راہ حل تلاش کرنا شروع کر دی ہے، تاکہ ان تحریکوں کو اپنے مفادات کا رخ دے سکیں، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر یہ انقلابات ایک نئی سیاسی فضا پیدا کرنے کا سبب بنیں گے کہ جو استعمار اور اسرائیل کے خلاف ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ استعماری قوتوں نے شام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دہشتگردوں کو تیار کیا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ شام میں ایک طویل خانہ جنگی کا آغاز کریں، تاکہ دنیا اور خطے کے ممالک کی توجہ اس طرف مبذول کرکے بحرین اور یمن میں اپنے مقاصد کے مطابق حالات کو کنٹرول کر سکیں۔ 

انھوں نے کہا کہ شام میں سیاسی نظام میں تبدیلی کا مقصد اسرائیل کے خلاف علاقے میں موجود مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ اگر وہ شام کے سیاسی نظام کو تبدیل کر دیں تو فلسطین اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو کنٹرول کرسکیں گے۔ نیز فلسطین اور حزب اللہ کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کو بھی روک سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم عرب کے تمام ممالک میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اسی طرح سے عوام کا قتل جہاں بھی ہو وہ قابل مذمت ہے اور یہ شام میں بھی قابل مذمت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حکمت عملی بحرین، یمن اور شام میں ایک جیسی ہے۔ حسین امیر عبداللھیان نے یہ بات قم میں گذشتہ ہفتے دفتر خارجہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 177670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Salam
ہماری پیشکش