0
Friday 13 Jul 2012 20:39

لوڈشیڈنگ مسائل اور انکا ممکنہ حل

لوڈشیڈنگ مسائل اور انکا ممکنہ حل
تحریر: سید محمد عمران ہمدانی

موسم گرما کی آمد اور گرمی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جس سے عوام الناس شدید ترین مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے دعوے کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر لوڈشیڈنگ تو ختم نہیں ہوتی البتہ موسم گرما ختم ہوجاتا ہے۔ چونکہ اشرافیہ طبقہ آج تک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار نہیں ہوا ہوتا، اس لیے حکومتی اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز عہدیداران اس انتہائی اہم مسئلہ کی حساسیت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات جو کہ پاکستانی معاشرہ میں ظاہر ہوتے ہیں، محسوس نہیں کر سکتے۔ بظاہر لوڈشیڈنگ چند گھنٹوں کی بجلی کی بندش ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل جو بعض اوقات انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر جاتے ہیں، نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں۔ آج ہم پاکستانی عوام کے ان بنیادی مسائل میں سے لوڈشیڈنگ پر مبنی مسئلہ پر آواز بلند کریں گے۔ 

لوڈشیڈنگ اور ہمارے گھریلو مسائل:
بار بار لوڈشیڈنگ اور بالخصوص غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے چھوٹے گھروں میں رہائش پذیر ساڑھے 12 کڑور عوام متاثر ہوتے ہیں۔ اکثر گھروں میں صحن وغیرہ نہیں ہوتے، جس سے اہل خانہ بالخصوص بزرگوں اور بچوں کے مسائل زیادہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے سکولوں و کالجوں میں آمد و رفت میں مسائل پیدا ہونے سے طلباء پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے مجموعی طور پر تعلیمی گراف میں کمی واقع ہوتی ہے۔ گھروں میں بچوں کے یونیفارم کی دھلائی، استری سے لے کر رات میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ اور بالخصوص رات میں باربار لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نیند کا پورا نہ ہونا جہاں تعلیمی نقصان کا باعث بنتا ہے وہاں اکثر اہل خانہ چڑچڑے اور ذہنی امراض میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اہل خانہ اکثر و بیشتر اہل محلہ میں لڑائی جھگڑوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ گرمیوں میں مقامی لڑائی جھگڑوں کی وارداتیں اکثر ہوتی ہیں، جس کی اصل وجہ لوگوں کے ذہنی مسائل ہیں اور ذہنی پریشانیوں میں انسان کی برداشت کے خاتمہ میں نیند کا مکمل نہ ہونا ہے۔ سخت گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی کی کمی، نہانے کا سسٹم تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ نظام زندگی میں باربار خلل کی وجہ سے برداشت ختم ہو جاتی ہے اور گلی محلوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ باربار اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے عوام الناس سب سے زیادہ اس وقت متاثر ہوتے ہیں جب اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں بجلی بند ہوتی ہے۔
 
سب سے زیادہ دیہی علاقوں کے لوگ متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ دیہات میں جرنیٹرز، UPS کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ڈیلوری کیسیز میں یہ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوجاتی ہے اور بالخصوص نوزائیدہ بچوں کی پیدائش کے فوری بعد سخت گرمی اور لوشیڈنگ کی کثرت کی وجہ سے ان نوزائیدہ بچوں میں یرقان، اسہال اور الرجی وغیرہ کے امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسپتالوں میں آپریشن کے لیے آنے والے مریض بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اکثر آپریشن ملتوی کر دیئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سٹوروں پر فروخت ہونے والی چند اہم ادویات کے لیے ریفریجریٹر کا استعمال بہت ضروری ہے۔ بار بار لوڈشیڈنگ کی وجہ سے موسم گرما میں یہ اہم اور حساس ادویات میڈیکل سٹور مالکان منگوانا چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو ادویات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

گھروں اور بالخصوص ہوٹلوں میں بار بار لوڈشیڈنگ اور وولٹیج کی کمی کی وجہ سے گھریلو برقی آلات، پانی والی موٹر، فریج، ٹی وی، کمپیوٹرز، استری، پنکھے، بلب وغیرہ متاثر ہوتے ہیں، جس سے عوام کے مسائل میں غیر ضروری اضافہ ہو جاتا ہے۔ دفتری اوقات میں بجلی کی بندش کی وجہ سے ہمارے سرکاری دفاتر میں کام بالکل ٹھپ ہو جاتا ہے، پہلے ہی سرکاری اداروں میں کام کی رفتار بہت آہستہ ہوتی ہے اوپر سے لوڈشیڈنگ دفتری امور میں شدید رکاوٹ کا باعث بنتی ہے، جس سے دفتری امور میں پریشانی عوام کے لیے اضافی بوجھ بن جاتی ہے۔ دفتروں کے بار بار کے چکر جہاں وقت کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں، وہاں چار دن کا کام 15 دن میں ہوتا ہے۔ 

دکانداروں اور چھوٹے کاروباری حضرات کو جرنیٹرز کے استعمال پر اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں، جس سے متوسط طبقہ کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ چھوٹی سطح کے کارخانوں، ہوٹلوں، دکانوں اور بالخصوص انڈسٹریز میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اکثر و بیشتر ملازمین کو نکال دیا جاتا ہے، تاکہ مالکان تنخواہوں کی ادائیگی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار نہ ہو جائیں۔ کم پڑھے لکھے اور غیرہنر مند افراد لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اکثر وبیشتر بے روزگاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہماری سیاحت بھی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ چھٹی کے ایام میں اکثر فیملیز باہر سیر کرنے نکلتی ہیں، جس کی وجہ سے پارکوں، ہوٹلوں، ٹیکسی و دیگر افراد کے روزگار کا نظام چلتا ہے، مگر سخت گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے علاقائی فیملیز کے ساتھ دوسرے علاقوں سے آنے والے سیاحوں اور بالخصوص غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں مایوس کن کمی ہو جاتی ہے۔ جس سے سیاحت سے متعلقہ شعبہ ہائے زندگی کے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ملکی سطح پر سیاحت زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرناک مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب ہماری انڈسٹری اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ فیکٹری اور ملز کے مالکان اپنی پیداواری صلاحیت کے متاثر ہونے سے جہاں پریشان ہوتے ہیں وہاں غیر ملکی آرڈرز کی بروقت فراہمی سب سے زیادہ مسئلہ بن جاتی ہے۔ 

لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہماری کاروباری برادری سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ بروقت فراہمی کی شکایات کی وجہ سے اب انٹرنیشنل مارکیٹ میں خریداری کا رحجان انڈیا، سری لنکا، بنگلادیش اور چین کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ ہماری انڈسٹری پر پہلے ہی غیر ضروری ٹیکسیز کا بوجھ ہے، اوپر سے لوڈشیڈنگ ہماری انڈسٹری کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان شدید معاشی بحرانوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری انڈسٹری کے مسائل کی وجہ سے ہماری ملکی معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے جا رہے ہیں۔ 

مسائل کا حل:
بجلی چوری کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی کی جائے اور قانون پر عمل درآمدی کو یقینی بنایا جائے۔ فاٹا، پشاور کے بعض اضلاع ہنگو، کوہاٹ کے دیہاتی علاقہ جات بنوں، ٹانک، ڈی آئی خان کے دیہاتی علاقہ جات میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں بعض علاقوں میں کھلے عام بجلی چوری ہوتی ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر سپیشل ٹاسک فورس بنائی جائے جو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر آپریشن کرکے بجلی چوروں کو قرار واقعی سزا دے، تاکہ بجلی چوروں کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپے کا جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہ ختم ہو سکے۔ 

مہنگی بجلی کے سابقہ حکومتوں میں ہونے والے معاہدوں میں مزید توسیع نہ کی جائے، کیونکہ فی یونٹ بجلی مہنگی ہونے سے عوام الناس براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر مزید نئے ڈیمز کی تعمیر شروع کی جائے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کی بروقت مرمت کی جائے اور ان چھوٹوں ڈیموں میں ممکنہ حد تک توسیع بروقت کی جائے۔ زیرتعمیر دیامر بھاشا ڈیم، گومل زیم ڈیم، کرم تنگی ڈیم، منڈا ڈیم، اکوری ڈیم، میرانی ڈیم، سبکزئی ڈیم، ست پارہ ڈیم، ورسک ڈیم اور غازی بروتھا پراجیکٹ ڈیموں کی تعمیراتی کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔
 
محکمہ واپڈا میں موجود کرپشن کے خاتمہ کے لیے تمام دفتری نظام کو فوری طور پر کمپیوٹرائز کیا جائے، تاکہ ملازمین میں موجود کرپشن اور امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوسکے۔ محکمہ اہلکاروں کی کرپشن اور بالخصوص عوام الناس کے اطمینان قلب کے لیے بجلی کے نئے کمپیوٹرائز میٹر نصب کئے جائیں، جس سے میٹر ریڈنگ کے مسائل کا خاتمہ ہوسکے۔ غریب افراد اور شدید مالی مشکلات کے شکار گھرانوں کے لیے حکومتی سطح پر 50 یونٹ تک بجلی فری فراہم کی جائے۔ بجلی کے بلوں پر عائد غیرضروری ٹیکسیز میں کمی کی جائے، تاکہ عام آدمی کو ریلیف حاصل ہوسکے۔ 

سستی بجلی کے حصول کے لیے ہمسائیہ ملکوں چین، ایران، تاجکستان کے ساتھ سستی بجلی کے حصول کے معاہدے کیے جائیں، تاکہ لوڈشیڈنگ پر قابو کے ساتھ ساتھ سستی بجلی سے بھی عوام مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں حکومت میں شامل اعلٰی عہدیداران اور بجلی کے متعلق ذمہ دار اداروں کے اعلٰی آفیسران اپنے ذاتی مفادات اور بھاری رشوت کے حصول کی وجہ سے انگلینڈ، جرمن، ترکی اور امریکہ کی کمپنیوں کے ساتھ مہنگے سودے کرتے ہیں۔ جس سے بجلی کی پیداواری قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور عوام مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں جن سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، مرحلہ وار ختم کر دینے چاہیں اور چین، ایران اور تاجکستان سے سستی بجلی کے معاہدے کرنے چاہیں۔ 

معاشی ترقی کے لیے زرعی شعبہ کے ساتھ ہمسایہ ملک بھارت کی طرح تعاون کرنا چاہیے، تاکہ زرعی شعبہ ترقی کر سکے۔ زرعی بجلی کی قیمتوں میں مناسب کمی کی جائے۔ زرعی ٹیوب ویلوں پر عائد ٹیکسیز میں کمی کی جائے۔ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور زرعی ٹیوب ویلوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔ بجلی فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں اور متعلقہ حکومتی اداروں کے اعلٰی آفیسران کے غیرضروری غیر ملکی دوروں، مہنگے ہوٹلوں میں پریس کانفرنسیز، غیر ضروری پبلسٹی، ٹی وی اور اخبارات میں غیرضروری مہنگے اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے، تاکہ غیر ضروری اخراجات سے بچا جاسکے۔ بجلی پیدا کرنے اور فراہم کرنے والے ادارے اکثر ان شہہ خرچیوں کی وجہ سے خسارہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

پورے ملک میں موجود سٹریٹ لائٹس سسٹم کو فوری طور پر سولر انرجی سسٹم پر شفٹ کیا جائے، تاکہ موسم گرما میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری اخراجات جو کہ ماہانہ طور پر مختلف محکموں کو کرنے پڑتے ہیں، ان سے مستقلاً جان چھڑائی جاسکے۔ گھریلو استعمال کے جرنیٹرز اور UPS پر عائد تمام سرکاری ٹیکسیز ختم کر دیئے جائیں، تاکہ ان سہولیات سے ایک عام آدمی بھی مستفید ہوسکے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام کم سے کم نقصان اٹھا سکیں۔ کیونکہ جرنیٹر اور UPS کے مہنگے داموں کی وجہ سے عام آدمی ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ 

بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گھریلو سطح پر سولر انرجی اور گیس کے استعمال کی جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے، تاکہ متبادل ذرائع کے استعمال سے بجلی کی کمی پر قابو پایا جا سکے۔ گھریلو استعمال مثلاً استری، فریج، ٹی وی اور چولہے وغیرہ کو گیس اور سولر انرجی کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ بجلی پیدا کرنے اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں میں اکثر بیشتر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مینجمنٹ کا شدید فقدان ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ، رشوت اور اس جیسے دیگر مسائل کی موجودگی میں متعلقہ محکمے ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور متعلقہ محکمے عوام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ متعلقہ محکموں میں سیاسی اثر رسوخ اور رشوت کے خاتمہ کے لیے پلان بنایا جائے اور مینجمنٹ میں مثبت تبدیلیاں لائیں جائیں اور مہنگے کنسلٹنٹس جو کہ محکمہ سے لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر محکمہ کے لیے بہترین پلاننگ بھی نہیں کرسکتے، ان کو فارغ کرکے محکمہ کے ماہانہ غیر ضروری اخراجات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
 
بجلی چوری کے بعد اکثر و بیشتر متعلقہ کمپنیاں بجلی چوری کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان یونٹس کو غریب عوام کے کھاتہ میں ڈال کر اوور بلنگ کرتے ہیں، جس سے غریب آدمی کا نقصان ہوتا ہے اور ساتھ اوور بلنگ کی شکایت کی صورت میں محکمہ نے بل درستگی کا چکر بہت لمبا بنا دیا ہے، جس سے عوام آدمی دفتری چکروں میں ہی پھنس کر رہ جاتا ہے۔ بڑے بڑے نادہندگان جیسے سٹیل ملز کراچی، کراچی کی ضلعی حکومتیں، محکمہ بلدیہ جو کہ اکثر اضلاع میں محکمہ کا نادہندہ ہے۔ عرصہ دراز سے ریکوری نہیں کی جاتی، لہٰذا فوری طور پر بلوں کی ادائیگی کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس ریکوری کو جلد از جلد یقینی بنائے جائے۔
 
محکمہ کے مالیاتی بحران میں یہ رقم متعلقہ محکمہ میں استعمال ہوسکے۔ اس وقت ہائیڈرو پراجیکٹس سے 6250 ، Genco's سے 2780 نیوکلیئر سے 5122 اورینٹل پراجیکٹ سے 250 جو کہ ٹوٹل 14402 بجلی حاصل کی جاتی ہے، مگر موسم گرما میں ضرورت سے اس سے زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر ذرائع مثلاً کوئلہ سے بجلی کی پیداوار، ہوا سے بجلی، سولر انرجی اور بالخصوص ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیرات میں اضافہ سے جہاں عوام الناس تک بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، وہاں مہنگی بجلی سے بھی نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 178722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش