0
Saturday 14 Jul 2012 22:44

شام جمہوری جدوجہد یا جمہوری تماشہ(2)

شام جمہوری جدوجہد یا جمہوری تماشہ(2)
تحریر: ثاقب اکبر

امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں شام کے محاذ کی اہمیت
اس سلسلے میں ہم پہلے بھی متعدد اہم پہلوﺅں کی طرف اشارہ کرچکے ہیں، تاہم اپنے قارئین کے لیے تاریخی اہمیت کے حامل چند پہلوﺅں کا ذکر کرنا بہت مفید رہے گا:
مشرق وسطٰی میں شام کا شمار اہم ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت اسرائیل کے ساتھ ملنے والی اس کی سرحدوں کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے زمانے سے شام کی سرزمین کا ایک حصہ جسے جولان کی پہاڑیاں کہتے ہیں، اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ امریکی کوششوں سے اسرائیل کی ہمسایہ ریاستوں میں سے مصر اور اردن نے اسرائیل کو جائز اور قانونی ریاست تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے۔ نتیجے کے طور پر 1967میں مصر کے جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا تھا ان میں سے بیشتر اسے واپس مل گئے۔ 

شام پر بھی دباﺅ موجود رہا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو جولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے اس سے بات کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ترکی کے تعاون سے جو مذاکرات ہوئے ان میں اور قبل ازیں اسرائیلی حکام کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا رہا کہ جولان کی پہاڑیوں کی اسرائیل کے لیے بہت زیادہ اہمیت ہے۔ راقم نے خود بھی شامی علاقے سے اس پہاڑی سلسلے کا مشاہدہ کیا تو یہ بات زیادہ کھل کر سامنے آگئی کہ اگر جولان کی پہاڑیاں شام کو واپس مل جاتی ہیں تو دفاعی اعتبار سے شام کو اسرائیل کے خلاف ایک طرح کی بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل انھیں لوٹانے کے لیے آمادہ نہیں، بلکہ شام کے مقبوضہ علاقے میں اس نے یہودی آباد کاری کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔

اس دوران میں شام کی حکومت کا موقف اسرائیل کے مقابلے میں بہت جرات مندانہ رہا ہے، وہ نہ فقط اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوا، بلکہ فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کے لیے بھی ایک پناہ گاہ بنا رہا۔ شام نے لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے دوران لبنان کی مدد کی اور لبنانی حکومت کی درخواست پر اپنی افواج بھی وہاں روانہ کیں۔ شام کے تعلقات ایران کی انقلابی حکومت کے ساتھ بھی پہلے دن سے بہت دوستانہ چلے آ رہے ہیں۔ 

ان سارے امور کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا دشوار نہیں رہتا کہ امریکہ اور اسرائیل شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کیوں خواہشمند ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یا شام کی موجودہ حکومت مصر کی سابقہ حکومت کی طرح اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دے یا پھر وہ اسے تبدیل کرکے دم لیں گے۔ شام کے اسی کردار کی وجہ سے امریکہ نے اسے پہلے ہی ”بدی کا محور“ قرار دے رکھا ہے۔ گویا امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف سے شام کے خلاف اقدامات یا شور شرابا نیا نہیں ہے اور نہ ہی آج شامی اپوزیشن کی جمہوریت کے نام پر حمایت ان کے اصل مقاصد کی آئینہ دار ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے شام کے خلاف طرح طرح کی پابندیاں ایک عرصے سے عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کے نفاذ میں انھیں سعودی عرب، اردن، مراکش، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسی ریاستوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
 
علاقے کے رجعت پسند عربوں کا کردار
جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر جیسے علاقائی ممالک شام میں جاری حکومت مخالف تحریک جسے وہ جمہوریت کی تحریک کہتے ہیں، کے زبردست حامی ہیں۔ اس سلسلے میں بہت ساری رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر خاص طور پر شامی اپوزیشن کو رقم اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ اس بارے میں اسرائیل کے حوالے سے بھی بہت کچھ منظر عام پر آچکا ہے۔ شام میں گذشتہ برس ماہ مارچ میں اردن کے بارڈر پر واقع ایک شہر ”درعہ“ سے مظاہروں کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہ ایک ہمہ گیر منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز تھا، جس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے وکی لیکس کے حوالے سے لکھا کہ اس تمام منصوبے کے لیے رقم کی فراہمی سعودی عرب کے ذمے تھی، جبکہ امریکہ نے بھی اس میں کئی بلین ڈالر کا حصہ ڈالا۔
 
شام کے ایک معروف رائٹر اور سیاسی امور کے ماہر احمد صوان نے حال ہی میں ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام میں حکومت مخالف گروہوں میں تکفیری بھی پیش پیش ہیں، جن کا وجود نہایت خطرناک ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ 2006ء میں حزب اللہ اور اس کے بعد فلسطینی تحریک مزاحمت کی اسرائیل کے خلاف کامیابی کے بعد سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے خلیج تعاون کونسل اور مصر و اردن کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس خطے میں عرب اسرائیل جنگ نہیں ہے، بلکہ اعتدال پسندوں اور شدت پسندوں کے مابین جنگ ہے۔ کونڈا لیزا رائس نے ان عرب سربراہوں کو اعتدال پسند قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ایران، شام، لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی تحریک مزاحمت ان کے مدمقابل ہے۔
 
احمد صوان نے مزید کہا کہ شام میں حکومت مخالف واقعات کے آغاز کے بعد اپریل میں سعودی ولی عہد نائف بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کی جیلوں کا دورہ کیا اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ شام میں اپنی کارروائیاں شروع کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جون میں الظواہری نے پہلی مرتبہ شام کے حالات پر بیان جاری کیا اور شامی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب مختلف ممالک کے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے چار سو افراد کو شام روانہ کیا گیا۔
 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ شام کے مسئلہ پر عرب لیگ بہت متحرک ہو چکی ہے۔ عرب لیگ جس نے آج تک کبھی کوئی فوجی کردار ادا نہیں کیا اور اس نے کبھی اجتماعی طور پر اسرائیل کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، پے در پے شامی حکومت کے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ عرب لیگ کھل کر شام کی حکومت کے خلاف بیانات دے رہی ہے۔ عرب لیگ ہی کے ایماء پر حال ہی میں قاہرہ میں شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے نمائندوں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے شام سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینلز بند کروا دیئے ہیں۔ رجعت پسند عرب حکومتوں کے چینلز مغربی ذرائع ابلاغ سے حاصل کردہ رپورٹیں شام کے خلاف مسلسل نشر کر رہے ہیں۔
 
عرب لیگ کا یہ طرز عمل اس قدر حیران کن اور آشکار ہے کہ ایک سابق روسی سفارتکار ویچسلاو موٹوزف نے ایک ٹی وی چینل سے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں عرب لیگ کی امریکی دباﺅ کے مقابلے میں پسپائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عربوں کو امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے مفادات کے بجائے عربوں کے مفادات کی حمایت کرنا چاہیے۔
 
شام مخالف محاذ کی شناخت کے لیے شام کے ایک اور معروف رائٹر اور تجزیہ نگار ریاض الاخرس کا بیان بھی قابل توجہ ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب، قطر، ترکی اور فرانس شامی حکومت کے خلاف سرگرم عمل مسلح گروہوں کی مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مالی مدد کے علاوہ انھیں اسلحہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ذرائع ابلاغ کو بھی ان کی حمایت میں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ شام میں اسی طرح سے عدم استحکام کو باقی رکھیں، بلکہ وہ اس بحران کو شدید تر کرنا چاہتے ہیں۔
 
وہ حکومت دمشق کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب عدم استحکام خود انہی کا پیدا کردہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور قطر کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایک روز ان کی بھی نوبت آنے والی ہے اور اغیار ایک روز ان کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے انھیں بھی آپس میں تقسیم کر دیں گے۔ اگرچہ آج بھی یہ دونوں حکومتیں اپنی دولت کے ذریعے سے استعماری قوتوں ہی کی مدد کر رہی ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 179118
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش