1
0
Friday 27 Jul 2012 11:58

رمضان المبارک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان

رمضان المبارک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان
تحریر: سید قمر رضوی

ماہِ صیام دنیا کے کونے کونے میں مکمل عقیدت و احترام، آب وتاب اور اپنی شان کے شایان منایا جا رہا ہے۔ اہلِ ایمان اور اہلِ فکر حضرات تمام سال ان مبارک گھڑیوں کے انتظار میں بیتاب رہتے ہیں اور اس مہینے کے ایک ایک پل سے اپنی روح کے لئے غذا مہیا کرتے ہیں۔ یہ مہینہ برکت کے لحاظ سے اتنا بلند مقام رکھتا ہے کہ معروف احادیث کے مطابق شیطان جیسے طاقتور دشمن کی پہنچ سے بھی دور ہے۔ دنیا بھر کے تمام ممالک چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، رمضان المبارک کا اپنا ایک جداگانہ رنگ رکھتے ہیں۔

اس مبارک مہینے کی برکات و حسنات کے وزن کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ روایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس ماہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیئے گئے کسی بھی کام کا اجر، باقی سال میں کئے گئے کام کے مقابلے میں رائی کے دانے اور پہاڑ کے حجم جتنا فرق رکھتا ہے۔ مثلاً اس ماہ میں کی گئی ایک آیت کی تلاوت اجر کے لحاظ سے باقی سال میں تلاوت کئے گئے پورے قرآن کے مساوی ہے۔ اس ماہ کا ایک روزہ، باقی تمام سال کے روزوں پر بھاری ہے۔ وغیرہ۔ اسی لئے ان گھڑیوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے اور باقی ماندہ سال کے لئے زادِ راہ اکٹھا کرنے کے لئے دنیا بھر میں قبل از آمد ہی انتظامات کرلئے جاتے ہیں۔ 

مثلاً اسکولوں، دفاتر اور کاروبار کے اوقات میں مناسب تبدیلی، ٹرانسپورٹ کے خصوصی انتظامات، مساجد میں خصوصی انتظامات، بازاروں میں اشیائے خورونوش اور روزمرہ استعمال کے سامان کی فراوانی اور نرخوں میں ارزانی، زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کی تقسیم، بجلی، پانی، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات کی یقینی فراہمی اور سب سے بڑھ کر انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان تمام امور کو حکومت، انتظامیہ اور عوام مل کر انجام دیتے ہیں اور نتیجتاً خدا کی خصوصی مہربانیوں اور برکات کو اپنے وجود تک میں محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ شیطان کو اس ماہ کا چاند چڑھتے ہی مقید کر دیا جاتا ہے اور خیر و برکت کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو شوال کے چاند پر جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

لیکن مقامِ حیرت ہے کہ قلعہء اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس ماہ کا آغاز ہی فتنہ و فساد کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی اسکا چاند بھی کسی کو نظر نہیں آنے پاتا کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شیطان اپنی تمام تر توانائیوں اور فوجِِ چیلان کے ساتھ اس ملک پر مسلط ہوگیا ہے۔ کسی بھی اسلامی مہینے کے آغاز کا پہلا مرحلہ اسکی روئیتِ ہلال ہوتی ہے۔ یہاں یہ سلسلہ عام ہے کہ یہاں شعبان اپنے اختتام کی جانب چلا، وہاں ایک شہر کے چند شرپسند عناصر چاند کے متوقع وقت سے ایک دن پہلے ہی چاند کی روئیت کا مسئلہ کھڑا کرکے پورے ملک کے عام شہریوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ 

دوسری جانب سرکاری طور پر وہ افراد چاند دیکھنے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں جو سامنے پڑے ہوئے قلم کو بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہاں قطعاً کسی کا مذاق اڑانا مقصود نہیں۔ یہ وہ مظہر ہے جو ہم بچپن سے ٹی وی پر دیکھتے آ رہے ہیں کہ چند مذہبی شخصیات کو وہ ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے، جو کہ خالصتاً سائنسی افراد کی ہے۔ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ روئیتِ ہلال کمیٹی کا اجلاس کسی شہر کی بلند ترین عمارت کی چھت پر منعقد ہوتا ہے، جس میں شرکت کرنے والے افراد جہازوں اور گاڑیوں کے ذریعے سفر کرکے وہاں تک پہنچتے ہیں۔ پھر لفٹ میں سوار ہوکر عمارت کی بالائی منازل تک جاتے ہیں۔ 

روئیت کی شہادتیں اکٹھی کرنے کے لئے ٹیلی فون، موبائل فون، فیکس اور ٹیلیکس جیسے سائنسی آلات استعمال کرتے ہیں۔ چھت پر جا کر محکمہء موسمیات، بحریہ اور فضائیہ کی فراہم کردہ طاقتور دوربینوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان مائیکروفون اور کیمروں کے سامنے بیٹھ کر کرتے ہیں، جو مصنوعی سیاروں کے ذریعے دنیا بھر میں نشر کیا جاتا ہے۔ یہاں مجھ جیسے کج فہم افراد کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل انجام دینے کے لئے شروع سے آخر تک تمام تر مدد سائنسی آلات سے لی جاتی ہے۔ لیکن موسمیات اور فلکیات کے ان ماہرین کو گھاس تک کیوں نہیں ڈالی جاتی جو ان تمام آلات کے بخوبی استعمال کے ساتھ ساتھ دیگر آلات کو بھی استعمال میں لا کر نہ صرف اسی مہینے، بلکہ ہزاروں سال تک کے تمام مہینوں کے ابھرنے اور ڈوبنے والے چاندوں کی حرکات اور پوزیشن کی لمحہ بہ لمحہ خبر دے سکتے ہیں۔ 

کیا روئیتِ ہلال کمیٹی کے ارکان رضاکارانہ طور پر اس منصب سے علیحدگی اور اس کمیٹی کو کاملاً موسمیات اور فلکیات کے ماہرین کے حوالے نہیں کرسکتے؟ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو یقین جانئے کہ یہ ماہرین تمام فرائض کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کر اپنے درست فیصلے نشر کرنے کے لئے آپ ہی کے حوالے کریں گے، کیونکہ اس ماہ کو اسلامی رنگ میں منوانے کا سہرا تو آپ ہی کے سر رہے گا۔ یوں یہ مسئلہ ہر مہینے کے لئے حل بھی ہوسکتا ہے اور تمام ملک کے عوام کو ذہنی کوفت سے چھٹکارا بھی مل سکتا ہے۔ 

روئیتِ ہلال کے بعد روزہ داری تو شروع ہو جاتی ہے، لیکن بازاروں سے اشیائے ضروریہ ایسے غائب ہو جاتی ہیں جیسے کبھی گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوئے تھے۔ جو کچھ بازاروں میں دستیاب ہوتا ہے، وہ غریب کو دست یاب نہیں ہوتا۔ اب تو غریب بھی دور کی بات، اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کی بھی اس مہینے میں چیخیں نکل جاتی ہیں کہ جو کچھ بازار میں موجود ہے، اسکے نرخ سونے کے داموں کے ساتھ مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے میدان میں ہمارے بیوپاری حضرات دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن اس ماہ میں تو انکی پھرتیوں کے کیا ہی کہنے۔ 

حکومت کی جانب سے عوام کے لئے لگائے گئے سرکاری بازاروں اور یوٹیلٹی اسٹوروں سے یہی آتش خور لوگ سامان غائب کرکے باہر کے بازاروں میں مہنگے داموں فروخت کرکے روپیوں کی صورت میں اپنے لئے آگ اکٹھی کرتے ہیں۔ دوسری چیز جو کہ یہاں بہت عامیانہ طور پر رائج ہے کہ ناقص سامان، خدا اور رسول کی قسم کے ساتھ اصلی کہہ کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے اور یہاں اذان کی آواز بلند ہوئی، وہاں تمام کاروباربند کرکے نماز کا فرض پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر کچھ ایسے سفید پوش حضرات کو جانتا ہوں جو صرف استطاعت نہ ہونے کے باعث رمضان کی آمد کو اپنے لئے خیر نہیں، سزا کا مہینہ گردانتے ہیں۔

ماہِ مبارکِ صیام میں ہمارے ملک میں بدترین ٹریفک، بدترین کے آخری درجے کو بھی عبور کر جاتی ہے اور سڑکوں پر ہنگام، بھاگم دوڑ، توتڑاخ، اڑپھنس، گالم گلوچ، بے چینی اور ٹریفک جام کی کیفیات ایک الگ ہی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اسکے علاوہ بھی بدقسمتی سے ہمارے یہاں رائج غلط رویوں اور رواجوں کی وجہ سے یہ مہینہ ہم سے خدا کی خوشنودی کو چھین لیتا ہے۔
بصد افسوس یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ دہشتگرد گروہ اس مہینے میں بھی اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آتا اور سارے سال کی طرح رمضان میں بھی روزہ داروں کو قتل کرنے اور شہروں میں بم دھماکے کرنے میں تامل نہیں کرتا۔ انتظامیہ اس معاملے میں جتنی بے بس نظر آتی ہے، شاید ہی کسی اور معاملے میں ہو۔

لیکن دوسری جانب نظر کی جائے تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اس مبارک ماہ کی بابرکت گھڑیوں سے نہ صرف خود فیضیاب ہوتے ہیں، بلکہ اپنے ساتھ ساتھ دیگر انسانوں کے لئے بھی رحمت کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے ہیروں کی کوئی کمی نہیں جو کئی کئی گھرانوں کا راشن اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ یتمیم خانوں کے لئے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ غریبوں کے لئے انکے گھروں اور سڑکوں پر سحر و افطار کا انتظام کرتے ہیں۔ ہزاروں مریضوں کے لئے ہسپتالوں میں مفت دواؤں کا انتظام کر دیتے ہیں۔ 

بے گھر افراد کو حتی المقدور سر چھپانے کے لئے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ اور یہ سب کرنے کے باوجود بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ سب کرنے والا ہے کون! شاید یہی خدا کے وہ مقرب بندے ہیں جنکے وجود کی برکت سے یہ ملک اب تک قائم ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ان فرشتہ صفت انسانوں کو ہمارے درمیان قائم و دائم رکھے۔ ہمیں صحیح معنوں میں رمضان المبارک کو سمجھنے اور اس سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ میں بالخصوص اور دیگر سال میں بالعموم ہمیں ان شیطانوں کے شر سے محفوظ رکھے جو چند ٹکوں کی خاطر پورے ملک کا سکون اور اطمنان برباد کئے ہوئے ہیں۔

آخر میں ایک ضروری وضاحت۔ اور وہ یہ کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے مطابق شیطان اس ماہ میں قید کر دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارا مشاہدہ اسکے برعکس کیوں ہے؟ نعوذباللہ رسولِ صادق سے کسی غلط بیانی کا تصور بھی کرنا ایمان پر ضربِ کاری ہے۔ اسکی وجہ محض یہی معلوم ہوتی ہے کہ شیطان تو قید ہو ہی جاتا ہے لیکن اسکے پروردہ انسان نما چیلے، جنکی رگوں میں شیطان سرایت کرچکا ہوتا ہے، وہ مکمل آزادی سے اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں اور یوں یہ ماہِ مبارک بھی شیطان کی کارگزاریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک سوال ہنوز تشنہء جواب ہے کہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی کیوں؟
خبر کا کوڈ : 182503
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
باقی تمام باتیں جو آپ نے لکھی ہیں، بجا ہیں، توجہ کے قابل ہیں۔ البتہ رویت ہلال، سوائے اس کے کہ خود انتقامی، یعنی اپنے ملک کو برا کہنے، کے ایک عذر سے بڑھ کر نہیں۔ یہ سب باتیں مذاق کی حد تک تو ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ پر حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ رویت ہر ایک کا ذاتی کام ہے، یہ کام اگر کوئی ادارہ کر رہا ہے، تو ہمیں اس کی معاونت کرنی چاہئے۔
ہم سب بہت بہتر جانتے ہیں کہ اس سے اختلاف کرنے والے لوگ کون ہوتے ہیں، عموماً پشاور کے ایک ٹولے کو چاند نظر آجاتا ہے جو ان کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں دکھتا۔ جبکہ جب کمیٹی کی طرف سے اعلان ہو تو بیشتر کیمرے کی آنکھ بھی گواہی دے دیتی ہے۔ ایک آدھ بار جو تنازعہ مذہبی حلقوں میں ہوا، اسکی وضاحت سمجھنا بہت ضروری ہے۔
چاند دیکھنے سے لیکر خبر نشر کرنے تک جو آلات استعمال ہوتے ہیں، انکے بارے میں جاننا شرط نہیں ہے، البتہ فقہی مسائل اور افق کی شرعی تقسیم جاننا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ میری ناقص اطلاعات کے مطابق آج تک کبھی بھی محکمہ موسمیات اور کمیٹی کے بیانات میں تضاد نہیں آیا۔
ہماری پیشکش