2
0
Monday 30 Jul 2012 13:43

مسلمۂ اول ملیکۃ العرب ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س)

(10 رمضان المبارک وفات حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س) کے حوالے سے خصوصی تحریر)
مسلمۂ اول ملیکۃ العرب ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س)
تحریر: ندیم عباس میثم
پی ایچ ڈی اسکالر (نمل یونیورسٹی اسلام آباد) 
 
عرب معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، انسانی اقدار اپنی حیثیت کھو چکی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والی جنگیں نسلوں تک چلتی ہیں، غلامی کا دور دورہ ہے، خواتیں کے حقوق کو چھوڑئیے یہاں غریب، مفلس اور نادار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اس گھٹن زدہ اور دخترکش ماحول میں ایک ایسی خاتون موجود ہیں جو ملیکۃ العرب یعنی عرب کی ملکہ کے لقب سے معروف ہوتی ہیں اور اس گناہوں سے آلودہ معاشرے میں طاہرہ یعنی پاک و پاکیزہ خاتون کے لقب سے ملقب ہوتی ہیں۔
 
ایسا دور کہ جس میں عرب معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو بد فعالی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے خاندان کی عزت و آبرو کے لیے ننگ و عار تصور کیا جاتا ہے، ایسے معاشرے میں جنم لینے والی خاتون کو کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں ہم فقط ان کا تصور ہی کرسکتے ہیں اور یہ خاتون کردار و عمل میں اس درجہ پر فائز ہوتی ہیں کہ پورا خاندان اور قبیلہ آپ پر فخر کرتا ہے، اس خاتون سے ہماری مراد ام المؤمنین حضرت خدیجہ (س) ہیں، آپ کا گھر اسلام سے قبل ہی غریبوں مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کی پناہ گاہ تھا، آپ ایک سخی خاتون تھیں، آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا، جہاں غریبوں، مسکینوں اور مسافروں کو کھانا ملتا تھا۔
 
آپ اسلام سے پہلے تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں اور اتنی کامیاب تجارت کی کہ ملیکۃالعرب کے نام سے معروف ہوئیں، آپ کے تجارتی قافلے شام و یمن وغیرہ میں تجارت کے لیے جاتے تھے، آپ کے تجارتی قافلوں کی تعداد کافی زیادہ تھی، اسی لیے آپ نے مختلف لوگوں کو معین کیا جو ان تجارتی قافلوں کو لے کر جاتے اور سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتے۔ انہی قافلوں میں سے ایک قافلہ نبی مکرم (ص) کے سپرد ہوا، س قافلے کی واپسی پر حضرت خدیجہ (س) کے غلام میسرہ نے آپ (ص) کی جو اخلاقی صفات بیان کیں، ان سے متاثر ہو کر آپ (ص) کو خود پیغام نکاح بھجوایا۔
 
یہاں حضرت خدیجہ (س) کی نگاہ انتخاب کو داد دینی چاہیے، آپ نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے پیغام نکاح ٹھکرا دیئے مگر عبداللہ کے یتیم جو ظاہری مال و اسباب سے محروم ہیں، انھیں پسند فرمایا۔ ایک تاجر خاتون کی حیثیت سے آپ کو ایک ایسے مرد کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو بڑے مال و اسباب کا مالک اور صاحب طاقت ہو، مگر حضرت خدیجہ (س) کے ہاں ان جاہلی معیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ کے ہاں انتخاب کا معیار امانت، دیانت اور صداقت جیسی صفات حسنہ ہیں، اس میں ہمارے لیے بھی رہنمائی ہے۔
 
آج ہمارا معاشرہ جن خاندانی مشکلات کا شکار ہے اور معاشرے میں جو عدم اطمینان ہے، طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ رشتہ کے انتخاب کے وقت مال، دولت، گاڑی کوٹھی کا پوچھا جاتا ہے، مگر امانت، دیانت، دینداری جیسی صفات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جس کا خمیازہ پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔ حضرت خدیجہ (س) جب تجارت کرتی تھیں تو کامیاب تاجر تھیں اور شادی کے بعد کامیاب ترین بیوی قرار پائیں۔ حضرت خدیجہ (س) کا حضرت محمد (ص) سے نکاح حضرت ابوطالب نے پڑھا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا، جو کتب تاریخ میں محفوظ ہے۔ (مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص۳۰)
 
تاریخ میں ملتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے مقام ابراہیم (ع) اور زمزم کے درمیان کھڑے ہو کر حضرت خدیجہ (س) کے حکم سے یہ اعلان کیا: اے امت عرب خدیجہ (س) مہر کی رقم سمیت تمام اموال، غلام اور کنیزوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں آپ کو گواہ بنا رہی ہیں۔ اپنے شوہر کے لیے اتنا جذبہ خیر سگالی، اس محبت، اطاعت کا اظہار، یہ فقط حضرت خدیجہ (س) کے حصہ میں آیا اور جب آپ (ص) پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ (س) نے فوراً آپ (ص) کی تصدیق و تائید کی اور تبلیغ اسلام کا آغاز ہوا تو جس طرح آپ (ص) سے لوگ دور ہوئے نہ بات کرتے، نہ مدد کرتے، الٹا تنگ کیا جاتا، ستایا جاتا، یہی صورت حال حضرت خدیجہ (س) کو قریش کی خواتین کی طرف سے پیش آئی۔
 
آپ (س) کی سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین نے آپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا مگر آپ (س) کے پایہ ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی، وہ جن کے پاس خواتین کے جھرمٹ ہوتے تھے، جن کی کنیزیں تھیں، ان سے بات کرنے والا کوئی نہیں، مگر اسلام اور نبی اسلام (ص) پر اتنا یقین ہے کہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں، بلکہ جب آپ (ص) کفار کے رویے، ان کے ستائے گھر تشریف لاتے تو آپ (ص) کی دلجوئی فرماتیں اور آپ (ص) گھر میں سکون پاتے۔
 
 آپ (س) نے خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، اس کے ساتھ ساتھ آپ (س) نے سب سے پہلے حضور اکرم (ص) کے ساتھ نماز ادا کی۔ ابن عفیف کہتے ہیں کہ میں کعبہ کے پاس موجود تھا کہ ایک مرد کھڑا ہوا ہے، اس کے دائیں طرف ایک بچہ ہے اور بائیں جانب ایک خاتون کھڑی ہیں اور انہوں نے رکوع و سجود میں اس مرد کی پیروی شروع کر دی، میں نے حضرت عباس (رضی) سے پوچھا یہ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ محمد بن عبداللہ ہیں اور اس کے ساتھ ان کی بیوی ہے اور یہ بچہ (حضرت علی(ع) ) میرا بھتیجا ہے۔

(حضرت محمد (ص)) کہتا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، لیکن بخدا روئے زمین پر ان تینوں کے علاوہ اس کے دین کا کوئی پیروکار نہیں ہے۔ اس کے بعد راوی کہتا ہے کہ کاش میں ان تینوں میں سے چوتھا ہوتا۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج۲ ص۳۷) ابن عفیف حسرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر اس وقت اسلام قبول کرتے تو چوتھے اسلام قبول کرنے والے ہوتے۔ 

آپ (ص) نے حضرت خدیجہ (س) کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں فرمایا۔ اللہ تعالٰی نے آپ (ص) کو حضرت خدیجہ (س) کے بطن سے اولاد عطا کی، اس سے آپ (ص) کو ابتر کا طعنہ دینے والوں کی زبانیں بند ہوگئیں اور آج پوری دنیا میں نسل پیغمبر اکرم (ص) موجود ہے۔ جب قریش مکہ نے مسلمانوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا اور تمام بنی ہاشم شعب ابی طالب میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت ایام تھے۔ ان کی خوراک اور ملنے جلنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بنو ہاشم کے افراد درختوں کے پتے اور باسی روٹیاں کھانے پر مجبور ہوگئے، مگر نصرت رسول (ص) کے لیے کمر بستہ تھے۔ ایسے حالات میں وہ خاتون جو ملیکۃ العرب کے نام سے معروف تھی، جس کے سینکڑوں تجارتی قافلے تھے۔ عرب کے بڑے بڑے تاجر اس کے مقروض تھے، اس پر یہ وقت آئے کہ پتے کھانے پر مجبور ہیں مگر اس کے باوجود آپ (س) کے دل میں اسلام اور بانی اسلام کی محبت میں اضافہ ہی ہوا۔
 
جس سال بنو ہاشم کا مقاطعہ ختم ہوا، اسی سال حضرت خدیجہ (س) اور حضرت ابوطالب (ع) کا انتقال ہوا۔ اس طرح حضور (ص) کی دو عظیم پشت پناہ ہستیاں ایک ہی سال انتقال فرما گئیں۔ کسی بھی تحریک کے لیے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مال اور دوسرا تلوار یعنی عسکری قوت۔ اللہ تعالٰی نے آپ (ص) کو مال حضرت خدیجہ (س) اور عسکری قوت حضرت ابوطالب (ع) کے ذریعے عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان دو کا انتقال ہوا تو آپ (ص) نے اس پورے سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 183424
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
hazrat khadija bilasuba islam ki mohsana e awal hn aur buland kamalat aur osaf ki malka thi
very gd info
ہماری پیشکش