0
Friday 17 Aug 2012 23:25

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہء دین و وطن

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہء دین و وطن
تحریر: ملیحہ سجاد عاسل

 حرفِ آغاز کوئی نہیں ہے۔ نہ قلم میں اتنی ہمت ہے کہ کچھ زیبِ قرطاس ہو پائے۔ نہ ہی دل میں اتنا حوصلہ کہ اظہارِ خیال کی جرات کرسکے اور نہ دماغ میں اتنی طاقت بچی ہے کہ وہ حساب لگا سکے کہ محبت آلِ محمد (ع) کی پاداش میں ستم کی حد کہاں تک ہے۔ کوئٹہ، کراچی اور گلگت بلتستان کے نہتے بے گُناہ شیعہ مسلمان مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور نسل کُشی کا شکار ہیں۔ فقط اِن شہروں میں بسنے والے شیعہ عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں شیعہ کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور اِس سازش سے ملک کے نامی گرامی لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 

پچھلی دو تین دہائیوں سے تو پاکستان، مسلکِ تشیع سے وابستہ ملک کے مایہ ناز ڈاکٹروں، انجنیئروں، وکلاء، صحافی، ماہرینِ تعلیم، تجار، حتیٰ کہ فورسز میں خدمات دینے والے جاں نثاروں کی بھی ایک بڑی تعداد سے محروم ہوچُکا ہے۔ کبھی اُنہیں اُن کے گلی محلے میں ہی گولی مار دی جاتی ہے۔ کبھی کسی چوک، بازار یا چوراہے پر چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کسی اجتماعِ عام میں، مسجدوں، امام بارگاہوں، حتیٰ کہ جنازہ گاہوں کو بھی مقتل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی کُچھ گنے چُنے افراد کسی نہ کسی حادثے کے ذریعے ملکِ عدم سدھار دیئے جاتے ہیں اور یہ سب عمل ایک بے حد منظم اور پُر سکون طریقے سے بہت فول پروف انداز میں جاری و ساری ہے۔ 

یزیدی پیرو کار ہمیشہ، حسینیوں پر ظلم و ستم کے نئے نئے باب رقم کرتے رہے ہیں۔ رواں ہفتے راولپنڈی سے گلگت جانے والی 3 بسوں کے مسافروں کو جس بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اُس پر یقیناً خود موت کو بھی غش آ گیا ہوگا۔ تقریباً 4 ماہ قبل بھی اِسی علاقے میں شیعیانِ علی (ع) کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا تھا۔ ابھی تو اُسی چوٹ کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ظالموں نے دوبارہ اُسی طرز پر وحشت کی انتہا کر دی ہے۔ ستم کی حد تو یہ ہے کہ اُنہیں باقاعدہ شناخت کے بعد اذیت دی جاتی ہے اور پھر نعرۂ تکبیر کی نام نہاد صداؤں میں سر تن سے جُدا کئے جاتے ہیں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے خون میں غلطاں کر دیا جاتا ہے۔ 

دوسری طرف کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کی قتل و غارت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اپنے ہی گھر میں بے سروساماں، مدد اور انصاف کے منتظر اہل تشیع عوام روز ہی ان گنت رشتہ داروں کے لاشے اُٹھاتے ہیں، اُن کے ذہنوں میں بھی یقیناً یہ بات ضرور گُونجتی ہوگی کہ ہمارے جنازے تو کسی کو نظر نہیں آتے مگر میڈیا جو باقی ہر بات بلا چون چراں نشر کرتا ہے۔ حتیٰ کہ فحاشی اور عریانت سے بھرپور خبریں میڈیا کی نشر و اشاعت کا لازمی حصہ ہیں، مگر یہ خون ریزی ایک چند لمحے کی بریکنگ نیوز کے بعد چینلز سکرین سے یوں غائب ہوتی ہے کہ جیسے اسے مزید چلانے پر توہین عدالت کا نوٹس مل جائے گا اور ہماری عدالتیں!!! خود ایک سوالیہ نشان ہیں۔
 
سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود کو آزاد اور واقعی قدرے آزاد سمجھنے والا ہمارا میڈیا کہاں کی ڈکٹیشن کا پابند ہے؟ اِن نام نہاد چینلز کی کٹھ پتلیوں کی ڈور کن خفیہ ہاتھوں میں ہے؟ کون ہے جو اہل تشیع کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اپنے اِس ناپاک عمل کو دیگر اقوامِ عالم بالعموم اور پاکستانی عوام سے بالخصوص مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ کون ہے جو ہزارہ شیعہ کمیونٹی کی نسل کُشی کو فرقہ ورایت سے ہٹ کر گروہی تعصب کا شاخسانہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

کراچی کے شیعہ عوام کی آئے دن کی ہلاکتوں اور ٹارگٹ کلنگ کو سیاسی دشمنی سے تعبیر کرتا ہے اور گلگت بلتستان کے شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو شاہرائے ریشم پر بدامنی پھیلانے اور چین کو اضطراب میں مبتلا کرنے سے متصل کر رہا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ پُرامن احتجاجی ریلیوں میں شریک افراد کو بھی مسلسل جارحیت کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن تمام طرح کے واقعات میں صرف اور صرف اہل تشیع مسلمان ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ اور مسلسل تین دہائیوں سے اِس ظلم کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اگر یہ سب فرقہ واریت نہیں ہے تو پھر اِس بربریت کا دوسرا نام کیا ہے؟ 

فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھنے والے یہ بے گُناہ مظلوم خاندان سب سے سوال کرتے ہیں کہ ہم اپنی نسلوں کی بربادی کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں، کس کو الزام دیں۔ اپنی نااہل حکومت کو جو ہزار دعوؤں کے باوجود دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ ہزاروں لوگ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں مگر دہشتگردوں کی کاروائیاں آج تک ماند نہیں پڑیں۔ یا اپنی باقی ساری عوام کو جو گھروں میں پڑی خوابِ غفلت کا مزہ لے رہی ہے اور دشمن ایک ایک کرکے اُس کا نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ 

جو خود کو تو محفوظ سمجھتی ہے مگر اِس بات سے قطعی بے خبر ہے کہ اگر جنگل میں چند درختوں میں لگی آگ پر جلدی قابو نہ پایا جائے تو وہ جلد یا بدیر سارے جنگل کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور لمحوں میں ہرا بھرا جنگل راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یا اپنی بے بس مذہبی اور سیاسی قیادت کو جو حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ اِن بُزدلانہ واقعات کے خلاف بیان بازی تو ضرور کرتی ہے، احتجاجی ریلیاں بھی نکالتی ہے مگر اِس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتی، ایسی بربریت کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہیں کرتی۔
 
یہ بے بسی کی انتہاؤں پہ رہنے والے مظلومین سوال کرتے ہیں کہ آخر کون ہے جو اِس ظلم کا حساب مانگے گا؟ کون ہے جو دورِ حاضر کے یزیدوں کو للکارے گا؟ کوئی ہے جو آئے اور آج کے میثم تمار، اکبر و عباس، اور علی اصغر کے خون کا بدلہ لے۔ کوئی ہے جو ملت کی بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو خوف و ہراس کے اُس چُنگل سے نجات دے جو رات دن اُن کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے کہ آج باہر جانے والا باپ، بیٹا، بھائی جانے زندہ سلامت واپس آئے گا یا نہیں۔ کون جانتا ہے کہ اس انتظار کی اذیت موت سے بھی زیادہ دہشت ناک ہوتی ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے پیاروں سے بچھڑ جانا کس قدر دل گداز ہے یہ وہی جانتے ہیں جن کے دنیاوی آسرے بلا جُرم و بے خطا موت کی وادیوں میں دھکیل دیئے جائیں۔
 
اسلام روزِ اول سے ہی کُفر کی ریشہ دوانیوں میں گھرا رہا ہے۔ شہادتِ علی مرتضی (ع) سے لے کر آج تک اسلام کے نام پر ٹھیکداری کرنے والوں نے مذہب کی شکل مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب سے باطل نے حق کا لبادہ اوڑھ کر دین کی صفوں میں جگہ بنائی ہے، عام مسلمان کے لئے سچے اور جھوٹے میں فرق کرنا دشوار تر ہو گیا ہے۔ مگر حسینیت کا پرچار کرنے والی قوم اِس قدر کم مایہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اِن سازشوں کا قلع قمع نہ کر سکے، جو یزیدیت اور صیہونیت کے بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ 

کالموں پہ کالم لکھنا، بحث مباحثے، ریلیاں، احتجاج، جلاؤ، گھیراؤ، پتھراؤ کوئی بھی ایسا عمل اِس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ فقط اتحادِ امت ہی وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہر فرد کو اِس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر آج ہم ملتِ تشیع کے افراد پاکستان کے اندر جس گروہی تعصب کا شکار ہیں یہ سب اُسی کا نتیجہ ہے جو دُشمن کو ہم پر حملہ کرنے میں اِس قدر قوت اور آسانی حاصل ہے کہ وہ جب، جس وقت، جہاں چاہے ہماری عید گاہیں کربلا میں تبدیل کرکے خوشی کے شادیانے بجائے۔ کیا ہم نے کبھی ملت کے اندر انتشار کو ختم کرنے کی بھرپور سعی کی ہے؟
 
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ کُفر اور باطل جتنی مرضی شکلیں بدل کر آئیں، حق ہمیشہ غالب آکے ہی رہتا ہے۔ مگر خود کو اِس طرح ظالموں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ہم کب تک اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف رہیں گے؟ آخر کیوں ہمارے لوگ دُشمن کی سازشوں سے بے بہرہ ہوکر من مانیاں کرتے جا رہے ہیں؟ ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی ایک الگ مسجد بنا رکھی ہے اور ہر کوئی اپنے آپ کو مذہبِ حق کا علمبردار سمجھتا ہے۔ دُشمن اِسی اُلجھاؤ اور ٹکراؤ کا فائدہ اُٹھا کر ہمارے لوگوں کو درندگی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ 

وہ بات تو آپ سب کو یاد ہوگی کہ ایک باپ نے اپنے چند بیٹوں کو لکڑیوں کا ایک گٹھا دیا اور کہا اسے توڑ کے دکھاؤ۔ لڑکے کافی دیر تک اُسے توڑنے کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ آخر اُن میں سے ایک بھائی نے کہا کہ ہمیں اِس گٹھے کو کھول کے کوشش کرنی چاہیے۔ سو جب اُنھوں نے گٹھے کو کھول دیا تو سب لکڑیاں بکھر گئیں اور آسانی سے ایک ایک کرکے ٹوٹ گئیں۔ آپ بتائیں کہ کیا ہمیں لکڑیوں کے اُس ناقابلِ شکست گٹھے کی مانند رہنا ہے یا ایک ایک کرکے بکھر بکھر کے ٹوٹ جانا ہے؟ اپنی بقاء کے لیے فیصلہ آپ خود کیجیے۔ بقول اقبال
منزلِ رہرواں دُور بھی دُشوار بھی ہے                   کوئی اِس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہء دین و وطن          اِس زمانے میں کوئی حیدرِ کرار (ع) بھی ہے؟
خبر کا کوڈ : 188321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش