QR CodeQR Code

لہو رنگ ہلال عید

19 Aug 2012 12:02

اسلام ٹائمز: افسوس تو یہ ہے کہ ان خانوادوں کے سکون قلب کو لوٹانا ہمارے بس میں نہیں۔ ہم تو صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ان شہیدوں، زخمیوں اور اسراء کو فراموش نہ کریں، جنھوں نے ہمارا کل بچانے کے لیے اپنا آج وطن اور دین کے نام پر قربان کر دیا۔ تسکین قلب کے لیے شہداء کے خانوادوں سے تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے آپ کی عیدوں کو اہلبیت علیہ السلام کی عیدوں کے مماثل کر دیا۔ آج بھی فرزند زہرا(س) عید کے موقع پر اپنے پیاروں کی یاد میں گریہ کناں ہے اور آپ ان کے پیروکار، بھی اپنی قربانیوں کے ساتھ ان کے ہمنوا ہیں۔


تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
عید بلاشبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خوشی کا تہوار ہے۔ 29 یا 30 دنوں کی روحانی وجسمانی ریاضت کے بعد پروردگار عالمین نے روزہ داروں اور عبادت گزاروں کو یہ عظیم نعمت عنایت فرمائی، جو مومنین کے قلوب کو خوشیوں کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے۔ عبادت گزار اور روزہ دار تو ایک طرف اس دن ہر مسلمان خواہ بچہ ہو یا بڑا، خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ خوشی بھی ایسی جو قلب کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہے اور اعضاء جوارح کے ذریعے ظہور کرتی ہے۔ لوگ والہانہ طور پر اپنوں اور بیگانوں سے گلے ملتے ہیں۔ رنگ رنگ کے ملبوس زیب تن کرتے ہیں اور انواع اقسام کے کھانوں اور مشروبات کے ذریعے اپنی بھوک و پیاس بجھاتے ہیں۔ خدا کے متقی بندے اس روز بھی اپنے پروردگار کی نعمتوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار عالمین تو نے اس روز کو ہمارے لیے مبارک قرار دیا، ہمیں اس دن کی سعادتوں سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرما اور آئندہ بھی ہمیں اس قسم کے ایام سے مستفید فرما۔

یوم عید کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے، تاہم اسے اتفاق کہیے یا حکمت الہی کہ وصال رسول اکرم (ص) کے بعد سے آج تک یہ الہی تہوار خانوادہ رسول (ص) اور ان کے چاہنے والوں کے لیے ہمیشہ غم بن کر اترا۔ اہلبیت علیھم السلام کے چاہنے والے جب بھی اس عظیم الہی نعمت پر خوش ہونے کا سوچتے ہیں تو ان کے ذہن محراب مسجد کوفہ کی جانب مڑ جاتے ہیں، جہاں 19رمضان المبارک کو امت کے ایک شقی فرد نے نماز فجر کے وقت پروردہ رسول (ص) امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے فرق اقدس پر تلوار کا ایک ایسا وار کیا، جس کے سبب عرش الہی کو بھی یہ صدا بلند کرنا پڑی کہ واللہ۔۔ آج ہدایت کا ایک رکن ڈھے گیا۔ وہ عید اور آج کی عید، خانوادہ رسالت اور ان کے پیروکاروں کے لیے غم کا پیغام بن گئی۔ عید الاضحٰی جس روز دنیا کے تمام مسلمان سنت ابراھیمی ادا کرتے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور قربانی پیش کرتے ہیں، عین اسی دن خانوادہ رسالت نے مسلم بن عقیل، سفیر حسین علیہ السلام کے دو کمسن فرزندوں کی قربانی پیش کی۔


ان کربناک مناسبتوں کے باوجود اہلبیت رسول (ص) اور ان کے چاہنے والوں نے اس یوم اللہ کو ہمیشہ انتہائی عقیدت و احترام سے منایا۔ آٹھویں تاجدار امامت اور والی خراسان امام علی رضاعلیہ السلام کو جب مامون نے نماز عید کی امامت کا کہا تو امام نے فرمایا کہ آج میں عید اس انداز میں پڑھاﺅں گا جیسے رسول خدا (ص) پڑھایا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام پاکیزہ لباس زیب تن کیے پا برہنہ اس انداز میں اپنے گھر سے نماز عید کے لیے روانہ ہوئے کہ مرو کی گلیاں عشاق سے پر ہو گئیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عباسی خلیفہ مامون کو یہ ڈر ہوا کہ کہیں آج کے دن ہی اس کی حکومت کا تختہ نہ الٹ جائے۔ اسی سبب مامون الرشید نے امام عالی مقام کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ زحمت نہ فرمائیں، مجھے آپ کی زندگی عزیز ہے اور امام رضا علیہ السلام نماز عید ادا کیے بغیر اپنے گھر لوٹ آئے۔
 
پیروکاران آل رسول (ص) کو عید کے موقعوں پر رلانے کے لیے اگرچہ یہی واقعات کافی ہیں،تاہم اہلبیت اطہار (ع) کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے شیعیان علی (ع) نے ہمیشہ ان الہی تہواروں کو ان کی تمام عظمتوں اور رفعتوں کے ساتھ منایا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ بزرگ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عبادات اور روزوں کی خوشی اپنی جگہ مگر امت نے خانوادہ رسالت کو ان خوشی کے موقعوں پر وہ وہ درد دیئے جو ابھی تک لادوا ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں اسی کی دہائی سے جاری فرقہ واریت کے سبب آج بھی خانوادہ رسول (ص) کے پیروکار ہر روز نئے زخم کا سامنا کرتے ہیں۔ ان زخموں کا سلسلہ ماہ رمضان اور عید الفطر کے قریب کچھ سوا ہو جاتا ہے۔ اکیسویں کے جلوسوں پر خودکش حملے، یوم القدس کے جلوسوں میں دھماکے اور فائرنگ کے واقعات اور اسی قسم کی فردی واقعات ہماری قوم کو گزشتہ تین دہائیوں سے عید کی خوشیوں پر خوش کرنے کے بجائے اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں خون رلاتے ہیں۔
 
اسی سلسلے کا ایک تازہ ترین واقعہ بابوسر میں پیش آیا۔ اپنی طرز کا یہ تیسرا واقعہ ہے، جس میں پاکستان کے دیگر علاقوں سے اپنے آبائی علاقے گلگت بلتستان جانے والے ایک خاص مسلک کے مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر بسوں سے اتارا گیا اور پھر ان مظلوموں کے ہاتھ باندھ کر انھیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کا خیال لئے سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے والے ان مظلوم مسافروں کا یہی قصور تھا کہ وہ مکتب آل رسول (ص) کے پیروکار ہیں۔

بابو سر کے شہداء میں سے ایک شہید اور قاری قرآن، قاری محمد حنیف سے میری پہلی اور آخری ملاقات 26 رمضان المبارک کو ہوئی۔ قاری صاحب اپنے ایک رفیق کے ہمراہ ہمارے دفتر تشریف لائے۔ ان دونوں مسافروں نے اپنا کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارا۔ ائیر ٹکٹ نہ ملنے کے سبب ان حضرات نے پروگرام بنایا کہ وہ شام چھ بجے کی گاڑی سے اپنی منزل یعنی گلگت اور بلتستان کی جانب سفر کریں گے۔ چلاس کے واقعہ کو اتنا وقت گزر چکا تھا کہ ذہن اس طرف متوجہ ہی نہ ہوا کہ ان حضرات کو اس سفر سے منع کروں۔ 

چند لمحوں کی ملاقات اور پھر شہادت کی خبر نے تو جیسے میرے پاﺅں تلے سے زمین ہی کھینچ لی۔ اس خبر کے ملنے سے لے کر اب تک کوئی ایسا لمحہ نہیں کہ میں نے قاری محمد حنیف شہید اور ان کے خانوادے کے بارے میں نہ سوچا ہو۔ وہ ہمارے پاس بیٹھے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی عظیم سفر کا عزم دل میں لیے بیٹھے ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید گلگت بلتستان کا کٹھن سفر ان کے مدنظر ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے ذہن کو اس کے لیے آمادہ کیے ہوئے ہیں، مگر کیا معلوم تھا کہ قاری محمد حنیف شہید تو کربلا کی جانب گامزن ہیں۔

قاری حنیف شہید سے ان چند لمحوں کی ملاقات کے بعد، میرے لیے عید کے روز احکام خدا کی پیروی کے سوا کوئی خوشی باقی نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ان چند لمحوں کی یہ تاثیر ہے تو وہ خانوادہ جس میں قاری حنیف شہید نے آنکھ کھولی، پلے بڑھے، جوانی گزاری اور جن کی عیدیں قاری شہید کے دم قدم سے تھیں ان پر یہ عید اور آنے والی عیدیں کیا اثرات مرتب کریں گی؟ کامرہ کے شہداء جنھوں نے وطن کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں، کراچی کے وہ افراد جو رمضان کی بابرکت راتوں میں اندھی گولیوں کا نشانہ بنے، یوم القدس کی ریلی میں شرکت کے لیے جانے والی بس کے شہداء اور ان کے خانوادے عیدالفطر جیسے بابرکت موقع پر اپنے پیاروں کی یادوں کو کیسے فراموش کریں گے؟

افسوس تو یہ ہے کہ ان خانوادوں کے سکون قلب کو لوٹانا ہمارے بس میں نہیں۔ ہم تو صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ان شہیدوں، زخمیوں اور اسراء کو فراموش نہ کریں، جنھوں نے ہمارا کل بچانے کے لیے اپنا آج وطن اور دین کے نام پر قربان کر دیا۔ تسکین قلب کے لیے شہداء کے خانوادوں سے تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے آپ کی عیدوں کو اہلبیت علیہ السلام کی عیدوں کے مماثل کر دیا۔ آج بھی فرزند زہرا(س) عید کے موقع پر اپنے پیاروں کی یاد میں گریہ کناں ہے اور آپ ان کے پیروکار، بھی اپنی قربانیوں کے ساتھ ان کے ہمنوا ہیں۔


خبر کا کوڈ: 188678

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/188678/لہو-رنگ-ہلال-عید

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org