0
Tuesday 28 Aug 2012 12:10

بیت المقدس کی بازیابی ایمان کی نشانی(2)

بیت المقدس کی بازیابی ایمان کی نشانی(2)
تحریر: فدا حسین کشمیری

جہاں تک مسجد اقصٰی کی بازیابی کا تعلق ہے، یہ کسی خاص خطے یا فرقے کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے، بلکہ مذہبی اور اخلاقی طور پر تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں، جو جذباتی وابستگی، روحانی دلبستگی اور قلبی احترام کسی عظیم خانۂ خدا کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، وہی احترام و تقدیس جب قبلۂ اول کے حوالے سے پایا جانا چاہیے اور ہے بھی، تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بےچین کیوں نہ کریں اور بیت المقدس کی صہیونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی منظم اور عالم گیر تحریک کیوں چلائی نہیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں بالخصوص مشرق وسطٰی اور عرب ریاستوں کے حکمران سرد مہری کا شکار دکھائی دے رہے ہیں؟

یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں نہ کرے کہ ایک طرف عہد حاضر کا ابرہہ جدید کیل کانٹوں سے لیس ہو کر اور عالمی طاغوت کی پشت پناہی کے بل بوتے پر برسوں سے مرکز اول پر قابض ہے اور دوسری جانب عالم اسلام کے لیڈر محض خاموش تماشائی بننے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں، اس قماش کے حاکمان ملت کی یہ نفسیات کسی بھی سلیم الفطرت مومن سے پوشیدہ نہیں کہ یہ حضرات حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے غیر حقیقی طرز عمل اپنا کر محض زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ رب لامکان چاہے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزہ ابابیل دہرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کراسکتا ہے، لیکن اس کا اپنا ایک اٹل قانون اور سنت الہیٰہ یہ ہے کہ عمل اور ثمر باہم دیگر مربوط رہیں۔

بہرصورت قابل توجہ بات یہ ہے کہ کم و بیش اٹھاون (58) ممالک پر مشتمل ایک اَرب سے زائد مسلمانوں کا وظیفۂ عمل کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر ابرہہ کی یورش کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاقصٰی کے گردا گرد صہیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے، اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پہچان، برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں اور اللہ کے گھر کی محافظت ان کی دینی اور ملی ذمہ داری ہے، یقیناً اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے، لیکن اس الہٰی قانون سے یہ ملت بھی مستثنٰی نہیں ہے۔ 
                    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
                    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا


اس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے عظیم رہنماء اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے انقلاب کی بنیاد نہ صرف اسی مسئلے پر رکھی بلکہ انقلاب کے بعد اسی کی خاطر اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، واضح رہے یہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے تیئں مغربی ممالک خصوصاً طاغوتی طاقتیں مخاصمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ایرانی حکومت کا قدس کی بازیابی اور آزادی فلسطین کے تئیں مضبوط موقف اور مستحکم ارادہ ہے۔

پچھلے تیس سال سے ملت ایران پر اقتصادی پابندی کا شکنجہ روز بروز تنگ کیا جا رہا ہے، آئے روز اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دھمکیوں پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جن کے ذریعے اعصابی جنگ کا سماں ایران کی سیاسی فضاء میں باندھا جاتا ہے، یہاں تک کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء، سائنس دانوں اور سیاست دانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، یہ سب ایران کی طرف سے فلسطینی کاز کی والہانہ حمایت کا نتیجہ ہے۔

اس نکتے کی مزید وضاحت کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس (ایران پر سابق عراقی صدر کا حملہ اور ایرانیوں کا دفاع) کے دوران جو لاکھوں ایرانی نوجوان کام آئے، وہ بظاہر ملکی دفاع میں کام آئے، لیکن اس تنازعہ کی گہرائی کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ نوجوانوں نے قدس کی حرمت اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، کیونکہ یہ تمام حربے ایران کے خلاف صرف اور صرف اس عناد میں آزمائے جا رہے ہیں کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کا سب سے بڑا حامی ہے۔

یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج ایران اپنی خارجہ پالیسی میں مسٔلہ فلسطین و قدس کے باب کو بند (close) کر دے تو پھر شرعی نظام حکومت اسرائیل اور اربابِ طاغوت کی ناپاک نظر میں قبیح ہوگا نہ ایران کے ایٹمی پلانٹ سے اقوام عالم کوئی خطرہ لاحق ہوگا، گویا ہر اسلامی ملک بشمول ایران کی اسلام نوازی کا معیار یہی ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کی خاطر پوری دنیا سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور اس سلسلے میں کوئی بھی جاں فروشانہ قربانی دینے پر آمادہ ہو، لہٰذا جب تک ایران فلسطین سمیت تمام مظلومانِ جہاں کی حتی الوسع پشت پناہی کر رہا ہے، اس کے اسلامی نظام کی آبرو باقی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بانی انقلاب امام خمینی (رہ) بیت المقدس اور فلسطین کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے، نہ ہی اس معاملے میں کسی مصلحت سے کام لیا، یہ ان کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ کچھ دن قبل مسلمانانِ عالم نے بلالحاظ مسلک و مشرب جوش و خروش سے امام خمینی (رہ) کی آ غاز کردہ تحریک پر لبیک کہتے ہوئے یوم القدس منایا اور مختلف انداز سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

امام خمینی (رہ) کی نظر میں بیت المقدس باطل کے خلاف ایک فروزاں علامت ہے۔ جسے راہ حق میں جدوجہد کرنے والے اپنے لئے منارہ ہدایت سمجھتے ہیں لیکن امت اس مسئلہ کو شایانِ شان مقام دینے میں ابھی تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، اگر قدس اور اس جیسے جملہ ملی مسائل کو امتِ مسلمہ واقعتاً سنجیدگی سے لے لیتی تو عالم انسانیت کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔

جب کوئی قوم یا فرد کسی ایسے اہم ترین مسئلے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو جان لیجئے وہ اپنے دشمن کو غیر شعوری طور یہ پیغام دیتا ہے کہ اس ملت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دست درازی آسان سی بات ہے، اسی غیر سنجیدگی، سرد مہری اور جمود زدگی کا منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ آج برمی مسلمانوں کے خلاف بہیمانہ اور قاتلانہ نسلی تطہیر کا پروگرام بلا کسی مزاحمت کے چلایا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 189818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش