1
0
Tuesday 28 Aug 2012 17:48

الیکٹرونک میڈیا کی بے راہ روی

الیکٹرونک میڈیا کی بے راہ روی
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
پاکستان کے دستور کے پہلے حصے کی پہلی سیکشن میں تو پاکستان کی صوبائی اکائیوں اور فاٹا کا ذکر ہے، لیکن اس کے بعد سیکشن دوئم میں دستور کی بسم اللہ اس فقرے سے ہوتی ہے۔
"Islam shall be the state religion of Pakistan"
یعنی ریاستِ پاکستان کا مذہب اسلام ہوگا اور قراردادِ مقاصد کی شقیں اس کا ایک اہم حصہ ہوں گی۔ اس کے بعد سیکشن پانچ کے مطابق ریاست سے وفاداری ہر شہری کے بنیادی فرائض میں شامل ہوگی۔ اس کے علاوہ آئین اور قانون کی تابعداری ملک کے اندر اور باہر رہنے والے ہر پاکستانی پر اور ملک کے اندر رہنے والے دوسرے (مذاہب کے) لوگوں پر بھی لاگو ہوگی، اور پھر سیکشن چھ کے مطابق آئین کو توڑنے والا بہت بڑی غداری کا مرتکب سمجھا جائے گا، جس کی سزا پاکستانی قوانین کے مطابق موت ہے۔
 
آئین کا سیکشن31 اسلامی طرز زندگی سے متعلق ہے، جس میں لکھا ہے کہ حکومت ایسے اقدامات اُٹھائے گی، جن کی بدولت پاکستان کے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قرآن اور سنت کے مطابق بسر کرسکیں گے۔ اس کے بعد آئین کے سیکشن 37 میں سماجی انصاف دینے اور سماجی برائیاں ختم کرنے کا ذکر ہے، جس کی سب سیکشنز جی اور ایچ میں بڑے واضح انداز میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں جسم فروشی یا بدکاری، جوا کھیلنے، نشہ آور دواؤں کے استعمال اور اسلام ٹائمز: میرے خیال میں ہمارے اسلامی معاشرے میں ہر ذی ہوش مسلمان کو یہ پتہ ہے کہ obscene مواد کیا ہوتا ہے۔ اصولاً ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ ڈرامہ، فلم، اشتہار یا کوئی scene جو ہم اپنی جوان بچیوں، بچوں یا بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ وہ obscene ہے، مثلاً برہنہ ویڈیو، نیم عریاں عورتوں کا ناچ اور جسمانی نمائش کے لئے ڈریس شوز، انگریزی فلموں کے سیکس کے مناظر یا بوس وکنار، گانوں کے بےہودہ بول، فلموں کے واہیات ڈائیلاگ اور تقریباً برہنہ عورتوں کے نیم عریاں چھاتیوں، ننگے پیٹ اور برہنہ ٹانگوں کی نمائش۔ یعنی اسلام کی رو سے غیر شرعی اور بیہودہ لٹریچر اور اشتہاروں اور شراب کے استعمال کی ریاست میں بالکل اجازت نہیں ہوگی، دوسرے مذاہب کے لوگوں پر شراب کی پابندی لاگو نہیں۔
 
قارئین، آپ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر مہذب معاشرے کا اس کے اپنے دستور، قوانین، مذہب اور سماجی رسم و رواج کے مطابق کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے۔ وہ معاشرے جو کائنات کی تخلیق کی بنیاد صرف سائنسی وجوہات کو ہی سمجھتے ہیں اور خالقِ کائنات کے وجود سے انکاری ہیں اور جن کا آخرت پر کوئی ایمان نہیں، اُن کے دستور اور رسم و رواج یقیناً ہم سے مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جن مناظر کو obscene  کہتے ہیں، وہ غیر مسلم ریاستوں کے مکینوں کیلئے شائد بیہودہ یا obscene نہ ہوں۔
 
مسلم اور غیر مسلم (خصوصاً مغربی) تہذیبوں میں فرق یہ ہے کہ مغربی لوگ مادر پدر آزادی کے نعرے کو اپنا فخر سمجھتے ہیں، لیکن ایک مومن کا نعرہ ’’حیا‘‘ ہے اور ہمارے ہاں آزادی کی بھی حدود و قیود ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے لخت جگر ہیں، اُن کو ہم ہر طرح کی آزادی دے کر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن اُن کو نشہ کرنے اور غیر محرم خواتین سے تعلقات استوار کرنے کی بالکل اجازت نہیں دیتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد ہمارے معاشرے، تہذیب اور اسلامی اقدار پر ہر طرف سے حملے شروع ہوچکے ہیں۔ جس سے حیا کے پردے ہماری آنکھوں کے سامنے تار تار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری جواں نسل کے ذہنوں میں اینٹرٹینمنٹ کے لبادے میں ایسا زہر آلود گند بھرا جا رہا ہے، جو معاشرے کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
 
مغربی ممالک میںDaily Mirror جیسے کئی انگریزی اخبارات میں عورتوں کی تقریباً برہنہ تصاویر چھپتی ہیں، جو برطانیہ کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ سارے بک سٹالوں پر ایسے واہیات لٹریچر میسر ہیں، جہاں مکمل برہنہ عورتوں کو مختلف Poses میں دکھایا جاتا ہے، چونکہ اس کی بھی مغربی قوانین میں گنجائش موجود ہے۔ اسلامی ملک میں ہمارا معاشرہ اس بےحیائی کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ایک سینئر صحافی فحاشی کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک اہم ٹی وی چینل پر کہہ رہا تھا کہ بےحیائی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے آنکھوں کی گندی پتلیوں کو صاف کرکے دیکھیں تو اُن کو یہ بےحیائی، بےحیائی نظر نہیں آئے گی، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ میرے خیال میں بےحیائی یا گند صرف شرم و حیا والی پاکیزہ آنکھوں کی پتلیاں ہی دیکھ سکتی ہیں، جن کو گند نظر نہیں آتا، اُن کی آنکھوں کی پتلیاں یقیناً کسی سنجیدہ مرض میں مبتلا ہیں۔
 
ہم سب گناہ گار لوگ ہیں، ہم میں فرشتہ تو کوئی بھی نہیں، لیکن خدا کیلئے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر تو نہ پیش کریں۔ 13 اگست 2012ء کو قاضی حسین احمد اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ بےحیائی کے خلاف آئینی پٹیشن نمبر 104 لے کر سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے، جس پر عدالت نے یہ حکم صادر کیا کہ درخواست دہندہ اور باقی متعلقہ ادارے اکٹھے بیٹھ کر پہلے یہ طے کرلیں کہ obscene  کی تعریف کیا ہے۔
 
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اسلام آباد نے اس پر ایک کانفرنس27 اگست کو طلب کی، جس میں قاضی حسین احمد، ڈاکٹر جاوید جبار، ڈاکٹر مہدی حسن، معروف صحافی انصار عباسی، مقبول اوریا جان، مظہر عباس، سردار خان نیازی، ایکسپریس ٹریبیون کے ضیاءالدین اور امیر جماعت اسلامی کراچی کے علاوہ راقم کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
 
قارئین، ہمارے دستور میں لکھے گئے لفظ obscene کا لفظی مطلب ہے۔
Offensively or repulsively indecent, offending excepted sexual morality, highly repulsive or repugnant, tending to deprave or corrupt.
یعنی جنسی بے راہ روی کا ایک قابلِ حقارت اور قابلِ نفرت رویہ جو اخلاقی اقدار کی تباہی کا موجب بنتا ہے۔ 

میرے خیال میں ہمارے اسلامی معاشرے میں ہر ذی ہوش مسلمان کو یہ پتہ ہے کہ obscene  مواد کیا ہوتا ہے۔ اصولاً ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ ڈرامہ، فلم، اشتہار یا کوئی scene جو ہم اپنی جوان بچیوں، بچوں یا بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ وہ Obsence ہے، مثلاً برہنہ ویڈیو، نیم عریاں عورتوں کا ناچ اور جسمانی نمائش کے لئے ڈریس شوز، انگریزی فلموں کے سیکس کے مناظر یا بوس وکنار، گانوں کے بےہودہ بول، فلموں کے واہیات ڈائیلاگ اور تقریباً برہنہ عورتوں کی نیم عریاں چھاتیوں، ننگے پیٹ اور برہنہ ٹانگوں کی نمائش۔
 
ویسے تو شراب نوشی، نشہ آور ادویات کا استعمال، قتل و غارت، زخمی انسان اور خون آلود اجسام، خواتین کو مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں سے لگنے والے کوڑے، پولیس کی بےرحمانہ سزائیں اور سیالکوٹ میں مشتبہ ڈاکوؤں کا عوام کے ہاتھوں قتل، جیسے واقعات ہماری سکرین پر ایسی صورت میں نہیں آنے چاہیئیں، جیسے تقریباً ہر چینل نے ماضی میں بار بار دکھایا، لیکن آج کے کالم میں ہمارا فوکس صرف فحاشی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری ایک برائے نام مسلمان خاتون اداکارہ کے ہندوستان سے چھپنے والے تقریباً برہنہ فوٹو انتہائی شرمناک تھے۔
 
گانا بجانا، عریانی اور بےہودہ ناچ ہندوستانی تہذیب اور ہندو مذہب کا تقریباً ایک اہم جزو ہیں۔ وہاں کی اداکاروں کے ننگے فوٹو انٹرنیٹ پر لگے ہوئے ہیں۔ ڈریس شوز کے نام پر کراچی اور لاہور کے بڑے ہوٹلوں میں بازاری عورتوں کی مختصر ترین لباسوں میں جسمانی نمائش کو دکھانے اور دیکھنے والے دونوں غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اسلام، لباس تو کیا، کلام میں بھی شائستگی کا درس دیتا ہے۔ 

ایک سینیٹر اگر ملک کی اعلٰی ترین عدالت کے چیف کے جلیل القدر عہدے پر فائز ایک سینئر ترین جج کو یک طرفہ طور پر گالیاں دیتا ہے اور ایک سیاسی لیڈر وزیراعظم کو گجر خان کا مراسی کہتا ہے تو یہ ایک واہیات اور غیر مہذب گفتگو ہے، جس کو دکھانے میں ہمارے ٹی وی چینلز پیش پیش ہیں۔ دونوں اطراف سے بہت اونچے قمیض کے چاک اور کٹ کے رواج اور کمر سے نیچے سارے حصے کی نمائش کیلئے چست اور Skin tight پاجامے پہننے سے ہماری قابل احترام خواتین بہنوں کے اجسام کی نمائش بےپردگی کا موجب بنتی ہے۔
 
ایک ٹاک شو میں چند خواتین بیٹھی ایک دوسرے کو ہیرا منڈی کے طعنے دے رہی تھیں، جو obscene اور غیر مہذب گفتگو ہے۔ پاکستان کے مٹھی بھر روشن خیال اسلام اور حیا کے نام سے الرجک معلوم ہوتے ہیں۔ کانفرنس کے دوران ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے بڑی معنی خیز باتیں کیں۔ مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن نے فرمایا کہ نابالغ بچوں سے مزدوری کرانا اور سیاسی ہرجائیوں کا بار بار پارٹیاں بدلنا بھی obscene  اور قابلِ حقارت ہے۔ اس سے سب نے اتفاق کیا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سن کر سب حیران ہوگئے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہوا، نہ آج پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر فحاشی یا بےحیائی کا کوئی مسئلہ ہے۔
 
اشتہار بنانے والوں کی Association کے صدر نے کہا کہ ہم اپنے اشتہاروں میں عورتوں کو اُن کی مرضی کے مطابق شامل کرتے ہیں اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ٹارگٹ Audience کیا چاہتے ہیں۔ اُن کو بتایا گیا کہ بیہودہ اور بےحیاء اشتہار بنانے کا کام چند خواتین اور اشتہار بنانے یا بنوانے والوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسے کاموں کے لئے پاکستان کے دستور اور قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ 

کانفرنس کے اختتام پر پیمرا کے چیئرمین ڈاکٹر جبار نے سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی میٹنگ 13 ستمبر کو کراچی میں ہوگی، جس میں کیبل نیٹ ورک اور ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندگان کی حاضری کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل، جو ایک آئینی ادارہ ہے اُس کو درخواست کی جائے گی کہ وہ لفظ obscene کی تشریح کریں اور مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ سے اُس کی منظوری لیں۔
خبر کا کوڈ : 190628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
جنرل صاحب آپکا آرٹیکل اور نظریات قابلِ تحسین ہیں، ہم بھی اس صحافی کی گفتگو سن کے ششدر رہ گئے تھے کہ یہ صاحب کس ڈھٹائی سے بے حیائی کی حمایت کر رہے ہیں، خدا کرے آپ سب مل کر اس سلسلے میں ملکی سطح پر کوئی موثر کردار ادا کر سکیں، تاکہ آنے والی نسلیں حفظ ہو سکیں۔ دعاگو
ہماری پیشکش