0
Thursday 6 Sep 2012 22:06

خاموش اکثریت

خاموش اکثریت
تحریر: اے حسین
 
پاکستان جنوبی ایشاء کا ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جغرافیائی لحاظ سے یہ دنیا کے اُن بہترین خطوں میں شمار ہوتا ہے، جو عالمی سطح پر قابلِ ذکر مثبت کردار ادا سکتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کو تقریباً پینسٹھ سال گزر چکے ہیں۔ پینسٹھ سالوں میں ہونا تو یہ چاہے تھا کہ پاکستان عالمی برادری میں اپنا مقام بنا چکا ہوتا، اور اِس نے ترقی کی طرف سفر شروع کر لیا ہوتا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ گزرے ہوئے پینسٹھ برس ایک ناسور بن کر تاریخ کے صفحات کو سیاہ کر چکے ہیں، جنہیں بدلنا اب ناممکن ہے۔ 

ملک بننے سے لے کر آج تک ایک ایک دن اِس ملک اور اِس کے عوام کے لئے ایک آزمائش لایا ہے۔ اِن پینسٹھ برسوں میں یہ دو ٹکڑے بھی ہوا، اِس پر جنگ بھی مسلط کی گئی، اِس کے بہت سارے اپنوں نے اِس کو مزید توڑنے کی سازشیں بھی کیں، ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے افراد نے بھی خوب لوٹا، ایک درد ناک طویل داستان ہے، جو لفظوں کی قید میں ممکن نہیں اور جس کے لئے صفحات کی وسعت تنگ ہو جاتی ہے۔
 
ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ دہشت گردی، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، انھیں تقریباً نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ میڈیا تمام پابندیوں سے آزاد یورپ کی ثقافت کو فروغ دے رہا ہے، حکمران اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ ایک ایسی مایوس کن صورتحال ہے کہ جس میں بظاہر اِن مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔
 
پاکستان کے مسائل کی اگر فہرست تیار کی جائے تو شاید کئی صفحات اور کئی کتابیں لکھنی پڑجائیں، نظامِ تعلیم سے لے کر نظامِ حکومت تک پورے کا پورا ملک ایک لاعلاج مریض کی طرح بسترِ پر آخری سانسیں لے رہا ہے، قدرتی آفات نے اِن مسائل کو دوگنا کر دیا ہے، اِس وقت اِس مریض کی حالت یہ ہے کہ کمزوری اور نقاہت نے اِس کی آنکھیں بند کر دیں ہیں، چہرے کی رنگت جیسے زرد ہوچکی ہے، اور کھانا پینا بھی اُس مریض کے لئے نقصان دہ ہو چکا ہو۔ اِس حالت میں پاکستان کا مزید چند اور سال گزار دینا خود اِس ملک کے لئے ایک خوفناک نتیجہ لائے گا، اِسے ہر حال میں اِس لاعلاج مرض سے نکالنا ہوگا۔ 

آپ نے کئی سیمینارز میں شرکت کی ہوگی، کئی آرٹیکل پڑھیں ہوں گے کہ ہمارے مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور ہم کیسے اِن پر قابو پاسکتے ہیں۔ کہیں پر لوگ اِن تمام مسائل کی جڑ سیاست دانوں کو قرار دیتے ہیں، کہیں پر بیوروکریسی کو، کہیں پر فوج کو، کہیں جاگیردارانہ نظام کو، کہیں پر امریکہ کو۔ ہر جگہ ایک بات آپ کو یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ کہ جو جس نظام کا ڈسا ہوگا، وہ صرف اُسے ہی خراب شمار کرتا ہے، باقی اُسے کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ اِن مسائل کے حل کے لئے بھی آپ کو بہت ساری تجاویز پیش کی جاتی ہیں کہ مثلاً فلاں اگر حکومت میں آ جائے، تو نظام بدل جائے گا، فلاں آ جائے، تو سب ٹھیک ہو جائے گا، اگر ہم یورپ کی پیروی شروع کر دیں، عورتوں کو آزادی دیں (آزادی بمنعی فحاشی)، تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، اگر ہم امریکہ کو راضی رکھیں، یا ہم امریکہ سے دشمنی کریں، تو ہمارے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ 

اِن سب باتوں کے ساتھ پچھلے چند سالوں میں پاکستان عالمی سازشوں کا بھی شکار ہوا ہے، بہت سارے تجزیہ نگار اِس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں جو قتل و غارت گری ہو رہی ہے، اُس کے پیچھے بیرونی خفیہ ہاتھ ہیں، البتہ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکمران بےحِس ہیں اور اپنے ملک میں ہونے والی تمام قتل و غارت گری کی قیمت لے لیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر اِس وقت اقلیتوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی عالمی میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے، جس میں اندرونی ملک دشمن عناصر اِن اقلیتوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے پاکستان کو عالمی سطح پر نہ صرف بدنام کر رہے ہیں بلکہ ایک کمزور اور ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
 
اگرچہ حالات اِن سب باتوں کی کسی نہ کسی حد تک گواہی دیتے ہیں، مگر اِس کے باوجود یہ حالات کا صرف ایک رُخ ہے، جو تاریک ہے، سیاہ ہے۔ اِس سیاہ اور تاریک رُخ کا ہم ذکر کرتے ہیں، اِس کے ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ ہم عموماً اِس دوسرے رُخ سے نظریں چراتے ہیں، بچنے کی کوشش کرتے ہیں، غفلت برتتے ہیں، اور ہم اِس غفلت کے سبب بھی اِن تمام جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
 
ملک کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ ہے، اگر ہم ایک اندازہ لگائیں تو اِس ملک میں موجود کرپٹ لوگوں، حکمرانوں، بیوروکریسی کی کتنی تعداد ہوگی، ہم ایک بہت بڑا عدد بھی لیں، مثلاً ایک کروڑ لے لیں۔ اگر ہم تصور کریں کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار پاکستان کے اندر رہنے والے ایک کروڑ افراد ہیں، تو باقی سترہ کروڑ افراد کہاں ہیں؟ میں اِن سترہ کروڑ افراد سے سوال کرتا ہوں، کہ یہ کیوں گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، یہ گھروں میں بیٹھے ٹی وی کے سامنے منجمد ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 95% مسلمان آباد ہیں، اور الحمد للہ قرآن کی سچی گواہی پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن نے اِس اصول کا پہلے ہی سے ذکر کر دیا ہے کہ اﷲ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلے گا، جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کا نہ سوچیں! یہ خاموشی، یہ غفلت، یہ کمزوری قابلِ معافی نہیں ہے۔ اقبال کی نظر میں کمزور ہونا ایک ایسا جرم ہے، جس کی سزا موت ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
(اقبال)
یعنی اگر کمزور اپنی کمزوری سے نہیں لڑے گا، تو حسرت ناک موت اُس کا مقدر بن جائے گی، اور یہ موت اُس کے کمزور رہنے کی سزا ہوگی۔


شاید ایک مثال سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ مُردہ اور زندہ میں کیا فرق ہے؟ ایک مردہ جسم کے اگر آپ بازو کاٹ دیں، زبان کاٹ دیں، اُس کے چہرے کو مسخ کر دیں، وہ مزاحمت نہیں کرے گا، مگر کیا زندہ شخص کے سر سے ایک بال بھی اکھاڑا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، وہ یقیناً مزاحمت کرے گا۔ میں اِس ملک کے عوام اور خصوصاً مسلمان اکثریت سے حیران ہوں، کہ یہ چلتے پھرتے مردہ ہیں، اِن کے مردہ پن نے انھیں بےحِس کر دیا ہے۔ انھیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ روز کتنے ہی ان کے بہن بھائی بے گناہ اِس ملک میں مارے جاتے ہیں، اِس ملک کو بیچا جا رہا ہے، مگر خاموش اکثریت بھی مردہ ہے، بےحِس ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ صرف سیاستدان بےحس نہیں ہیں، یہ سترہ کروڑ افراد بھی بےحسی کا شکار ہیں۔ مجھے تیونس کا انقلاب یاد آ رہا ہے، جس میں ایک شخص کی خودسوزی کی تصویریں انھیں سڑکوں پر لے آتی ہیں، یہاں پر کوئی تحریر، کوئی تصویر اور کوئی آواز اِن مردوں کو اٹھانے کے لئے کام نہیں آتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی مردہ کسی آواز کا جواب نہیں دیتا، کسی طور ردِعمل نہیں دکھاتا، یہ سترہ کروڑ افراد اپنے پیٹ کی فکر میں گھروں میں بیٹھے ہیں۔
 
ہمیں بحثیت قوم اور پاکستانی مِلت اِس بات کا اقرار کرنا چاہے کہ ہم مردہ ہیں، ہم اِن تمام حالات کے ذمہ دار ہیں، جو ہمارے ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ شاید ڈاکٹر اقبال نے ایک صدی پہلے ہی اِس طرف اشارہ کر دیا تھا کہ
ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
خبر کا کوڈ : 193323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش