1
0
Thursday 6 Sep 2012 21:38

65ء کی جنگ کے دو سبق

65ء کی جنگ کے دو سبق
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، لیکن پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کے لئے اپنی خارجہ پالیسی کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے یکم نومبر 1958ء کو کشمیر کے بارے میں کہا تھا کہ ان کو مسرت ہوگی، اگر یہ مسئلہ پرامن طور پر حل کر لیا جائے، لیکن اگر کسی قسم کی فوجی کارروائی کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کا ذمہ دار بھارت ہوگا۔ 1962ء میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائی کا خدشہ بھی سامنے آیا، لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ 1964ء میں جب بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کا دھیانت ہوگیا تو لال بہادر شاستری نئے وزیراعظم بنے۔ شاستری نہایت غیر سنجیدہ اور چال باز وزیراعظم تھے۔ وہ 1964ء میں کراچی آئے۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ پاکستان کو نیچا دکھائیں، اسی لئے انہوں نے کشمیر کی بجائے رن آف کچھ کا مسئلہ اٹھایا۔ 

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان رن آف کچھ کی آڑ میں گجرات میں زیر زمین تیل والے علاقوں کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے جنگی تیاریاں بھی شروع کر دیں اور رن آف کچھ کے محاذ پر چھڑپیں شروع ہوگیئں۔ برطانیہ نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے جنگ بندی کروا دی۔ 350 مربع کلو میٹر کا علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس سازش کی ناکامی پر بھارتی رائے عامہ لال بہادر شاستری کے سخت خلاف ہوگئی۔ اسی دوران کشمیری راہنما شیخ عبداللہ نے دبے لفظوں میں پاکستانی موقف کی حمایت کی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی کشمیر میں حریت پسند مجاہدین نے بھارت کے خلاف گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں، جس کے جواب میں بھارت نے پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانا شروع کر دیا۔

اس پراپیگنڈہ اور نفسیاتی و سفارتی جنگ کے ساتھ ساتھ بھارتی افواج کو شاستری نے پاکستان پر حملے کے لیے خفیہ طور پر تیار رہنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ 6 ستمبر 1965ء کو اعلان جنگ کیے بغیر علی الصبح بھارتی افواج نے تین اطراف سے لاہور پر حملہ کر دیا۔ بھارتی حکومت کا خیال تھا کہ وہ 72 گھنٹوں میں لاہور پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن لاہور پر بھارتی حملے کی خبر سن کر پورا پاکستان یاعلی (ع) یا علی (ع) کے نعروں سے گونجنے لگا اور پاکستانی قوم کے جذبہ ایمانی، مسلح افواج کی جرات اور اللہ تعالٰی کی نصرت کی وجہ سے دشمن کو عبرت ناک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بی بی سی نے بھی لاہور پر بھارتی قبضے کی جھوٹی خبر نشر کر دی، لیکن پاکستان کے پایہ استقلال میں کوئی کمی نہ آئی۔ 7 ستمبر کو بھارتی فضائیہ نے بھی حملے شروع کر دیے، پاکستانی شاہینوں نے ان بھارتی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا اور بھارتی ہوائی اڈوں، جہازوں، راڈار سسٹم اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس دوران سری لنکا اور ایران نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ لاہور سیکٹر، چونڈہ سیکٹر، کھیم کرن سیکٹر، راجھستان سیکٹر اور دوآرکا کی بندرگاہ پر شدید جنگ ہوئی اور ہر محاذ پر بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

آخر کار جارح بھارت نے خود ہی جنگ بندی کی کوششیں شروع کر دیں اور سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ 22 ستمبر کو بارہ بجے دوپہر تک دونوں ممالک جنگ بند کر دیں۔ چونکہ بھارت کا جنگی نقصان پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوا تھا، اس لیے پوری دنیا نے پاکستان کو فاتح قرار دیا۔ پاکستان نے بھارت کے 1617 مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا، جبکہ بھارت نے پاکستان کے 447 مربع میل کے علاقے پر ناپاک قدم جما لیے۔ مشرقی پنجاب کو پندرہ کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا، 516 بھارتی ٹینک تباہ ہوئے اور بھارت کے 7000 فوجی واصل جہنم ہوئے اور 1000 بھارتی فوجی قیدی بنا لئے گئے، اسی طرح بھارتی فضائیہ کا پانچواں حصہ یعنی 115 طیارے تباہ ہوئے، لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کا بہت کم نقصان ہوا۔

یہ جنگ ہم نے اللہ تعالٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے مولا علی (ع) شیر خدا کے نعروں کی گونج میں لڑی اور پورا پاکستان علی (ع) علی (ع) اور شہید کربلا امام حسین (ع) کے ذکر سے مزین ترانوں سے گونجتا رہا۔ تمام مسالک کے مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا اور افواج کا دشمن کے مقابلے میں ساتھ دیا۔ دوسرا یہ کہ امریکہ یا کسی بھی عالمی طاقت سے بے نیاز ہو کر پاکستان نے دشمن کی جارحیت کا جواب دیا۔ جوانوں نے اپنے خون کو ہتھیار بنایا اور اپنے جسم و جان کے ذریعے کیل کانٹے سے لیس دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 

یہ دو چیزیں ہر مسلمان کا سرمایہ افتخار ہیں، ایک اللہ تعالٰی کی ذات پر توکل اور اولیاء خدا سے توسل اور دوسرا باہمی اتحاد کے ذریعے دشمن کے مقابلے میں غیروں کی بجائے اپنی قوت پر اعتماد۔ اگر ہم آج کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اپنے ماضی کی نسبت مادی طور پر تو زیادہ مضبوط ہیں، لیکن ہماری صفوں میں وہ اتحاد باقی نہیں جو قیام پاکستان اور 65ء کی جنگ کے وقت تھا۔ 

گلگت سے گوادر اور خیبر سے کراچی تک دشمن کی سازشوں کی بدولت نسل اور مسلک کی بنیاد پر ایک جنگ جاری ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان امریکہ کا حلیف بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری قوم سیاسی، مسلکی، نسلی، لسانی اور علاقائی طور پر تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ ہماری اس تقسیم کا سب زیادہ فائدہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھا رہا ہے۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ بلوچستان میں علیحدگی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ فاٹا میں مسلح افواج کے خلاف مسلسل جنگ کی آگ بھڑکائے ہوئے ہے۔

65ء کی جنگ میں ہم نے جن اصولوں توکل بر خدا و توسل، باہمی اتحاد اور اپنی قوت پر بھروسے کی وجہ سے دشمن کو شکست دی وہ اصول ہمارے اندر کمزور پڑ چکے ہیں اور دشمن کی سازشیں پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوچکی ہیں۔ اس وقت پاکستان کو بیرونی دشمن کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن کا بھی سامنا ہے، جو کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن اب حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور امریکی سی آئی اے اور بھارتی ایجنسی را کے اشاروں پر مسلح کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں اور پاکستان کی عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی، سیاسی راہنما، مذہبی قائدین اور عوامی حلقے نہ صرف ان سازشوں کو بے نقاب کر رہے ہیں، بلکہ ان کا قلع قمہ کرنے کے لئے عملی طور پر کوششیں بھی کر رہے ہیں۔

جیو کے حامد میر، ایم کیو ایم کے الطاف حسین، دنیا ٹی وی کے محمد مالک، تحریک انصاف کے عمران خان سمیت چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ جناب قاضی حسین احمد صاحب کی صدارت میں قائم ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام مذہبی جماعتیں اس مر پر متفق ہیں کہ قائداعظم کے پاکستان کو درپیش خطرات میں سے اہم خطرہ شدت پسند جنونیوں کی طرف سے ہے، لیکن تمام اکابرین اور پاکستانی ذمہ داروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مسلک، زبان، علاقہ اور نسل کی بنیاد پر قتل و غارت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جائے گا اور ان کا صفایا بھی۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فاٹا اور بلوچستان میں بھارت ہمارے مدمقابل ہے اور تشدد پسند عناصر دراصل بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔ آج پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی اور سیاسی سطح پر سخت مشکلات کا سامنا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ 80ء کی دہائی میں شروع ہونے والی وہ بےمہار تحریک تھی جس کے ذریعے جہاد افغانستان کے نام پر جنگجو بھرتی کیے گئے اور جنگ افغانستان کے بعد وہی جنگجو کشمیری حریت پسندوں کی صفوں میں آ گھسے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب جہاد کے حوالے سے پاکستان کی ریاستی پالیسی تبدیل ہوئی تو یہی جنگجو مال موذی سمجھ کر بھارتی ایجنسی را سے پیسہ لیکر پاکستان کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ 

انہوں نے نہ صرف مسلح افواج کے خلاف دھماکے اور حملے کیے بلکہ پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی دہشت گردی شروع کر دی، جس کی وجہ سے بھارت سمیت پاکستان کے سب دشمنوں کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا کہ پاکستان ایک غیر ذمہ دار ملک ہے اور کشمیر ی حریت پسند مجاہدین کی عسکری جدوجہد کو سخت نقصان پہنچا، کیونکہ دنیا نے کشمیری مجاہدین اور 90ء کی دہائی کے شروع میں مجاہدین کی صفوں میں گھسنے والے دہشت گردوں کی کارروائیوں کو ایک ہی نگا ہ سے دیکھنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو سفارتی سطح پر کشمیریوں کی حمایت میں دشواریوں کا سامنا درپیش ہے۔
 
65ء کی جنگ پاکستان پر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مسلط ہوئی اور 71ء میں بھارت کی انتقامی کارروائی کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوگیا، آج پھر اگر پاکستان توکل، توسل، باہمی اتحاد اور اپنے وسائل پر بھروسے کے اصولوں کو چھوڑ دے گا تو اس کے وہی نتائج ہوں گے جو 71ء میں ہوئے تھے۔ زندہ اور کامیاب قومیں اپنے ماضی سے سبق سیکھتی ہیں اور ہمیں بھی 65ء کی جنگ میں حاصل کردہ کامیابی کے اصولوں کو یاد رکھنا ہوگا۔ اگر ہم ان اصولوں پر قائم رہے تو دنیا کی طاقت نہ ہمیں شکست دے سکتی ہے، نہ ہمارا ملک زوال پذیر ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 193331
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

pakistan army good good good
ہماری پیشکش