0
Saturday 8 Sep 2012 12:44

غیر وابستہ تحریک کا تہران اجلاس، مغربی بالادستی و اجارہ داری کیلئے ایک سنگین چیلنج

غیر وابستہ تحریک کا تہران اجلاس، مغربی بالادستی و اجارہ داری کیلئے ایک سنگین چیلنج
تحریر: ڈاکٹر سید راشد احد
  
تہران اجلاس کو نظرانداز کرنے کی مغرب کی طرف سے دانستہ کوشش کے باوجود عالمی امن کیلئے اقوام کے مابین باہمی احترام و محبت پر مبنی تعلقات ہی وہ موثر وسیلہ ہے، جس کی عالمی برادری کو جستجو کرنی چاہیے۔ اسی سے ایک نیا کثیرالقطبی عالمی نظام وجود میں آسکتا ہے، جس میں ہر ایک قوم و ملک کے مفادات کا عادلانہ طور سے خیال رکھا جاسکے گا اور چند طاقتوں کی باقی دنیا پر تسلط پسندی اور بالادستی کی روش کو یکسر مسترد کیا جاسکے گا۔ تہران اجلاس اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ایسے عالمی نظام کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں، جو واشنگٹن اور اسرائیل کے لئے انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے۔
 
تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے افتتاح سے ٹھیک ایک دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں اس اجلاس کو انسانیت پر ایک بدنما داغ بتایا۔ اس اجلاس میں 120 ممالک کے اعلٰی مناصب کے حامل نمائندوں نے شرکت کی تھی، لہٰذا نیتن یاہو کا اس اجلاس کے حوالے سے اظہار غیظ و غضب واضح طور سے قابل فہم ہے۔ NAM) NON-ALIGNED MOVEMENT) کا یہ سولہواں اجلاس جمعہ 31 اگست 2012ء کو سات سو سے زائد شقوں پر مشتمل ایک قرارداد کی منظوری کے ساتھ ختم ہوا۔ 

وہ حتمی قرارداد جسے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے پڑھ کر سنایا، جو ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتی اور اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کو مسترد کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ قرارداد مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے عظیم تر کوششوں کی طرف متوجہ کرتی اور پوری دنیا میں نسلی تفریق و امتیاز کے خاتمہ پر تاکید کرتی ہے۔
 
غیر وابستہ تحریک کے اس اجلاس میں کئی ایسے پریشان کن مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا، جنہیں مغرب غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مثلاً ایران کا جوہری پروگرام یا مسئلہ فلسطین سے چشم پوشی اور پاکستان، افغانستان، صومالیہ اور یمن ڈرون حملوں کا مسئلہ۔ جن کے شکار بیشتر معصوم شہری ہو رہے ہیں۔ یہ اجلاس شرکاء کیلئے ایک بہترین موقع ثابت ہوا کہ وہ اپنے مسائل کو اچھی طرح نمایاں کریں، جن میں ان اقوام کی گردنیں جکڑی ہوئی ہیں۔ چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر نے پاکستان میں غیر قانونی ڈرون حملوں پر اپنے ملک کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن کو تاکید کی کہ وہ فوری طور سے پاکستان میں اس بھیانک آلۂ قتل کا استعمال بند کرے۔
 
حنا ربّانی کھر نے 29 اگست کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا موقف آج بھی واضح ہے اور ماضی میں بھی واضح تھا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ڈرون حملوں کا الٹا نتیجہ نکل رہا ہے اور یہ سراسر غیر قانونی اور ناجائز ہیں۔ لہٰذا انہیں فوری بند ہونا چاہیے۔ اس موقف کا واضح اظہار پاکستان کی پارلیمنٹ بھی کرچکی ہے۔
 
بہرحال، اجلاس کا اصل حاصل رہبر معظم آیت اللہ سّید علی خامنہ ای کی پر مغز تقریر تھی، جس میں رہبر معظم انقلاب نے بعض کلیدی مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ا صولی موقف کا اعادہ کیا۔ جن میں جوہری اسلحہ کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک بار پھر یہ وضاحت کی کہ ایران کبھی بھی جوہری اسلحہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے اور یہ کبھی اسطرح کے خوفناک راستے پر گامزن نہیں ہوگا۔ اسلئے کہ اسطرح کے اسلحہ کی تلاش، استعمال اور پیداوار ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔ 

اقوام متحدہ کی ناقص کارکردگی نیز عالمی مسائل میں اس ادارے کا بڑی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسی کے زیر اثر ہونے کی روش کو رہبر معظم نے اپنی بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ مسئلہ فلسطین آپ کی گفتگو کا نقطۂ ارتکاز رہا۔ واشنگٹن کی متضاد پالیسی کے حوالے سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کا بیان خاص طور سے قابل توجہ ہے۔ 

رہبر معظم نے اسے عصر حاضر کی ایک تلخ ستم ظریفی کا عنوان دیتے ہوئے اس حقیقت کو اچھی طرح نمایاں اور روشن کیا کہ ’’امریکی حکومت عام تباہی پھیلانے والے جوہری اور دیگر اسلحہ کے عظیم اور ہولناک ترین ذخائر کی حامل ہے اور امریکہ وہ واحد ملک ہے جو اس کے استعمال کے جرم کا ارتکاب کر چکا ہے۔ اس مجرمانہ پس منظر کے ساتھ یہ ملک آج جوہری اسلحہ کی توسیع کی مخالفت کا پرچم بلند کرنے کا خواہاں ہے، اور یہ کہ یہی وہ حکومت ہے جس نے غاضب صیہونی حکومت کو جوہری اسلحہ سے مسلح کیا اور اسے اس حسّاس منطقہ کے لئے عظیم خطرہ میں تبدیل کر دیا ہے۔
 
درحقیقت واشنگٹن اور تل ابیب شیطان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور اقوام کی تقسیم اور ان کی سرزمینوں کو اپنی نوآبادیات بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ دونوں ’’عالمی دشمنوں‘‘ کو جنم دے رہے ہیں، تاکہ دنیا کو اس کا جھانسہ دے کر اپنی جارحیت اور لوٹ مار کے سلسلے کو دوام بخشیں اور اس کے ساتھ ہی اقوام کو باہم ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رکھیں، تاکہ انہیں اپنے ہتھیاروں کیلئے نئی منڈیاں ملتی رہیں۔ اس سلسلے میں غیر وابستہ تحریک کا یہ اجلاس سامراجی عزائم رکھنے والی قوتوں بالخصوص امریکی حکومت کے تباہ کن کردار کو غیر موثر بنانے اور ان کے خوشنما عالمی ایجنڈے کو غیر وابستہ تحریک کے ارکان کی نگرانی میں حقیقی اور تعمیری مفہوم دینے میں بہت ہی اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ 

اتنی گرانقدر اہمیت کے حامل اجلاس کے اثرات کو بےاثر بنانے کیلئے مغربی میڈیا نے حقیقت پر نقاب ڈالنے کی کوشش کی اور ایسے حقائق کی رپوٹنگ سے گریز کیا جو کسی بھی طور سے ان کے مخفی ایجنڈوں کا پردہ فاش کر رہے تھے۔ تہران کے اجلاس سے متعلق مغربی ممالک میں میڈیا بلیک آؤٹ حق اور حقیقت کی نقاب پوشی کے مترادف ہے اور یہ ایک ایسی گھناؤنی علامت ہے، جو اس حقیقت پر سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کیوں امن اور ہم آہنگی کی جانب کی جانے والی عالمی کوششیں بالاخر ناکامی کی گہری کھائی کی نذر ہوتی رہیں اور بارآور نہ ہوسکیں۔
 
میڈیا مافیاء کی اجارہ داری اور تسلط کو توڑنے کیلئے ایرانی نشریات آی آر آی بی کے سربراہ عزّت اللہ ضرغامی نے غیر وابستہ تحریک کو ایک متبادل میڈیا بلاک بنانے کے تجویز دی ہے۔ اس طرح کا اقدام واقعاً قابل ستائش ہے اور اسے میڈیا کے اندھے تعصب کے توڑ کا ایک موثر ذریعہ خیال کیا جانا چاہیے۔
 
یہ بات افسوسناک سہی، لیکن پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ متحدہ قیادت کے عنوان سے عالمی امن کے حصول کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے تخریبی قوتیں برسرپیکار ہیں۔ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے سامنے جو چیز حقیقتاً مستقبل میں پیش نظر رہنی چاہیے وہ عالمی بحران کو حل کرنے اور واشنگٹن کے سیاسی اثرات کو کم کرنے نیز خود ساختہ آمرانہ قیادت کو لگام دینے کیلئے ایک موثر طریقہ کار اور بین الاقوامی اتفاق رائے کا حصول ہے۔

یہی وقت ہے کہ امریکہ کو چوہدری کا کردار ادا کرنے سے روکا جائے، یعنی اسے دوسرے ممالک کے حوالے سے فکر اور فیصلے کرنے سے روکا جائے۔ پہلے قدم کے طور پر غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خوشامدانہ اسیری سے آزاد ہو۔
 
ایک نیا عالمی نظام صورت پذیر ہے اور اس متبادل عالمی نظام میں استعمار طلب قوتیں صفحہ ہستی سے محو ہو جائینگی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ یا مغربی جمہوریت کے قیام کے بہانے کمزور اقوام پر فوجی مہم جوئی کا فلسفہ جلد ہی ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ ممکن ہے یہ خیال فی الحال حقیقت سے کچھ فاصلہ رکھتا ہو، لیکن ناممکنات میں سے نہیں۔ یہ نظریہ اقوام کی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت کے ذریعے حقیقت میں تبدیل ہوگا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس سے امریکہ کے زیر قیادت مغربی دنیا کو بہت زیادہ خوف ہے، لیکن یہ دنیا کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ اقوام کی قوت ارادی ہی نامساعد حالات میں حق کی تائید کرسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 193577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش