0
Friday 29 Jan 2010 13:34

ایرانی انٹیلی جنس منسٹری کے نائب وزير کے چشم گشا انکشافات

ایرانی انٹیلی جنس منسٹری کے نائب وزير کے چشم گشا انکشافات
 آر اے سید
اسلامی جمہوریۂ ایران کی انٹیلی جنس منسٹری کے نائب وزير نے یوم عاشور کو تہران میں ہونے والے ہنگاموں کے بارے میں جو انکشافات کئے ہیں اس سے ہر باشعور شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود سامراجی طاقتیں ایران کے اسلامی انقلاب کو دل سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔تہران میں روز عاشور کے واقعات ہوں یا ایران کے دسویں پارلیمانی انتخابات سے لیکر آج تک کے حالات یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے کہ اسلامی انقلاب اور موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے اغیار کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں البتہ اس مرتبہ جو منصوبہ بندی کی گئی وہ پہلے سے قدرے مختلف تھی۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا" بعد امریکہ اور اسکے اتحادی اس اسلامی حکومت کو گرانے کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے تھے پہلے مرحلے میں انہوں نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی،جسکا دورانیہ آٹھ سال پر محیط رہا۔سفارتی میدان میں ایران کو تنہا کرنے کے لئے عدم جمہوریت،انسانی حقوق کی پامالی اور حال ہی میں ایٹمی ٹیکنالوجی کو بہانا بنایا،جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔اسی طرح اقتصادی میدان میں شکست دینے کے لئے طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جن میں کمی کی بجائے ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔امریکہ نے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے مذکورہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ایران کی اسلامی حکومت کو اندر سے کھوکھلا کرنے اور نظام کی بنیادوں کو ڈھانے کے لئے بھی اپنی سازشوں کو جاری رکھا۔ایران میں اپنی مرضی کی تبدیلی کے لئے امریکی سینیٹ نے کھلم کھلم بجٹ مختص کئے،اپنے دانشوروں اور تھنک ٹینکس کے ذریعے ایران میں موجود مغربی فکر کے دلدادہ دانشوروں اور سیاستدانوں کو خریدنے میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔
امریکی سازشوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ نوے کے آخری عشرے میں امریکہ کو ایران کے اندر اصلاحات کا نعرہ لگانے والوں میں سے کچھ مطلوبہ افراد نظر آئے اور یوں انہوں نے بلواسطہ اور بلاواسطہ ان پر سرمایہ کاری شروع کر دی۔اصلاحات کے نام پر سامنے آنے والوں کے طور اطوار دیکھ کر ایران کی باشعور عوام نے اگلے انتخابات میں ان قوتوں کو سختی سے مسترد کر دیا۔آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد اس گروہ کے بعض افراد جو اپنے حقیقی چہروں پر نقاب ڈالے ہوئے تھے آہستہ آہستہ بے نقاب ہو گئے اور انہوں نے اسلامی انقلاب کی بنیادوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ایران کے اندر تو ان کی باتوں پر کسی نے کان نہ دھرا،تاہم ایران سے باہر امریکہ اور برطانیہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ سب بیرون ملک بیٹھ کر آئندہ کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔
ایران میں دسویں صدارتی انتخابات میں جب انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کے نام پر ایک ایسے کھیل کا آغاز کر دیا،جس کا انتظار انقلاب دشمن طاقتیں کافی عرصے سے کر رہی تھیں۔
انقلاب کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ہم زبان اور ہم قدم ہو کر اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی تمام تر توانائیون کو ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف صرف کرنا شروع کر دیا۔مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ،امریکہ،فرانس اور جرمنی تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انقلاب مخالف قوتوں کے شانہ بشانہ میدان میں آگئے۔ان ممالک کے سفارتخانوں،سفارتکاروں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جس بے باکی سے شرپسندوں کا ساتھ دیا،سفارتی میدان اور عالمی سیاست میں اسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔بی بی سی،وائس آف امریکہ،سی این این،انٹرنیٹ سائیٹس،یو ٹیوب اور ٹیوٹر نے ایران مخالف قوتوں کی جسطرح رہنمائی کی اور جس وسیع انداز سے کوریج دی اسکو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔مغربی چینلوں کے علاوہ امریکی اور صیہونی سرمایے پر چلنے والے فارسی زبان کے پرائیویٹ چینلوں کا کردار بھی ایران اور انقلاب دشمنی میں کسی سے کم نہیں تھا۔
دسویں صدارتی انتخاب کے بعد ہونے والے پہلے حکومت مخالف مظاہرے سے لیکر روز عاشور کے دن ہونے والے توہین آمیز اجتماع تک ان مغربی اور فارسی چینلوں نے رواں تبصرے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کو مظاہروں میں شرکت پر اکسانے کے لئے جو براہ راست پروگرام نشر کئے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران مخالف مظاہروں کی منصوبہ بندی کرنے والے اور میڈیا پر اسکی نشر و اشاعت کرنے والے ایک ہی تھے اور ان ٹی وی چینلوں سے آئندہ کے لئے جس طرح کی ہدایات دی جاتی رہیں اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ایران میں انتشار پھیلانے والے تمام گروہ ایک ہی جگہ سے کنٹرول ہو رہے ہیں۔
ایران کی اسلامی حکومت ان تمام سازشوں کا قریب سے مشاہدہ کرتی رہی اور اس نے شرپسندوں کو سختی سے کچلنے کی بجائے ایسی روش کو اپنایا تا کہ حقائق سے بے خبر افراد حقیقت کا ادراک کر کے ان سے اپنے راستے جدا کر لیں۔شر پسندوں کی طرف سے مظاہروں،اجتماعات،تشہیراتی مہم اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری رہا۔تاہم انہیں مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوئے جسکی وجہ سے پس پردہ منصوبہ ساز سٹپٹا اٹھے اور انہوں نے ایک ایسا بھیانک فیصلہ کیا جس نے انکے منافقانہ اور ظالمانہ چہرے کو بے نقاب کر دیا۔عاشور کا دن تمام اسلامی ممالک حتی غیر مسلم معاشروں میں بھی خصوصی احترام کا حامل ہے۔ایران کا اسلامی معاشرہ تو اس دن کے تقدس کو اپنی جان سے زيادہ عزیز رکھتا ہے مغربی،امریکی اور صیہونی منصوبہ سازوں نے ایران کے اسلامی معاشرے کے عدم ادراک کی وجہ سے اس دن کو اپنے منفی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا،جو انکے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ناکام صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کے حامیوں کی غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر عاشورہ کے تقدس کو پامال کرنے کا اقدام ایرانی عوام کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔لہذا ایرانی عوام نے عظیم الشان مظاہروں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے عملی قدم اٹھائے۔
حکومت کےمختلف ادارے ملک دشمن سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے لیکن عوامی دباؤ کے بعد اس میں مزيد تیزي آگئی اور آخر کار انٹیلی جنس اداروں نے سازشی عناصر کو پکڑ کر اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کے انٹیلی جنس کے نائب وزير نے گزشتہ روز ایک گفتگو میں اس سازش کے بعض گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں شکست کھانے والے صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کے مشیر نے اعتراف کیا ہے کہ اس کا تعلق ایک غیر ملکی جاسوسی تنظیم سے ہے اور وہ جاسوسی کر کے تمام خبروں کو بیرون ملک منتقل کرتا رہا ہے۔
انٹیلی جنس کی وزارت کے نائب وزير نے جرمنی،برطانیہ اور کئی دوسرے غیر ملکیوں کی اس سازش میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی کے سفارتخانے کا ایک اہلکار عاشور کے روز جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں موجود تھا اور وہ اس وقت پولیس کی تحویل میں ہے۔اس نے انتخابات سے لیکر اب تک شرپسندوں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے درمیان رابطے کے حوالے جو انکشافات کئے ہیں وہ مغربی طاقتوں کے مذموم ارادوں کو طشت از بام کرنے کے لئے کافی ہیں۔دو اور جرمن سفارتکار جو یوگي اور اینگو کے جعلی ناموں سے منفی سرگرمیوں میں ملوث رہے،انکی شرپسند لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ باقاعدہ تصاویر موجود ہیں جسکا جرمن کے سفارتخانے کو جواب دینا ہو گا۔
انٹیلی جنس کے نائب وزیر نے ایک انگریز خاتون کو بھی گرفتار کیا ہے جسکے پاس کئی مغربی ممالک کے پاسپورٹ تھے اور اسکا کام آوارہ اور بدمعاش نوجوان لڑکے لڑکیوں سے قریبی رابطہ رکھنا تھا اور وہ انہیں پیسے اور تحفے دیکر مظاہروں میں بھیجتی اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو خصوصی انعام دیتی۔پولیس نے اس عورت کو بھی عاشور کے واقعات کے دوران ایسی حالت میں گرفتار کیا ہے کہ اسکے پاس گرم اور سرد اسلحہ تھا بعد میں اسکی رہائش گاہ سے بھی جاسوسی کے آلات کے ساتھ سونے اور دیگر زیورات کی ایسی رسیدیں برآمد ہوئی ہیں جو اس نے مظاہروں میں توڑ پھوڑ کرنے والے شر پسندوں کو انعام کے طور پر دی تھیں۔یہ جاسوس عورت اس سے پہلے ایک سفارتکار کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہ چکی ہے۔اس جاسوسہ نے بد معاشوں اور آوارہ نوجوانوں کو مظاہروں میں بھیجنے کے علاوہ اپنے گھر میں ایک اسٹوڈیو بھی بنا رکھا تھا جہاں سے مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی تصاویر اور فلمیں تیار کر کے مختلف سائیٹوں اور ٹی وی چینلوں کو بھیجی جاتی تھیں۔ایران کے انٹیلی جنس کے اس اہم ذمہ دار کے مطابق انتخابات کے مظاہروں بالخصوص روز عاشور کے اشتعال انگیز مظاہروں میں تمام انقلاب دشمن منجملہ منافقین،سابق شاہ کے حامی،بہائی مذہب اور غیر ملکی طاقتوں کے اہم جاسوس اور ایجنٹ جنہیں عام حالات میں اس طرح کے اجتماعات میں نہیں بھیجا جاتا ہے موجود تھے۔
ایران کے انٹیلی جنس کی وزارت کے نائب وزير نے بعض غیر ملکی این جی اوز،ثقافتی اداروں اور اندرون ملک اور بیرون ملک مقیم سیاسی اور ثقافتی شخصات کے بارے میں بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ کس انداز سے امریکی اور برطانوی اشاروں پر ایران کے اسلامی انقلاب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے ایران پر اپنی مرضي کا نظام لانے کی کوشش میں مصروف ہیں ایران کی انٹیلی جنس کی وزارت کے حالیہ انکشافات کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ دسویں صدارتی انتخابات کے بعد کا یہ فتنہ اب اپنی موت آپ مر جائے گا اور ایران کا اسلامی انقلاب پہلے سے زیادہ سرعت اور قدرت کے ساتھ ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 19471
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش