0
Saturday 15 Sep 2012 21:56

ورفعنا لک ذکرک

ورفعنا لک ذکرک
تحریر: سید اسد عباس تقوی

گزشتہ دنوں امریکا کے ایک نامعروف ڈائریکٹر جس نے اپنا نام Sam Bacile ظاہر کیا ہے، نے مسلمانوں کے عقیدہ رسالت کی تضحیک پر مبنی فلم کا ٹریلر یوٹیوب پر جاری کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فلم کو جون کے آخر میں امریکا کے کسی چھوٹے سے سینما گھر میں دکھایا بھی گیا۔ مسلمانوں کے عقیدہ رسالت کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا، کیونکہ جس ہستی کی توہین کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس کی عزت و مقام انبیائے ماسبق کی مانند انسانوں کی پہنچ اور فہم سے نہ صرف بلند ہے، بلکہ ارفع و اعلٰی بھی ہے۔ جس کے بارے میں خالق ارض و سماء کا خطاب ہے کہ ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا۔۔۔ اور جس کے دشمنوں کے بارے میں رب کائنات کا واضح اعلان ہے کہ وہ بے نام نشان ہو جائیں گے۔۔ کی توہین کے بارے میں سوچنا بھی انسان کی بساط سے باہر ہے۔ میری حقیر رائے میں یہ حملہ رسالت مآب پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے عقیدہ رسالت پر حملہ ہے، جو اتنا ہی قبیح ہے جتنا کسی انسان کا قتل۔ اخبارات میڈیا اور یوٹیوب پر اس فلم کے متعدد نام سامنے آ رہے ہیں، جن میں The Real life of Muhammad, The Innocece of Muslims وغیرہ شامل ہیں۔ 

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای رہبر انقلاب اسلامی نے اس قبیح حرکت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس شرانگیز حرکت کے پس پردہ، صہیونیت، امریکہ اور عالمی استکبار کے دوسرے سرغنوں کی معاندانہ پالیسیاں کار فرما ہیں، جو اپنے باطل، وہم و خیال میں اسلامی دنیا کی نوجوان نسلوں کی نظروں میں اسلامی مقدسات کو ان کے بلند مقام سے نیچے گرا کر ان کے دینی و مذہبی جذبات و احساسات کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس پلید زنجیر کے سابقہ حلقوں یعنی سلمان رشدی، ڈنمارکی کارٹونسٹ اور قرآن جلانے والے امریکی پادری کی حمایت نہ کرتے اور صہیونی سرمایہ داروں سے وابستہ فرموں میں اسلام دشمنی پر مبنی درجنوں فلمیں تیار کرنے کی سفارش نہ دیتے، تو آج نوبت اس عظیم اور ناقابل بخشش گناہ تک نہ پہنچتی۔
 
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس سنگین اور ناقابل معافی جرم کی پہلی ملزم صہیونیت اور امریکی انتظامیہ ہے۔ امریکی سیاستدان اگر اپنے اس دعوے میں سچے ہیں کہ وہ اس جرم میں ملوث نہیں ہیں تو اس قبیح اور کریہ جرم میں ملوث افراد اور ان کے مالی سرپرستوں کو ان کے جرم کی سنگینی کے تناسب سے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں میرے بھائیوں اور بہنوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ اسلامی بیداری کے سامنے دشمنوں کی یہ ناکام حرکتیں، اس تحریک کی عظمت و اہمیت کی علامت اور اس کے روز افزوں فروغ اور ہمہ گیری کی نوید ہیں۔ اسی طرح شیخ الازھر نے بھی اس قبیح فعل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فعل کے پس پردہ کام کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دے۔
 
اس فلم کے بارے میں امریکی حکومت اور اس کے عہدیداروں کا موقف ہے کہ یہ واقعہ ایک شخص کا ذاتی فعل ہے اور اس سے حکومت امریکا کا کوئی تعلق نہیں، پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کہتے ہیں: اسلام کا غلط تاثر دکھانا ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکہ کی رائے نہیں۔ ہیلری کلنٹن فرماتی ہیں کہ اس فلم کو امریکی حکومت کی تائید حاصل نہیں تھی۔
 
اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کے معروف کالم نویس ارشاد احمد عارف لکھتے ہیں:
دوسروں کا تو علم نہیں، مگر مجھے امریکی حکمرانوں کی اس منطق سے اتفاق نہیں کہ ٹیری جونز اور سام بیسائل نے جو کیا وہ ان کا ذاتی فعل ہے، گستاخ رسول سلمان رشدی کی شیطانی خرافات منظر عام پر آئیں تو اس مجہول شخص کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر نے مدعو کیا، سرکاری پذیرائی کی اور اس کے ذہنی افلاس کی داد دی، ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کے آقا و مولا اور محسن انسانیت کی گستاخی کے سوا سلمان رشدی نے کونسا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا، جس کی وجہ سے امریکی صدر نے اس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی اور برطانیہ سمیت ہر یورپی ملک نے امریکہ کی تقلید کی۔ 

ڈنمارک کے ایک وحشی، پاگل اور جاہل شخص نے خاکے بنائے تو اس کے گھٹیا اقدام کے حق میں دلائل کس نے دیئے؟ امریکی اور یورپی حکمرانوں اور مسلمانوں کو برداشت اور تحمل کرنے کی تلقین کی گئی، گویا مسلمانوں کی دلآزاری اور محسن انسانیت کی توہین بھی امریکی، اسرائیل اور یورپی باشندوں کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے، جس کا احترام مسلمانوں کو بہرصورت کرنا چاہئے۔ 

فلم میں کام کرنے والے اداکاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں فلم Warrior of the desert کے لیے کاسٹ کیا گیا اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس فلم کا مقصد مسلمانوں کے عقیدہ رسالت کی تضحیک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہ فلم ایک مصری ڈائریکٹر بنا رہا ہے۔ یہ ڈائریکٹر ہمارے سامنے اکثر عربی زبان میں بات کیا کرتا تھا۔ فلم کی ڈبنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فلم میں سنائی دینے والے الفاظ بعد میں ڈب کیے گئے۔ بی بی سی کے مطابق سیم بیسائل نے مغربی میڈیا کے چند اداروں کو فون کرکے بتایا کہ یہ فلم انھوں نے بنائی اور اس کے لیے انھوں نے امریکہ میں آباد چند یہودی سرمایہ کاروں سے پیسہ لیا۔ بی بی سی کے نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیم بیسائل ایک فرضی نام ہے، جس کا اس فلم سے قبل کوئی وجود نہیں تھا اور ہم ہالی ووڈ میں اس نام سے واقف نہ تھے۔
 
اس فلم میں توہین آمیز تصاویر کو دیکھ کر مسلم امہ کے کسی بھی فرد کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا ممکن نہیں تھا اور وہی ہوا۔ لیبیا، مصر، سوڈان، یمن، سعودیہ، ایران، انڈونیشیا، پاکستان غرض کہ دنیا کے سبھی ممالک جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، نے اس توہین پر صدائے احتجاج بلند کی۔ حتٰی کہ بعض ممالک میں تو امریکی سفارت خانوں اور کونصلیٹ کو آگ لگا دی گئی۔ لیبیا میں تعینات امریکی سفیر اسی احتجاج کے نتیجے میں لقمہ اجل بنا۔ اس احتجاج کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 

فلم بنانے کا عمل، اس سے متعلق واقعات اور اس کے پس پردہ افراد چاہے کوئی بھی ہوں، سوال یہ ہے کہ آخر کار اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ کسی کے عقیدہ و ایمان پر اس قسم کے حملے کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ میری نظر میں اس کے دو طرح کے حل ہیں۔ ایک حل طویل المیعاد ہے اور وہ یہ کہ ہم مسلمان اس ناقابل برداشت زخم کو مثبت موقع میں تبدیل کریں اور غربت، پستی اور کاسہ لیسی کی زندگی کو ترک کرکے عزت سے جینے کا عزم کریں۔ اگر ہم اپنی اور اپنے مقدسات کی عزت کو عزیز رکھتے ہیں تو ہمیں علم، سائنس اور فنون کی میدان میں ترقی کرنا ہوگی اور دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہمارے بغیر اس دنیا کا وجود نامکمل ہے۔
 
فوری حل یہ ہے کہ ہم اپنے دستیاب وسائل اور اختیارات کو استعمال کریں اور اس واقع کو قانونی چھتری فراہم کرنے والی حکومتوں کو اس سلسلہ میں قانونی اقدام کرنے پر مجبور کریں۔ تاکہ اس قسم کے واقعات آئندہ وقوع پذیر نہ ہوں۔ ہمارے بہت سے ملک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اگر عقیدہ اور ایمان پر لگنے والا یہ زخم حقیقتاً اتنا ہی جانکاہ ہے جتنا ان ممالک کے عوام کے عمل سے ظاہر ہے، تو ہمیں اس احتجاج کو اس زبان میں مغربی ممالک کی حکومتوں اور عوام تک پہنچانا ہوگا جو انھیں سنائی دیتا ہے، یہ زبان منافع میں کمی اور وسائل کی عدم ترسیل کی زبان ہے۔ اگر اب بھی مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتی تو ہم اس تنظیم کا نام Organization of Islamic countries سے بدل کر Organization of illegal culprits رکھنے میں حق بجانب ہیں۔
خبر کا کوڈ : 195691
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش