تحریر: حمید امیدی
ترجمہ: عباس ہمدانی
1۔ اسلامی انقلاب، ایران کی سیاسی اور اجتماعی تاریخ میں ایک اہم اور بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ انقلاب ملک کے سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی نظام اور سٹرکچر، جو قاجار اور پھلوی سلطنت کی حکومت کے کئی عشروں میں زوال پذیری کا شکار تھا، میں تبدیلی لانے کے علاوہ خطے، اسلامی دنیا اور دوسرے ممالک میں بھی کافی مثبت تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کا ظہور اکثر عالمی دانشوروں کی سوچ پر بھی اثرانداز ہوا ہے۔ "انقلاب" کے بارے میں تحقیق اور نظریہ پردازی کرنے والے اکثر محققین دنیا میں مختلف انقلابوں کے رونما ہونے کے کچھ بنیادی عوامل ذکر کرتے تھے لیکن ان میں دین اور مذہب کو کوئی حیثیت حاصل نہ تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے "معنویت" نام کی کوئی چیز ماہرین کے سیاسی تجزیوں میں دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لیکن ایک ایسے انقلاب کا رونما ہونا جو اسلامی تھا اور عوام کے مذہبی اعتقادات پر استوار تھا انقلاب کے بارے میں تھیوریز کے اندر بنیادی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ شہید مرتضی مطہری اپنی کتاب "انقلاب اسلامی کے بارے میں" میں ایران میں اسلامی انقلاب اور اسکے عوامل کے بارے میں لکھتے ہیں: "ہمارے انقلاب کا تجزیہ و تحلیل کرنے والے ماہرین کا ایک گروہ صرف ایک بنیادی عامل کا قائل ہے۔ کچھ افراد کی نظر میں وہ عامل مادیات اور اقتصاد ہے، کچھ کی نظر میں آزادی خواہی اور کچھ کی نظر میں دینی اعتقادات ہیں۔ لیکن ماہرین کا ایک اور گروہ یہ خیال رکھتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے معرض وجود میں آنے میں یہ تینوں بنیادی
2۔ انیسویں صدی کے دوران خطے میں استکباری قوتوں کے خلاف اسلامی تحریک کا آغاز قابل توجہ اثرات کا باعث بنی۔ لیکن یہ تحریک بیسویں صدی کے اواسط میں سستی اور کمزوری کا شکار ہو
امام خمینی رہ مسئلہ فلسطین کو ڈپلومیٹک طریقے سے حل کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میں فلسطینی رہنماوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آمد و رفت [ڈپلومیسی] ترک کر دیں اور خداوند متعال پر بھروسہ کرتے ہوئے فلسطینی عوام اور اسلحے کے بل بوتے پر موت کی سرحد تک اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کریں۔ کیونکہ یہ آمد و رفت آپکی قوم میں مایوس پھیلنے کا باعث ہے۔ آپ لوگ یقین رکھیں کہ نہ شرق آپکے کام آئے گا اور نہ غرب۔ خدا پر ایمان اور اسلحے کے زور پر اپنے جائز مطالبات کے حصول تک جدوجہد اور مزاحمت ترک نہ کریں"۔
امام خمینی رہ کا پیش کردہ نسخہ بہت جلد خطے میں مقبول ہو گیا۔ فلسطینی انتفاضہ میں عوام کی بھرپور شرکت اور اسلامی مزاحمتی گروہ جیسے حزب اللہ
3۔ اس سال کے عشرہ انقلاب میں انقلاب اسلامی ایران 31 سال کا ہو چکا ہے۔ ان سالوں میں انقلاب اور اس سے برآمدہ نظام کئی اتار چڑھاو سے روبرو ہوا ہے لیکن پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہا ہے اور اپنے دشمنوں اور بدخواہ افراد کے سامنے ذرہ بھر عقب نشینی نہیں کی ہے۔ لہذا اس عرصے میں کوئی اتار ایسا نہیں ہے جو اپنے ساتھ چڑھاو کے ہمراہ نہ ہو۔ انقلاب اسلامی ایران نے انقلاب سے متعلق تمام نظریات کو درھم برھم کرتے ہوئے اسکی ڈاکٹرائن میں نئے عناصر کا اضافہ کر دیا ہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں موجود اکیویشنز کو تبدیل کرتے ہوئے دو قطبی دنیا کا خاتمہ کر دیا ہے۔ آج مشرقی اور مغربی بلاکس کا تصور بالکل ختم ہو چکا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کا ظہور باعث بنا ہے کہ دنیا میں ایک نیا تیسرا بلاک "اسلامی ممالک" کے بلاک کے طور پر معرض وجود میں آئے جو دنیا کی سپر پاورز کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دے۔ آج خطے میں جاری امن مذاکرات اور مفاہمت کا سلسلہ اپنا رنگ کھو چکا ہے۔ فلسطین کی عوامی اور اسلامی مزاحمت نے امریکا، اسرائیل اور دوسری عالمی سپر پاورز کو جو فلسطین کو حذف کرنے کی غرض سے نام نھاد امن مذاکرات کے درپے تھیں چیلنج کیا ہے اور اس سلسلے کو بند راستے سے روبرو کیا ہے۔ یہ تمام حقائق اس عظیم اسلامی انقلاب کے اثرات اور برکتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن ہمیشہ دو محاذوں یعنی ہارڈ اور سافٹ وار پر اس انقلاب سے برسر پیکار رہا ہے۔ دشمن سے مربوط اندرونی عناصر بھی اسکے پیادہ نظام کا کردار ادا کرتے ہوئے انقلاب
گذشتہ چند دنوں میں ظاہر ہونے والا تازہ ترین فتنہ بھی اگرچہ کافی بڑے پیمانے پر تھا لیکن انقلاب اسلامی ایران کیلئے ایک چیلنج تھا۔ امام خمینی رہ نے شاہ اور استکباری قوتوں کے مقابلے میں اور اسی طرح انقلاب کی کامیابی کے بعد منافقین اور انقلاب دشمنوں کے مقابلے میں کبھی ذرہ بھر عقب نشینی نہیں کی اور بھتہ نہیں دیا۔ اگر یہ انقلاب اور اسکی کامیابی دشمن کے مقابلے میں امام خمینی رہ اور ملت ایران کی قاطعیت اور ثابت قدمی کا نتیجہ ہے تو آج 31 سال کے بعد اس انقلاب کی بقا بھی رھبر اور ملت ایران کی طرف سے کسی کو بھتہ نہ دینے پر متکی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائد آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعات باعث بنے ہیں کہ عوام اسلامی جمہوریہ کا دفاع کرنے میں اپنے وظیفے کا مزید احساس کریں فرماتے ہیں: "البتہ بعض اوقات دشمن کی پلاننگ اسلامی نظام کو بھتہ دینے پر مجبور کرنے کی تھی۔ لیکن امام بزرگوار نے کبھی بھتہ نہیں دیا اور سب جان لیں کہ ہم بھی نہ ملت ایران کی طرف سے اور نہ اپنی طرف سے کسی کو بھتہ نہیں دیں گے"۔
ایرانی عوام اور رھبر فتنہ گر افراد کے ساتھ قانون کے مطابق کاروائی کرنے کے خواہاں ہیں۔ آیا قومی مفاہمت، قومی اتحاد، ثالثی وغیرہ جیسی پیشکشوں سے بھتہ وصول کرنے کی بو نہیں آتی؟۔