0
Wednesday 3 Feb 2010 16:16

گھڑے کی مچھلی

گھڑے کی مچھلی
 آر اے سید
جن لوگوں نے گھڑا دیکھا ہوا ہے اور اس سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا ہو ان کے لئے گھڑے اور اس میں موجود مچھلی کا تصور زیادہ مشکل نہیں ہے گھڑے کی مچھلی کی اصطلاح معمولا" ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جب مخاطب کو یہ سمجھانا مقصود ہو کہ ہر چیز دسترس اور کنٹرول میں ہے۔کیونکہ اگر گھڑے میں مچھلی موجود ہو تو دریا،سمندر یا تالاب کے برعکس جب چاہیں گھڑے میں ہاتھ ڈال کر مچھلی کو باآسانی پکڑا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطی کے اکثر خلیجی ممالک کے آمروں اور ڈکٹیٹروں کی کمزوریوں اور بد دیانتیوں نے ان ممالک کو امریکہ کے لئے ایک گھڑے کی مچھلی میں بدل دیا ہے،امریکہ جب چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ان ممالک کو استعمال کرتا ہے۔ان ممالک میں امریکی فوجی موجودگي،حکومتی پالیسیوں پر امریکی اثرات اور ان ممالک کے قدرتی ذخائر پر قبضہ،عرب سربراہوں کے لئے ایک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اور ان مسائل پر وہ اپنا ظاہری ردعمل بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔
امریکہ نے ان ممالک سے انکا قومی سرمایہ بٹورنے اور اپنے اقتصادی بحران پر قابو پانے کےلئے ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے اور امریکہ نے حال ہی میں عرب امارات،قطر، کویت اور بحرین میں اینٹی میزائل نظام پیٹریات نصب کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس میزائل سسٹم کے مذکورہ ممالک میں نصب کرنے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹراؤس نے امریکی وزارت دفاع میں جس دفاعی میزائل سسٹم نصب کرنے کا اعلان کیا تھا وہ عرب امارات قطر،کویت اور بحرین میں پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے سے متعلق تھا۔
امریکہ نے یہ میزائل سسٹم کیوں نصب کیا ہے؟اور ان عرب ممالک نے کس کے خوف سے یہ میزائلی نظام نصب کرنے کی اجازت دی ہے؟یہ ایک ایسا کھلا معاملہ ہے جس سے مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اچھی طرح آگاہ ہیں۔امریکہ نے اس دفاعی نظام کی بدولت ان عرب ممالک سے کیا مفادات حاصل کئے ہیں؟وہ تو وقت آنے پر واضح ہوجائیں گے لیکن اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہوں نے عرب ممالک کو اسلامی جمہوریۂ ایران کا خوف دلا کر یہ سسٹم فروخت کیا ہے۔
کیا عرب ممالک کو امریکہ کے بقول ایران سے زیادہ خطرہ ہے یا امریکہ اور برطانیہ کے سرمایے پر چلنے والی غاصب صیہونی حکومت سے۔ ایران کی گزشتہ تین سو سالہ تاریخ بالخصوص ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد کی تیس سالہ تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایران نے تاریخ کے کسی بھی حصّے میں عرب ممالک کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا ہے بلکہ ایران کی انقلابی حکومت نے تو ان ممالک کو کئی بار مشترکہ دفاعی نظام تشکیل دینے کی بھی پیشکش کی ہے امریکہ اگر ان ممالک کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے خوفزدہ کر رہا ہے تو آئی اے ای اے سمیت کئی عالمی ادارے ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قرار دے چکے ہیں۔حالانکہ ان عرب ملکوں کو اگر کسی سے خوف ہونا چاہئے تو وہ اسرائیل کی غاصب صیہونی حکومت ہے جسکے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں اور اسکا ماضی بھی عربوں کے خلاف دشمنی اور حملوں سے تاریک ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے خلاف اینٹی میزائیل دفاعی سسٹم نصب کرنے کے حوالے سے امریکہ اور خلیج فارس کے عرب ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران کے بہترین تعلقات ہیں اور خلیج فارس میں علاقے سے باہر کے ممالک کے اقدامات بے کار ہیں۔ترجمان نے کہا کہ علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات اسٹریٹیجک،تاریخی اور مشترک ہیں اور علاقے کی پیشرفت اور امن و استحکام کے لئے علاقے کی یکجہتی حقیقت پسندانہ روش ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کی طرف سے اس ردعمل کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ نے ایران اور عرب ممالک کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لئے جو حالیہ قدم اٹھایا ہے ایران نے اس کو ناکام بنا دیا ہے اور ان ممالک کے عوام کو پیغام دیا ہے کہ اس دفاعی نظام کا مقصد امریکی اور اسرائیلی اہداف ہیں ایران کی خارجہ پالیسی سے اسکا دور تک کوئی تعلق نہیں۔
امریکہ کے اس اقدام سے ایک اور بات واضح ہو گئی ہے کہ تبدیلی کے نعرے سے امریکی اقتدار میں آنے والے باراک اوباما اور جنگ پسند جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں میں ذرا برابر فرق نہیں اور یہ دونوں ایک ہی سکّے کے دورخ ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لیکر آج تک تمام امریکی حکومتوں نے خلیجی ممالک کو ایران کا خوف دلا کر اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے بڑے بڑے خریدار پیدا کئے ہیں اور اس علاقے کو ہتھیاروں کی نہ رکنے والی دوڑ میں مبتلا کر دیا ہے عرب ممالک کو ایران سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے لیکن عرب ممالک نے اپنے قومی سرمایے کے ایک بہت بڑے حصّے کو ہتھیاروں کی خریداری کے لئے مختص کر رکھا ہے یہ عرب ممالک لبنان اور غزہ پر صیہونی جارحیت کے وقت عربوں کی حمایت کی بجائے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے اور انکے جدید ہتھیاروں کے انبار لبنان اور غزہ کے خلاف استعمال ہوتے ہوتے رہ گئے۔یہ ہتھیار اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتے کیونکہ امریکہ اور ان ممالک کے درمیان معاہدوں میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ اسے اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک کے یہ شیوخ امریکی حمایت سے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں اور یہ امریکہ کے لئے گھڑے کی مچھلی کی مانند ہیں یہ جب بھی امریکی اقدامات کے خلاف معمولی سے آواز اٹھاتے ہیں تو گویا امریکہ ان کو گھڑے میں ہاتھ ڈال کر چند لمحوں کے لئے پانی سے باہر نکالتا ہے اور یہ دم گھٹنے کے ڈر سے فورا" امریکہ کی ہر شرط کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں۔عرب ممالک کے یہ سربراہاں اقتدار کے پانی کے اندر رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ چند لمحوں کے لئے بھی اقتدار کے پانی سے محروم نہیں رہ سکتے۔امریکہ بھی ان کی کمزوری سے اچھی طرح واقف ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جب چاہتاہے اپنی افواج اس خطے میں لے آتا ہے اور جب اسکا مفاد اس علاقے میں پیٹریاٹ دفاعی نظام کی تنصیب میں ہوتا ہے تو اس نظام کو ان ممالک میں نصب کر دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 19773
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش