1
0
Saturday 6 Oct 2012 23:45

اب مسئلہ یہ نہیں ہے

اب مسئلہ یہ نہیں ہے
تحریر: نذر حافی
 nazarhaffi@yahoo.com

میرے ایک دوست کسی کالج میں سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں، اگر کوئی مہمان پہلے سے ٹائم لئے بغیر ان کے گھر چلا جائے تو پھر انہوں نے اگلے دن کالج میں جو لیکچر دینے کی تیاری کی ہوتی ہے وہ باتوں ہی باتوں میں وہی لیکچر مہمان کو دے دیتے ہیں، اس طرح مہمان بھی بور نہیں ہوتا اور پروفیسر صاحب کی بھی مشق ہو جاتی ہے۔ ہمیں تو خاندانی طور پر بغیر وقت لئے کہیں آنے جانے کی عادت ہے، لہذا ہمیں کئی مرتبہ پروفیسر صاحب کے ہاتھوں تختہ مشق بننے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ 

ایک دن شومئی تقدیر سے ہم بغیر وقت لئے حسب عادت پروفیسر صاحب کے ہاں جا دھمکے، وہ بھی احساس کمتری کے موضوع پر تیاری کئے بیٹھے تھے، چنانچہ انہوں نے بھی آئو دیکھا نہ تائو، سیدھی ہمارے اوپر چڑھائی شروع کر دی، خیر ان کے لیکچر سے ہمیں بھی یہ پتہ چل گیا کہ ماہرین نفسیات کے مطابق کوئی بھی شخص اس وقت احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے آپ میں کسی چیز کی کمی کے احساس پر یقین کر لیتا ہے۔ ایسا شخص اگر اپنی اس کمی کے احساس کو دور کرنے کی فوری اور مثبت کوشش کرے تو وہ جلد ہی اس موذی مرض سے نجات حاصل کرلیتا ہے، لیکن اگر وہ اپنی کمی کو دور اور ختم کرنے پر توجہ نہ دے تو ایسا شخص بہت جلد نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔

احساس کمتری میں مبتلا نفسیاتی مریض کی علامات میں سے کچھ یہ ہیں کہ وہ دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے لگتا ہے، اسے جس بات کا علم نہیں ہوتا، وہ اس میں بھی اپنی رائے دیتا ہے، وہ اپنے آپ کو ویسا ظاہر کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ وہ نہیں ہوتا، دوسروں سے کچھ سیکھنے کے بجائے انہیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے، وہ ایسے شارٹ کٹس ڈھونڈنے لگتا ہے، جن کے ذریعے وہ جلد از جلد دوسروں کی نگاہوں میں ممتاز ہو جائے اور وہ کسی بلند مقام تک پہنچ جائے، مثلاً ایک شخص کا اٹھنا بیٹھنا اگر پی ایچ ڈی کی سطح کے لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ گریجویشن سے آگے نہیں جا سکا تو پہلے تو وہ پی ایچ ڈی والوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
 
اس مقابلے کی مختلف صورتیں ممکن ہیں، کبھی وہ مختلف موضوعات پر انگلش کی اصطلاحات رٹ کر آئے گا، تاکہ یہ لوگ جان لیں کہ میں اگرچہ پی ایچ ڈی نہیں ہوں، پھر بھی میری انگلش بہت اچھی ہے، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب اسے پتہ چل جائے گا کہ پڑھے لکھے لوگ انگلش کے بجائے علمی معیار کو اہمیت دیتے ہیں تو پھر وہ یا تو خود پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش کرے گا یا پھر اصلاً پی ایچ ڈی کے خلاف ہو جائے اور یہ مشہور کرے گا کہ پی ایچ ڈی کا کوئی فائدہ ہی نہیں یہ تو صرف وقت ضائع کرنے کی چیز ہے اور وہ اپنے اس مفروضے کے حق میں ٹھوس دلائل بھی لائے گا۔ 

اس لیکچر کو کچھ دن ہی گزرے تھے اور ابھی ہمارے ذہن میں اس کا ارتعاش باقی تھا کہ ہماری ملاقات سچ مچ میں ایک ایسی شخصیت سے ہوگئی، جن کا دعویٰ تھا کہ یہ جتنے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیے پھرتے ہیں، ان کی ڈگریوں کو آگ لگا دینی چاہیے، جب ہم نے وجہ پوچھی تو وہ بولے کہ ان لوگوں کے پاس علم نہیں ہوتا، صرف ڈگری ہوتی ہے، علمی میدان میں پرانے زمانے کا گریجویٹ آج بھی ان سے کہیں زیادہ قوی ہے۔ 

ہم سے رہا نہیں گیا اور ہم نے پوچھ لیا کہ قبلہ آپ کے پاس کونسی ڈگری ہے، اصل میں یہیں پر ان کا احساس کمتری چھپا ہوا تھا، یہ سنتے ہی وہ بولے میں تو بیچلر آف لاء ہوں، البتہ میرے خاندان میں باقی سب کوئی ایم فل ہے، کوئی ایم ایل ایل ہے اور کوئی پی ایچ ڈی، پھر انہوں نے علم کی فضیلت پر لیکچر شروع کر دیا اور میں بھی یہیں سے سمجھ گیا کہ موصوف گریجویشن سے اوپر کی سطح سے حساس کیوں ہیں، میں نے پوچھا آپ کرتے کیا ہیں، وہ بولے اپنی کریانے دکان کھول رکھی ہے۔
 
یہ سنتے ہی میں نے پوچھا جناب خیر سے آپ کھاتے پیتے خاندان کے چشم و چراغ ہیں، کوئی خاص مالی مشکل بھی نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ گریجویشن تو آپ کی لاء میں ہے اور کھولی ہوئی آپ نے کریانے کی دکان ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کا جو شعبہ ہے آپ اس میں پارٹ ٹائم ہی پریکٹس کرتے رہتے اور بالکل ہی اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے جدا نہ ہوتے، یہ سنتے ہی انہوں نے رزق حلال کمانے کی اہمیت، تجارت کی برکات اور گریجویشن پر تعلیم کو ختم کرنے کے فلسفے پر ایسا لیکچر دیا کہ کئی مرتبہ مجھے بھی یہ خیال آیا کہ آگے تعلیم جاری رکھنے کے خیال کے بجائے کوئی دکان وغیرہ کھول لی جائے، جب وہ چلے گئے تو کافی دیر تک ہر طرف خاموشی چھائی رہی اور میں یہ سوچتا رہا کہ اب دکان کھولنے کیلئے قرض کس سے مانگوں۔

البتہ جب بعد میں ان کے دلائل کا خمار میرے دماغ سے اترا اور میری عقل ٹھکانے آئی تو مجھے احساس ہوا کہ ایک احساس کمتری میں مبتلا شخص کس طرح دوسروں کو ان کے راستے سے بھٹکاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد جب دوبارہ مقدّر کی دیوی مجھے کھینچ کر پروفیسر صاحب کے شکنجے میں لے گئی تو اس سے پہلے کہ پروفیسر صاحب مجھے اپنے پنجے میں دبوچ کر میرے اوپر اپنا لیکچر جھاڑتے، میں نے انہیں اپنی ساری روداد سنا دی۔ 

میرا قصہ سن کر وہ مسکرائے اور بولے کہ دیکھو سوشل سائنسزز کی آپس میں اس طرح سے نیٹ ورکنگ ہے کہ ایک علم کے تجربات کو دوسرے علوم کی لیبارٹریز میں پھر سے ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے اور ایک ہی وقت میں ایک مفروضے کے تجربے سے کئے طرح کے نتائج کو اخذ کیا جاسکتا ہے اور ایک ہی نقطے سے کئی طرح کے افکار تولید کئے جاسکتے ہیں۔ لہذا اب یہ جان لو کہ جس طرح ایک شخص نفسیاتی بیمار ہوتا ہے، اسی طرح ایک معاشرہ کی بھی نفسیات ہوتی ہے اور وہ بھی نفسیاتی طور پر بیمار ہوتا ہے۔

میں نے چونک کر کہا یعنی جس طرح ایک شخص احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے، اسی طرح ایک معاشرہ بھی احساس کمتری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ہاں ایک قوم، ایک محکمہ، ایک شعبہ، ایک ملک، ایک معاشرہ، کوئی بھی احساس کمتری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ مفروضہ بھی ہے، مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی، اب اسے سوشل سائنسز کی جس شاخ میں بھی لے جا کر پرکھو گئے ایک تو اسے صحیح پائو گئے اور دوسرے اس سے مزید علمی و عملی نکات اخذ کرو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور پھر بات پہنچی میری جوانی تک اور میں نے یہ یہ نظریہ بنا لیا ہے کہ معاشرتی اور ملکی مسائل کا خود تجزیہ و تحلیل کرکے لوگوں پر اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے بعد یہ مشق کرانی چاہیے کہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے وہ خود غور و فکر کریں اپنی رائے قائم کریں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان جس بحران کا مسلسل شکار ہے، وہ سیاسی بحران ہے۔ یعنی سیاسی بحران ہی بیک وقت پاکستان کا ملکی، قومی اور معاشرتی بحران ہے، اس بحران سے نجات اگر الیکشن سے ممکن ہوتی تو ہم نے اب تک کئی الیکشن کرائے ہیں، اگر ریفرنڈم سے ممکن ہوتی تو وہ بھی کروا چکے ہیں، اگر سیاستدانوں کی مارکٹائی اور اسیری ہوتی تو وہ بھی ہم کرچکے۔۔۔ ہم یہ سب کرچکے، لیکن ہمیں یہ سب کرنے کے باوجود سیاسی بحران سے نجات نہیں ملی۔

اگر ہم اس بحران سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی بنیادیں معلوم کرنی پڑیں گی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل اس بات پر دلیل ہے کہ سیاسی بحران کی بنیادیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی پڑچکی تھیں، نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 9 مئی 1958ء کو پٹواری عطاء محمد نے صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر خان صاحب کو لاہور میں قتل کر دیا۔ 5 دسمبر 1963ء کو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی لبنان کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کو ان کو زہر دیا گیا۔ 

ڈاکٹر نذیر احمد 8 جون 1972ء کو راجن پور میں قتل ہوئے۔ خواجہ رفیق کو بھی 20 دسمبر 1972ء کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اچکزئی قبیلے کے قوم پرست رہنما عبدالصمد اچکزئی 2 دسمبر 1973ء کو ایک بم کا نشانہ بنے۔ حیات محمد خان شیر پائو 8 فروری 1976ء کو دہشت گردی کی واردات میں مارے گئے۔ چوہدری ظہور الٰہی 25 ستمبر 1981ء کو لاہور میں بے رحم قاتلوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ فاضل راہو کو 7 جنوری 1987ء کو اپنے گائوں گولارچی سندھ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ رئیسانی قبیلے کے سردار غوث بخش رئیسانی 26 مئی کو کوئٹہ میں قتل ہوئے۔
 
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ عارف الحسینی 5 اگست 1988ء کو پشاور میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے عبوری سربراہ عظیم احمد طارق بھی اپنے گھر میں قتل کر دئیے گئے۔ حکیم محمد سعید 17 اکتوبر 1998ء میں کراچی میں قتل ہوئے۔ پاکستان سنی تحریک کی پوری قیادت کو 18 مئی 2001ء میں دہشت گردی کی واردات میں مار ڈالا گیا۔ عمر اصغر خان 25 جون 2002ء کو کراچی میں بند کمرے میں مردہ پائے گئے۔
 
سابق وزیر خارجہ صدیق خان کانجو 2001ء کو ملتان میں قتل ہوئے۔ نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006ء کو ایک آپریشن کے دوران غار میں دبا دئیے گئے۔ غلام حیدر وائیں 20 اکتوبر 1993ء میں اپنے حلقے میں مسلح افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ مرتضٰی بھٹو کو ان کی بہن کے وزارت عظمٰی کے دور میں 1996ء کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ 27دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کا قتل ہونا اس کے علاوہ آرمی کا بلاشرکت غیرے اقتدار کرنا، بنگال میں عوامی بغاوت کا ابھرنا، محترمہ فاطمہ جناح کاقتل ہونا، سیاسی انتخابات میں دھاندلیوں کا سہارا لینا، سیاستدانوں کو بلیک میل کرنا، آئینی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانا، ایک لمبے عرصے تک آئین و قانون کا معطل رہنا، مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کرنا، افغانستان کی آگ میں پاکستان کو دھکیلنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یہ سارے واقعات پاکستان میں سیاسی بحران پر دلالت کرتے ہیں اور یہ سیاسی بحران ہی ہے جس نے باقی تمام بحرانوں کو جنم دیا ہے ۔۔۔ مزے کی بات یہ ہے اور سوچنے و سمجھنے کا مقام یہ ہے کہ ان سارے واقعات میں آرمی کھلم کھلا ملوث نظر آتی ہے۔۔۔ تاریخ پاکستان کے سیاسی و عسکری حقائق کی جانچ پڑتال کرنے سے واضح طور پر یہ دکھائی دینے لگتا ہے کہ یوں تو فوج کو غیرسیاسی ادارہ کہا جاتا ہے، لیکن ملک میں سب سے زیادہ سیاسی کردار فوج کا ہی ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آرمی کا محکمہ سیاستدانوں کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہے، چنانچہ ہمارے ہاں آرمی کے جرنیل اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے کے بجائے سیاستدانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں، سیاستدانوں کی جاسوسی ان کے نزدیک کوئی جرم نہیں، لوگوں کو سیاستدانوں سے بدگمان کرنے کے لئے سیاستدانوں کے مالی اور جنسی اسکینڈلز سامنے لانا بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،نیز جمہوری حکومتوں کو گرانے کی نہ صرف سازشیں کرنا بلکہ ایوان اقتدار پر قبضہ جمالینا تو ان کے لئے چھوٹی موٹی بات ہے۔

اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لئے فوجی حلقے اپنا تمام تر زور سیاستدانوں کو بدعنوان اور کرپٹ بنا کر پیش کرنے میں لگاتے ہیں، جبکہ اگر جرنیلوں کی کرپشن سے پردہ اٹھایا جائے تو عوام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ اگر آپ صرف مشرف دور میں ہونے والی جرنیلی کرپشن کے چند مجمل نمونے ملاحظہ فرمائیں تو بھی آپ ہکا بکا رہ جائیں گے۔۔ اسی دورِ حکومت میں کچھ لوگ زمینوں اور پلاٹوں کے بادشاہ مانے جاتے تھے۔ 

میڈیا نے یہ راز بھی افشاء کیا کہ وہ ڈیفینس کی تمام ہاوسنگ سکیموں کے ایک پلاٹ پر چھ لاکھ روپے کا نذرانہ وصول کرتے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہیں سے ملک میں لینڈ مافیا کے تابناک کاروبار نے زور پکڑا اور اسلام اباد میں 74000 پلاٹوں کو بار بار فروخت کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ہمارا مقصد چونکہ کسی کو بدنام کرنا یا کیچڑ اچھالنا نہیں ہے، اس لئے ہم نے صرف آئینہ دکھانے کی خاطر ایک اشارہ کیا ہے۔

اب آئیے ملک و قوم کا اسّی فیصد بجٹ چٹ کر جانے والے ان جیالوں کے پیشہ وارانہ محاذ پر ان کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمائیں اور یہ دیکھیں کہ جب بھی ملک و قوم کو ان کی ضرورت پڑی تو انہوں نے کیا کیا گل کھلائے، بنگلہ دیش میں ضرورت پڑی تو اس وقت اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک کے نوّے ہزار فوجیوں نے ہندوستان کی آرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ 1965ء میں ضرورت پڑی تو پرویز مشرف کی طرح خود کو عقل ِکل نیز بہت بڑا سیاسی مفکر اور سیاستدان سمجھنے والے جنرل ایوب صاحب تاشقند میں مذاکرات کی میز پر شکست کھا کر آگئے۔
 
مسئلہ کشمیر پر ضرورت ہے تو ان کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے، کارگل کی چوٹیوں پر لڑائی شروع ہوئی تو ان کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے منتخب حکومت کو لتاڑ دیا، مسئلہ افغانستان پر ملک و قوم کی ضرورت پڑی تو انہوں نے سب کچھ اٹھا کر امریکہ کے قدموں میں رکھ دیا، سیاستدانوں کے مقابلے میں جرنیلوں کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جو فوجی بھی وردی اتارتا ہے، وہ اپنے آپ کو ایک سیاسی شخصیت کے طور پر منوانے کی کوشش کرنے لگتاہے، ملک کے سیاسی حالات پر تبصرے شروع کر دیتا ہے، سیاسی پارٹیاں تشکیل دینے لگتا ہے اور چیخنے لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی کردار ادا کرنے کے لئے فوج کو آئینی اختیارات دیے جائیں۔

حالانکہ سیاسی حالات کے خراب ہونے کی وجہ انہی جرنیلوں کی مداخلت ہے، اگر یہ احساس کمتری کے شکار نہ ہوں اور فوج کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ میدانِ سیاست کے بجائے فوج کی بیرکوں پر مرکوز کر دیں اور اپنی اور اپنے ماتحت جوانوں کی علمی و فکری سطح بلند کریں، تاکہ فوج سے سیاست کے مقابلے میں احساس کمتری نکلنے پائے، اگر انہیں تبصرے کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو سیاسی تبصرے کرنے کے بجائے فوجی حکمت عملی اور عسکری پالیسیوں کے حوالے سے بات کریں، اپنے فرائض منصبی تک محدود رہیں، نیز سیاستدانوں کو سیاست کرنے دیں تو حالات آج بھی بہتر ہوسکتے ہیں اور ملک تمام بحرانوں سے نجات پا سکتا ہے۔

اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستانی فوج آئینی طریقے سے سیاست میں آئے یا غیر آئینی طریقے سے، مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو میدانِ سیاست میں ٹکنے دیا جائے، علماء کرام کو بلیک میل کرنے سے گریز کیا جائے اور ملک میں اتحاد و وحدت کی فضا کو کچلنے کے لئے کالعدم اور دہشت گرد گروہوں کی مدد نہ کی جائے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 201408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

hamishaa ki taraah laajawaab likhaa haaa
ہماری پیشکش