0
Monday 8 Oct 2012 14:26

شام اور ترکی کے مابین تناؤ۔۔۔کس کے فائدے میں؟

شام اور ترکی کے مابین تناؤ۔۔۔کس کے فائدے میں؟
تحریر: ثاقب اکبر
  
گذشتہ بدھ 3 اکتوبر 2012ء کو ترک علاقے میں گرنے والے مارٹر گولوں کے نتیجے میں پانچ ترک شہری ہلاک ہوگئے تھے۔ ترکی نے اس کا الزام شامی حکومت پر عائد کیا، جبکہ شام نے اس واقعے پر اظہار افسوس کیا ہے اور ہلاک شدگان کے خاندانوں کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے۔ شام نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کروائے گا۔ اس واقعے کے بعد ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک فوج نے جوابی کارروائی کے عنوان سے گذشتہ جمعہ 5 اکتوبر 2012ء کو جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ 

یاد رہے کہ بدھ کا واقعہ ترکی کے صوبہ باتے کے علاقے اکساکیل میں پیش آیا، جو ملک کے جنوب میں واقع ہے۔ اس سے پہلے ترک پارلیمان سے حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر ایک قرارداد منظور کروائی جس میں فوج کو شام کے خلاف اس کی سرزمین کے اندر زمینی اور فضائی فوجی کارروائی کی ایک سال کے لیے اجازت دی گئی ہے۔ 530 کے ایوان میں 320 اراکین نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ یہ اراکین برسراقتدار پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بدھ 3 اکتوبر کے واقعے میں ایک دکاندار اور اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے۔
 
مذکورہ واقعے کے بعد شام اور ترکی کے مابین تناؤ میں بہت اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم یہ تناؤ ترکی کی طرف سے یا بشار الاسد کے مخالف عالمی اداروں یا حکومتوں کی طرف سے یکطرفہ معلوم ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف نہایت سخت الفاظ پر مبنی ایک قرارداد پیش کی گئی، جسے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن روس نے اس قرارداد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد قرارداد میں ترمیم کرنا پڑی اور متن سے عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بات نکالنے اور صرف شام کی مذمت کے بجائے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے الفاظ شامل کرنا پڑے۔

نیٹو کے فوجی اتحاد کا ترکی بھی ایک رکن ہے۔ نیٹو کے ترجمان کے مطابق اتحاد کے سیکرٹری جنرل نے ترک وزیر خارجہ کو بتایا کہ وہ اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور وہ خطے میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آندریس راسموسین بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ نیٹو شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، لیکن ضرورت پڑنے پر ترکی کے دفاع کے لیے تیار ہے۔ یاد رہے کہ غزہ کے عوام کی امداد کے لیے جب ترکی سے جانے والے نہتے امدادی کاروان پر اسرائیل کی فوج نے بین الاقوامی علاقے میں آ کر حملہ کیا تو اس کے نتیجے میں 9ت رک امدادی کارکن شہید ہو گئے تھے۔ اس وقت نہ سلامتی کونسل نے اسرائیل کی شدید مذمت کی اور نہ نیٹو نے ترکی کے دفاع کی کوئی بات کی۔ 

موجودہ کشمکش کے حوالے سے چین نے بھی دونوں ملکوں سے تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے پرہیز کیا جائے، جن سے اختلافات کو بڑھاوا ملے۔ یہی نقطہ نظر ترکی کے ہمسایہ ایران نے بھی اختیار کیا ہے۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ اور روحانی پیشوا کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ دونوں کو غور کرنا چاہیے کہ جنگ میں کس کا مفاد ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ہوشیار رہیں کہ امریکہ اس تناؤ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
 
یہی بات ایک امریکی دانشور ویسٹر گریفین ٹارپلی نے بھی کہی ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ شام اور ترکی کے مابین فوجی تصادم پر سب سے زیادہ خوش امریکہ ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہیلری کلنٹن نے ترک وزیر خارجہ داؤد اوغلو کو ٹیلی فون کرکے یہ نہیں کہا کہ حالات کو بہتر بنائیں اور امن قائم کریں، بلکہ یہ کہا ہے کہ اپنے حقوق کا دفاع کریں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے یہ بات ترکی سے اس وقت نہیں کہی جب اسرائیل نے اس کے نہتے افراد کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا۔ 

یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکی شام کے خلاف جنگ نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمان کی جانب سے دی گئی اجازت صرف خبردار کرنے کے لیے ہے۔ دوسری طرف ترکی کے مختلف شہروں میں عوام نے شام کے ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ کے خلاف بھرپور مظاہرے کیے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ جمعرات کو ہی ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں تقسیم سکوائر میں ہزاروں افراد نے ایک جنگ مخالف مظاہرے میں شرکت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ’’جنگ منظور نہیں، امن چاہیے اور ہم سرمایہ دارانہ نظام کے فوجی نہیں بنیں گے۔‘‘
 
استنبول کے علاوہ دارالحکومت انقرہ، ازمین، مرسن، اسکیسہر اور دیگر قصبوں اور چھوٹے شہروں سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ رجب طیب اردگان استعماری جنگ کو شام میں داخل کر رہے ہیں اور انھوں نے امریکہ کے خلاف نعرے بلند کیے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ترکی کے 82 فیصد عوام اس جنگ کے حامی نہیں ہیں۔ ترکی کی پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث بھی خاصی گرما گرم رہی۔ اگرچہ یہ بحث بند کمرے میں ہوئی، لیکن اس کی تفصیلات اب باہر آچکی ہیں۔
 
حکومتی رکن نورالدین جان ایمیلی جو حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے قرارداد کی مخالفت کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم اسد کے حامی ہو یا ترکی کے۔ اس کے جواب میں حزب مخالف کے رکن محرم اینجہ نے کہا کہ حقیقت میں تم سے پوچھنا چاہیے کے تم ترکی کے حامی ہو یا اوباما کے۔ حزب مخالف نے بند کمرے میں اجلاس پر بھی تنقید کی اور کہا کہ تم جس جنگ کی اجازت اس پارلیمان سے حاصل کرنا چاہتے ہو، اس میں تمھارے بچوں نے قربانی دینی ہے یا ترک عوام نے؟ انھوں نے کہا کہ جنھوں نے قربانیاں دینی ہیں، ان سے یہ بات کیوں چھپانا چاہتے ہو۔
 
موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شام کے اندر جاری حکومت مخالف تحریک اور دہشت گردی کی ماہیت اور اس میں ترکی کے کردار کو سامنے رکھا جائے۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ ترکی اس مسئلے میں اسرائیل، امریکہ، نیٹو اور سعودی عرب کے موقف کی نہ فقط حمایت کر  رہا ہے، بلکہ وہ اس سارے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ ترکی غیر جانبدار ہوتا تو ترک عوام کا ردعمل کچھ اور ہوتا، لیکن ترکی شام کے اندر حکومت مخالف جدوجہد کا ایک حصے دار ہے۔ 

چاہیے تو یہ تھا کہ ترکی اس مسئلے میں کم ازکم غیر جانبدار رہتا۔ شمالی افریقا اور مشرق وسطٰی میں جاری بیداری اسلامی یا عرب بہار کی تحریکوں میں ترکی کا موقف مختلف ملکوں کے حوالے سے خاصا مختلف رہا ہے۔ زیر بحث واقعے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شام کے ایک تجزیہ نگار حربا نے اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں ترکی سے آنے والے دہشت گرد ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب دوسرا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام کے سرحدی محافظین پر ترکی کی طرف سے وہاں پر موجود دہشت گرد حملے کرتے رہے ہیں۔ 

امریکی دانشور ویسٹر گریفین ٹارپلی نے کہا کہ شام کی تمام تر شورش جعلی ہے۔ اس شورش کا منصوبہ باہر بنا ہے۔ شام میں موجود دہشت گرد گروہوں کو وہاں نیٹو نے داخل کیا ہے۔ نیٹو نے لیبیا سے ہوائی جہاز کے ذریعے انھیں شام کے ہمسایہ ملکوں میں منتقل کیا اور پھر وہاں سے انھیں شام میں داخل کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی آئی اے کے افسر اور امریکہ کی مشترکہ جنگی کمان کے فوجی ترکی کے جنوب میں موجود ہیں اور وہی شام میں آنے والوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔
 
ترکی کے جنوبی شہر اسکندرون میں شامی سرحد کے نزدیک نیٹو کا ایک اڈہ موجود ہے۔ ترکی میں نیٹو کے فضائی اڈے اینچرلیک کے نزدیک ایک جگہ آدانا ہے۔ یہیں پر شام کے مخالف دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں شمالی افریقہ،مشرق وسطیٰ، پاکستان، چیچنیا اور صومالیہ سے افراد لائے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اب شام میں سرگرم ہیں۔ پریس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض رپورٹوں کے مطابق بعض افراد نے فرانس میں بھی تربیت پائی ہے، محمد میراہ جیسے افراد انہی میں شامل ہیں۔
 
انھوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ مسئلہ اسلامی و غیر اسلامی کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جسے شام کی آزاد فوج کہا جاتا ہے، اس میں باقاعدہ طور پر القاعدہ، سلفی، سعودی اور دیگر شامل ہیں۔ شام کے اندر 300 گروہ لڑ رہے ہیں۔ شام کی قومی مجلس کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیٹو کی خواہش ہے کہ شام برباد ہو جائے اور ممکنہ طور پر ترکی پر بھی شدید ضرب لگے۔
 
اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو نہایت احتیاط اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، وہ شام کے دوست ہیں نہ ترکی کے، بلکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ترکی کو چاہیے کہ وہ نیٹو کو ترک کر دے، جس نے اس کی سرزمین پر اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔
 
امریکہ اور نیٹو کے دیگر اتحادیوں کی منافقت ہے کہ وہ ترکی سے فوجی مقاصد کے لیے تو کام لیتے ہیں، لیکن اسے یورپی یونین کا حصہ نہیں بناتے۔ کئی دہائیوں سے ترکی کی حکومتیں یورپی یونین کی رکنیت کے جھوٹے خواب میں مبتلا ہیں، انھیں عوام کو سچ سچ بتانا چاہیے اور آج ان کے عوام کا جو موقف ہے، اس کی ترجمانی کرنا چاہیے اور استعماری مقاصد کو پورا کرنے والی جنگوں اور دہشت گردیوں سے الگ رہنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 201881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش