QR CodeQR Code

اگلی باری کس کی بیٹی ہے؟

10 Oct 2012 19:37

اسلام ٹائمز: برسوں سے ہم اس گروہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا پیغام بھی اربابِ اختیار کو مسلسل پہنچاتے رہے ہیں کہ خدارا اس شیطانی آنت کو قابو کیا جائے ورنہ ہم تو قربان ہوتے ہی آئے ہیں، یہ کسی کو بھی بخشنے والی نہیں۔ لیکن ہمیشہ ہی معنی خیز خاموشی، ٹال مٹول، اوں، آں، آئیں، بائیں، شائیں، اگرچہ، چونکہ، چنانچہ، تاہم ، لیکن، اور ۔۔۔۔ سے زیادہ کچھ بھی سننے کو نہ ملا۔


تحریر: سید قمر رضوی

فوج، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدلیہ، جاسوسی ادارے، دفاتر، بازار، مساجد، امام بارگاہیں، گرجے، مندر و دیگر عبادت گاہیں، درس گاہیں، درگاہیں، راہداریاں، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ۔۔۔ اور ان مقامات پر چلتے پھرتے وہ انسان جو ٹھہرے خدا کا مان۔۔۔۔ چاہے ان انسانوں کا تعلق کسی مذہب، گروہ، زبان یا قبیلے سے ہو انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں کیونکہ چلتے پھرتے یہ انسان اس شیطان کو پسند نہیں جو خدا، اسکے دین، علم، عقل اور حق کے متلاشی انسانوں کا ازلی دشمن ہے۔ اس بدقسمت ملک پر اس شیطانی پنجے کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مذکورہ بالا طبقات کا خون پی کر بھی اس عفریت کی پیاس نہیں بجھی اور اب معصوم بچیوں تک پر اسکی نجس نظر ہے۔

اس موضوع پر اتنی گفتگو ہوئی ہے اور اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب نہ تو کچھ لکھنے کی گنجائش باقی رہی ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں اب اتنی سکت باقی رہی ہے۔ اب بھی پوری دنیا میں ایک ہی بات موضوعِ بحث ہے کہ کل سوات میں ہوا کیا؟ کل صبح سے اب تک مایوسی اور گھبراہٹ کے ایسے بادل چھائے ہوئے ہیں جو چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ برسوں سے ہم اس گروہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا پیغام بھی اربابِ اختیار کو مسلسل پہنچاتے رہے ہیں کہ خدارا اس شیطانی آنت کو قابو کیا جائے ورنہ ہم تو قربان ہوتے ہی آئے ہیں، یہ کسی کو بھی بخشنے والی نہیں۔ لیکن ہمیشہ ہی معنی خیز خاموشی، ٹال مٹول، اوں، آں، آئیں، بائیں، شائیں، اگرچہ، چونکہ، چنانچہ، تاہم ، لیکن، اور ۔۔۔۔ سے زیادہ کچھ بھی سننے کو نہ ملا۔

گرفتاریوں کی نویدیں سنائی جاتی رہیں،

کمیٹیاں تشکیل ہوتی رہیں،

انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا رہا،

قرار واقعی اور عبرت ناک سزاؤں کی لوریاں دی جاتی رہیں۔ لیکن ہوا کیا؟

گرفتاریاں تو ہوئیں، کمیٹیوں نے رپورٹیں بھی مرتب کرلیں، انصاف کے کٹہرے تک بھی پہنچادیا گیا لیکن قرار واقعی سزا کے لئے کبھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس لئے باعزت بریئت اور مزید دہشت کی اجازت۔ واہ رے میرے اجداد کی تمناؤں کے ثمر! تیرا نظام۔۔۔ ایک سوالیہ نشان!

کیا اب بھی کسی ٹھوس ثبوت کی ضرورت باقی ہے؟ کیا اب بھی اس مجرمانہ سوال جواب کی گنجائش ہے کہ ایسے قبیح فعل انجام دینے والے مسلمان ہیں یا نہیں؟ ثبوتوں کے انتظار اور اس سوال کی کھوج میں رہنے والوں کے لئے عرٖض ہے کہ ابھی تو ایک ملالہ نشانہ بنی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔

یہ سلسلہ نہ رکے گا، تاوقت یہ کہ اس ملک کے سو فیصد عوام تمام تر ہمدردیاں پسِ پشت ڈال کر اپنے ذہن صاف کرکے اس دہشت گرد ٹولے (نام کوئی بھی ہو) کے خلاف اکٹھے نہیں ہوجاتے اور اربابِ اختیار چوڑیاں نہیں اتار دیتے۔ وگرنہ منتظر رہیئے کہ کب آپکی بیٹی کی باری ہو۔ 

آخر میں محترم دوست عطا تراب کی ایک نظم پیش ہے۔ 

فقط پتوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت ہے 

کسی کوئل کی کُوکُو بھی غنا کے ذیل میں ہے

اور خوشبو کا کسی جھونکے کی انگلی تھام کر چلنا نہیں جائز

کہ جھونکے غیر محرم ہیں

وگرنہ ہم تمہاری پشت پہ درے لگائیں گے

ہوا اٹکھیلیاں مت کر!

کہ شاخیں جھومتی ہیں تو چمن میں رقص کی بنیاد پڑتی ہے

بجائے رقص کے طاؤس کو مرغِ مقدس سے

اذانیں سیکھنا ہوں گی

یہاں ہر سر کشیدہ سرو کو اب سر جھکانا ہوگا

ورنہ ہم اسے پھانسی سزا دیں گے

خدایا!

کنکروں والی ابابیلوں کو جلدی بھیج



خبر کا کوڈ: 202567

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/202567/اگلی-باری-کس-کی-بیٹی-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org