0
Tuesday 30 Oct 2012 15:47

ایران کے خلاف عالمی استکباری قوتوں کی سرگرمیوں میں اضافہ

ایران کے خلاف عالمی استکباری قوتوں کی سرگرمیوں میں اضافہ
تحریر: حسام الدین برومند

اسلام ٹائمز- گذشتہ کچھ مدت کے دوران عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اکتوبر 2012 کے مہینے میں عالمی استکباری قوتوں نے ایک طے شدہ سازش کے تحت ایران کے خلاف سرگرمیوں کو آپس میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ تقسیم بندی مختلف پہلووں کو مدنظر رکھ کر انجام دی گئی ہے اور ایک پزل کی صورت میں ڈیزائن کی گئی ہے تاکہ آئندہ چند مہینوں میں جب ایران میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہو گی تو اس سے حداکثر فائدہ اٹھایا جا سکے۔

اس گہری سازش کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس پزل کے تمام حصوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اسکے پس پردہ عوامل کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف انجام پانے والے بعض اقدامات کو بیان کرتے ہوئے عالمی استکباری قوتوں کی جانب سے ایران کے خلاف ان دشمنانہ سرگرمیوں کی وجوہات پر روشنی ڈالی جائے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف انجام پانے والے بعض اقدامات درج ذیل ہیں:

1. اسرائیل کی جانب سے تہران میں بدامنی پھیلانے کی کوشش جسکا وعدہ اسرائیلی وزیرخارجہ لیبرمین اسرائیلی روزنامے ہارٹز کو دے چکا تھا۔ اسرائیلی وزیرخارجہ کے انٹرویو کے چند روز بعد ہی بعض شرپسند عناصر کی طرف سے تہران کے مین بازار میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دکانوں کو زبردستی بند کروایا گیا اور دوسری طرف سڑک کے کنارے نصب شدہ کئی ڈسٹ بن بھی نذر آتش کر دی گئیں۔

2. امریکی میڈیا نے زور و شور سے یہ پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ ایک ایرانی نژاد امریکی شہری منصور ارباب نے اپنے اوپر لگائے گئے ان الزامات کا اعتراف کر لیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ میں سعودی سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد ایران پر امریکہ میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کا الزام لگانا تھا۔

3. ایران فوبیا کی اس کوشش اور دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کا امیج خراب کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی امریکی وزارت خارجہ نے ایران کے خلاف ایک اور دعوی کرتے ہوئے ایران میں موجود القاعدہ کے حامی افراد کی گرفتاری پر 12 میلین ڈالر کے انعام کا اعلان کر دیا۔

4. ایران کے خلاف الزام تراشی، دہشت گردانہ اقدامات کے جھوٹے دعووں اور اقتصادی پابندیوں میں مزید سختی میں جو کمی رہ گئی تھی اسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق رپورٹر احمد شہید کی تیسری رپورٹ نے پورا کر دیا۔ احمد شہید نے اپنی رپورٹ میں ایران کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جھوٹے الزامات بھی شائع کر دیئے۔

5. یورپ کی سیٹلائٹ پرووائڈر کمپنی یوٹل سیٹ نے آزادی اظہار جیسے اصول کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے تمام ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر پابندی عائد کر دی اور انہیں نشر کرنا بند کر دیا۔

6. مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف ایک اور پراپیگنڈہ مہم شروع کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ایران اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ اس پراپیگنڈے میں نیویارک ٹائمز، روئٹرز اور اشپگل آگے آگے تھے۔ انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں موقف نرم کر دیا ہے۔

7. اسرائیلی صدر شیمون پرز نے چند روز قبل مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایران میں ہونے والی بدامنی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

8. ایران کے خلاف آخری دشمنانہ اقدام چابہار میں دہشت گردانہ بم حملہ تھا جس کا واحد ھدف ایران میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنا تھا۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انجام پانے والے یہ اقدامات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کے خلاف سرگرم مغربی – عبری فرنٹ ایران کو منزوی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استکباری قوتوں کی جانب سے اس گہری سازش اور مرحلہ وار دشمنانہ اقدامات کا اصلی ہدف کیا ہے؟ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ان معاندانہ اقدامات میں امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک میں پائی جانی والی ہماہنگی ایک محض اتفاق ہے؟

ان سوالات کا جواب دینے کیلئے اور موجودہ صورتحال میں استکباری قوتوں کی سازشوں اور ایران کے خلاف دشمنانہ کاروائیوں کو سمجھنے کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے۔
1. ایران کے خلاف یہ دشمنانہ سرگرمیاں دو سطح پر انجام پا رہی ہیں۔ ایک اندرونی اور دوسری بیرونی سطح پر۔ اندرونی سطح پر عالمی استکباری قوتیں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اقتصادی پابندیاں لگانے اور مختلف بہانوں سے انکی شدت میں اضافہ کر کے ایران کے خلاف اقتصادی جنگ کا آغاز کر دیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دشمن تین اطراف یعنی امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل کی مدد سے اقتصادی پابندیوں کی شدت میں اضافہ کر کے ایران کے اندر عوامی احتجاج اور اعتراض کو ہوا دینے اور انہیں بدامنی اور تشدد کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

عالمی سطح پر مغربی ممالک کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ ایک طرف ایران کے جوہری پروگرام اور ایران میں موجود انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایران پر دباو بڑھایا جائے اور دوسری طرف ایران پر دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث ہونے کے جھوٹے الزامات کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اس کا امیج خراب کرنے کی کوشش کرے۔ عالمی استکباری قوتوں کی سب سے زیادہ توانائی اس زمرے میں صرف ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا پیغام جو انتہائی مستحکم منطق اور استدلال پر استوار ہے دنیا میں بسنے والے افراد تک نہ پہنچ سکے۔ ہاٹ برڈ سیٹلائٹ کے ذریعے نشر ہونے والے ایرانی ٹی وی چینلز پر پابندی اسی سلسلے کی ایک کڑی جانی جاتی ہے۔

2. مغربی – عبری فرنٹ کی جانب سے انجام پانے والے دشمنانہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایران کے اندر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا خطرناک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس خطرناک منصوبے میں امریکہ، اسرائیل اور بعض یورپی ممالک ملوث ہیں۔ یہ استکباری قوتیں اس خطرناک سازش کے ذریعے اپنے اصلی اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان قوتوں کے اصلی اہداف کیا ہیں؟
اس سوال کا جواب جاننے کیلئے اسرائیل کی موجودہ تباہ کن صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کے اتنہائی اہم اور معتبر اسٹریٹجک اور تحقیقاتی اداروں کی جانب سے اسرائیل کی عنقریب نابودی سے متعلق واضح اور دوٹوک پیش بینیاں سامنے آ رہی ہیں؟ اس سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ مفادات ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ امریکی محققین کی جانب سے اسرائیل کی تیزی سے قریب آتی ہوئی نابودی اور زوال کے بارے میں اظہار نظر سامنے آ سکے اور اسرائیل کے خاتمے سے متعلق اخبار میڈیا تک پہنچ سکیں کیونکہ اسرائیل کی بقا امریکہ کیلئے انتہائی اسٹریٹجک حیثیت کی حامل ہے اور اسکی نابودی امریکی حکام کے نزدیک ریڈ لائن تصور کی جاتی ہے۔

لیکن آج صورتحال اس حد تک جا پہنچی ہے کہ ہنری کیسنجر جیسے امریکی تجزیہ نگار یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگلے 10 سال تک اسرائیل نام کی کوئی چیز دنیا کے نقشے پر دکھائی نہیں دے گی۔ یا المحیط جیسے بعض عرب ذرائع ابلاغ امریکی انٹلی جنس ایجنسیز کے توسط سے یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود صرف 2025ء تک ہی ممکن ہے اور اسکے زوال اور نابودی کا آغاز ہو چکا ہے۔

3. گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اسرائیلی حکام کا تین بار میڈیا پر آ کر اس بات کا اعلان کرنا کہ ایران میں بدامنی اور بغاوت پھیل چکی ہے اور بہت جلد ایرانی حکومت سرنگون ہونے والی ہے ظاہر کرتا ہے کہ وہ انتہائی سنجیدہ قسم کی مشکلات کا شکار ہیں اور ایران کی سرکردگی میں خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک سے حد درجہ خوفزدہ ہیں اور ایک ایسی حکومت جو کسی زمانے میں نیل سے فرات تک کی سرزمین پر اپنی ملکیت کی دعویدار تھی اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی امواج اسکے زوال اور نابودی کا باعث بن رہی ہیں۔

لہذا اگر چند روز قبل اسرائیلی روزنامہ "ٹائمز اسرائیل" اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ شیمون پرز نے ایرانی عوام کے بارے میں کہا ہے کہ "ایرانی عوام کو اس بات کی ترغیب و تشویق دلانی چاہئے کہ وہ اپنی حکومت کا تختہ الٹ دیں" تو اسکی وجہ صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور اقتدار کے سبب اسکا خوف اور وحشت ہے۔ اسرائیلی صدر کا یہ بیان ایران کی سافٹ پاور کو ظاہر کرتا ہے۔ شیمون پرز نے چند روز قبل امریکی وزیر دفاع سے اپنی ملاقات میں بھی اس نکتے پر تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمیں ایران کو اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ مشرق وسطی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے"۔

4. آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ایران دشمن قوتیں اسرائیل، یورپی ممالک اور امریکہ جیسی منحوس مثلث کی مدد سے جتنی چاہیں سازشیں کر لیں اور جتنے چاہیں منصوبے بنا لیں اسکا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور وہ ایران کا ایک بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ اس وقت جب ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں، جنگ کی دھمکیاں، سیاسی دباو، انسانی حقوق سے متعلق جھوٹا پراپیگنڈہ اور اقتصادی حملے اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں لیکن یہ دشمن قوتیں ایک بار پھر اپنے حساب کتاب میں غلطی کا شکار ہوئی ہیں اور مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔

اس ناکامی کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اسرائیل ٹی وی سے شائع کردہ رپورٹ میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ چند ہفتے قبل حزب اللہ لبنان کے ایرانی ساختہ ڈرون کا اسرائیل کے مرکز تک گھس جانے کے بعد اسرائیل ٹی وی کے چینل 10 نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا:
"اسرائیل آرمی بری طرح ناکامی کا شکار ہوئی ہے اور بشدت سراسیمہ ہے"۔

اسی طرح اسرائیل کے ایک معروف فوجی تجزیہ نگار اور ہیلر نے اسرائیل ٹی وی کے چینل 10 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
"یہ ایک بہت بڑی شکست اور ناکامی تھی اور ایئر فورس اور آرمی انٹلی جنس نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ اس ڈرون کی تصاویر اور اسکے مختلف حصوں کے فوٹوز شائع نہ کئے جائیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ حزب اللہ لبنان کو اس ڈرون سے متعلق ہماری معلومات کی حد کا علم ہو جائے۔ ان تصاویر کو سنسر کرنے سے اسرائیل آرمی کی اس شکست کا ازالہ نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایئر فورس بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور اسے چاہئے اپنے نقائص کا بغور جائزہ لے کیونکہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے بھیجے گئے ڈرونز کی آدھی تعداد کا ہمیں علم نہیں ہو سکا"۔

لہذا اگر دشمن کی جانب سے ایران میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی تمام کوششوں کا مقصد اسرائیل کو نابود ہونے سے بچانا ہو تو اسے جان لینا چاہئے کہ اسکی یہ تمام کوششیں بے فائدہ ہیں کیونکہ حزب اللہ لبنان اور ایران کی جانب سے انجام پانے والا ایک اقدام انکی ساری محنت پر پانی پھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گذشتہ سال اسلامی جمہوریہ ایران نے دشمن ممالک کی جانب سے شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کی حالت میں اور جب جنگ کی دھمکیاں اپنے عروج پر تھیں امریکی جاسوسی طیارے RQ-170 کا کنٹرول کامیابی سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے لینڈ کروا کر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

آج اگر جناب اوباما اور شیمون پرز سے پوچھا جائے کہ "ڈرون" کا لفظ آپ کو کس چیز کی یاد دلاتا ہے؟ کیا آپ اپنے ذہن میں آنے والے تصورات کو بھی سنسر کر سکتے ہیں؟
خبر کا کوڈ : 205631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش