0
Tuesday 23 Oct 2012 20:23

اخوان المسلمین عالمی خطرہ (1)

اخوان المسلمین عالمی خطرہ (1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
مندرجہ بالا عنوان میرا نہیں بلکہ امریکی تعلیمی ادارے ہلز ڈیل کالج کے ایلن پی کربی سنٹر میں دیئے گئے ایک ماہانہ لیکچر کا ہے۔ یہ لیکچر امریکی ادارے نیشنل رویو انسٹیٹیوٹ کے سینیئر ممبر اینڈریو سی میکارتھی نے 7 اکتوبر 2011ء کو دیا۔ اینڈریو میکارتھی گزشتہ 18سال سے نیشنل رویو انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس سے قبل اینڈریو، یو ایس اٹارنی کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1993-1995ء تک اینڈریو نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر دھماکوں میں ملوث شیخ عمر عبد الرحمن اور دیگر 11افراد کی تفتیش کی سربراہی کی۔ 9/11 کے بعد اینڈریو گراﺅنڈ زیرو جو ٹوئن ٹاور پر بنایا گیا ہے، میں قائم ایک کمانڈ پوسٹ میں وزارت انصاف کی جانب سے متعین رہے۔ اینڈریو ڈپٹی سیکریٹری ڈیفنس کے خصوصی معاون کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ فاردھم یونیورسٹی کے شعبہ لاء اور نیویارک کے لاء اسکول میں پروفیسر کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ میکارتھی اخبارات اور جرائد کے لیے اکثر و بیشتر لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں ” گرینڈ جہاد“ امریکہ میں بہت مقبول ہوئی۔

ہلز ڈیل کالج میں ماہانہ لیکچرز کا یہ سلسلہ 2008ء سے جاری ہے۔ ان لیکچرز میں میکارتھی کی سطح کے افراد یونیورسٹی طلبہ اور عام عوام کو مختلف موضوعات جن میں معیشت، سیاست، تاریخ اور اسلام قابل ذکر ہیں، پر اپنی آراء سے مستفید کرتے ہیں۔ یہ لیکچرز نہ صرف یونیورسٹی میں موجود حاضرین کو سنائے جاتے ہیں بلکہ ویب کے ذریعے ان لیکچرز تک عام عوام تک رسائی کا بھی اہتمام ہے۔ اس طرح کے لیکچرز ہلز ڈیل کالج سے ہی مخصوص نہیں، امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی کئی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں متنوع موضوعات پر عوامی لیکچرز ہوتے ہیں، جن میں حیرت انگیز حد تک اسلام اور اس سے متعلق موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا موضوع اتنا دلچسپ یا خطرناک تھا کہ اس نے مجھے یہ لیکچر سننے پر مجبور کیا، یہ لیکچر سننے سے قبل میں نے ایک اور امریکی اسکالر کا ”آزادی اظہار اور مقدسات کی گستاخی“ کے عنوان پر ہلز ڈیل کالج میں دیا جانے والا لیکچر سنا۔ لیکچر سننے اور اس کو گوگل پر تلاش کرنے کا مقصد یہی تھا کہ امریکہ کے دانشور طبقے کی آراء کو جانا جائے اور توہین رسالت (ص) کی وجوہات، اسباب اور اس کے پس پردہ حقائق کا اندازہ لگایا جائے۔ لیکچر سننے کے بعد تو جیسے مجھ پر ایک نئی دنیا منکشف ہو گئی۔ مجھے سوشل میڈیا پر اکثر مغرب کے باسیوں سے بحث کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ان سے جب بھی اسلام کے بارے میں بات کی گئی تو نفرت کے سوا کوئی اور جذبہ نظر نہ آیا۔ چیٹ کے دوران مقدسات دین اسلام کی توہین تو اپنی جگہ، وہ لوگ اسلام سے اظہار نفرت کے لیے اکثر و بیشتر مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن کی آیات اور روایات کا حوالہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گزشتہ ماہ ایک یہودی خاتون سے گفتگو کے دوران، خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ تم مسلمان یہودیوں کو بندر اور سور کیوں کہتے ہو؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ خاتون کن مسلمانوں کی بات کر رہی ہے۔ میں نے اس خاتون کو جواب دیا کہ مسلمانوں کا ایسا کوئی نظریہ نہیں۔ جس پر اس نے مجھے قرآن کی چند آیات کا انگریزی ترجمہ بھیجا، جس میں اہل کتاب کے مسخ ہونے اور بندر یا سور بننے کا ذکر تھا۔ یہودی خاتون نے کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو کہ تمھیں اپنے قرآن میں موجود آیات کا ہی علم نہیں۔ میں نے اس خاتون کو دلائل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس آیت سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو خدا کی نافرمانی کرتے تھے، تاہم وہ ماننے کو تیار ہی نہ تھی اور مجھے بار بار جھوٹا اور دروغ گو کہ رہی تھی۔ اس چیٹ کے دوران کئی نوجوان جن میں اکثریت کا تعلق مغرب سے تھا، بھی مجھ پر سوالات کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔

مجھے اسلام سے اس بے انتہا نفرت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی، تاہم جب سے میں نے مندرجہ بالا دو لیکچرز سنے تو مجھ پر واضح ہوگیا کہ اس نفرت کا محور و مرکز کیا ہے۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ امریکی اور یورپی ممالک کے نوجوان جو اسلام کے بارے میں نفرت آمیز جذبات اور احساسات رکھتے ہیں، اسی قسم کے علمی جلسوں اور محافل سے متاثر ہیں۔ میں مزید کسی تمہید کے بغیر آپ کو اینڈریو سی میکارتھی کے خطاب کے چند اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ اخوان المسلمین اور اسی قسم کی دیگر مسلمان جماعتیں دنیا کے لیے کس طرح خطرے کا باعث ہیں۔ 

اینڈریو میکارتھی کہتے ہیں:
ایک صدی قبل یعنی 1920ء میں مسلم دنیا میں مستقبل کے بارے میں دو قسم کے تصورات منظر عام پر آئے۔ پہلے تصور کا علمبردار مصطفٰی کمال ہے، جسے ہم اتاترک کے نام سے جانتے ہیں۔ اتاترک نے جنگ عظیم دوئم کے بعد اپنے اردگرد پھیلی ہوئی تباہی کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوچکی ہے اور اس کی جگہ مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے لے لی ہے۔ اتاترک ان حالات پر غور و فکر کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا کہ ترکی کو جدید دنیا، مغرب اور اس کی روشن فکری کو قبول کرنا ہوگا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا کرنے کے لیے اسے معاشرے کو اسلام سے پاک کرنا ہوگا۔ اس پاک کرنے سے مراد اسلام کو مکمل طور پر ختم کرنا نہیں، بلکہ شہری زندگی سے اس کا خاتمہ ہے۔

اس کے لیے اتاترک نے ضروری سمجھا کہ مغرب کی طرح مسجد اور ریاست کو الگ کیا جائے۔ وہ مسلمان تھا اور جانتا تھا کہ ایسا کرنا آسان نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اسلام صرف ایک دین ہی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سماجی نظام بھی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس دین کی تعلیمات معاشرے کو اس انداز سے منظم کرتی ہیں کہ اس پر حکومت کر سکیں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دین اسلام کسی اور نظام کے زیر تسلط نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ ایران اور سنی سعودیہ میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہے۔ شریعت ملک کا نظام چلانے سے لے کر انفرادی زندگی تک کے قوانین پر مشتمل ہے۔ اتاترک جانتا تھا کہ اسلام کو عوام کے اذہان سے نکال کر ایک روحانی کیبن میں بند کرنے کے لیے بہت محنت درکار ہے۔ وہ ایک ثقافت ہی نہیں ایک تہذیب کے احیاء کا علمبردار تھا۔

پس اسلامی فکر سے نبرد آزما ہونے کے لیے اتاترک اور اس کی حکومت میں شامل افراد نے انتہائی سخت اقدامات کیے۔ اتاترک جانتا تھا کہ اسلام میں اس قدر جدت پذیری اور برداشت نہیں ہے کہ اس تبدیلی کو برداشت کر سکے، پس معاشرے کو دوبارہ سے تشکیل دینے کے لیے اتاترک انتہائی درجے تک گیا۔ حکومت نے اسی ہزار مساجد کا کنڑول اپنے قبضے میں لے لیا، مساجد میں اماموں کو خطبے حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے، اوقاف کا نظام حکومت نے اپنے کنڑول میں لے لیا۔ اتاترک نے اس بات کو جانتے ہوئے کہ اسے ہمیشہ نہیں رہنا، ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جس کے تحت اسلام کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ اتاترک نے مذہبی آزادی کے بجائے مذہب سے آزادی کا نظام قائم کیا اور شریعت کو قانون اور سماجی پالیسی کے لیے شجرہ ممنوعہ قرار دے دیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک ایسی فوج مرتب کی جو سیکولزم کی حفاظت کا حلف لیتی ہے۔ اس فوج کا کام بیرونی دشمنوں کے خلاف دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر اسلامی شریعت کے خلاف بھی بر سر پیکار رہنا ہے۔
 
اینڈریو میکارتھی عالم اسلام کے مستقبل کے لیے دوسرے تصور کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
عالم اسلام کے مستقبل کے بارے میں دوسرے تصور کا نمائندہ حسن البنا ہے۔ وہ ایک نیک اور کرشماتی شخصیت کا حامل استاد تھا۔ وہ انتہائی ان تھک، چھا جانے والا اور توانائی سے بھرپور فرد تھا۔ حسن البنا عالم اسلام کو درپیش حالات سے قطعا خوش نہیں تھا اور وہ اس کا سبب اسلام کو نہیں بلکہ اس کے برعکس اسلام سے دوری کو قرار دیتا تھا۔ حسن البنا سلفیت کا طالب علم تھا، وہ اسلامی معاشرے کو اس کی بنیاد یعنی دور رسالت اور خلافت کی جانب لے جانا چاہتا تھا۔ سلفیت یعنی بزرگوں کی پیروی اخوان المسلمون کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ 

ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اسلامی نظریہ کامل طور پر پسماندہ نیز جدت، سائنس اور منطق کا مخالف نہیں ہے، جیسا کہ عموماً ہمیں بتایا جاتا ہے۔ اسلام کے بارے میں یہ تنقید شاید وہابیت کے بارے میں درست ہو، تاہم اخوان المسلمین وہابی نہیں ہیں۔ حسن البنا کا سلفی پروگرام انتہائی سوچا سمجھا اور انتہائی پیچیدہ نظام ہے۔ اس کا مقصد ہمیں یعنی مغرب کو تباہ کرنا ہے اور ہم نے اسے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مصر کے سلفی جدت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ جدت کو اپنے زیر تسلط کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہاں وہ شریعت کے پابند ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ جدت اور معاشی ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ منطق کے مکمل طور پر مخالف نہیں ہیں، وہ اس بات کا فیصلہ کرنے میں کہ اسلام کا کون سا قانون وقت کی ضرورت ہے، منطق کا استعمال کرتے ہیں۔

میں نے کیوں کہا کہ حسن البنا کا نظام جو آج بھی اخوان المسلمین کی صورت میں قائم ہے، کا مقصد ہمیں تباہ کرنا ہے؟ حسن البنا کا انتہائی واضح موقف ہے کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب کی دشمن ہے، یہ دونوں تہذیبیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، یعنی ان دونوں تہذیبوں میں سے ایک تہذیب ہی باقی رہ سکتی ہے۔ اگر اسلامی نظریہ یہی ہے جسے حسن البنا نے بیان کیا تو وہ درست تھا۔ اخوان المسلمین کا ابتدائی شعار آج بھی وہی ہے جو پہلے روز تھا۔
”اللہ ہمارا ہدف، پیغمبر ہمارے رہبر ،قرآن ہمارا قانون، جہاد ہمارا راستہ، شہادت ہماری آرزو ہے۔ اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاءاللہ
خبر کا کوڈ : 206063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش