0
Thursday 25 Oct 2012 20:47

آل سعود و سانحہ خونین مکہ

آل سعود و سانحہ خونین مکہ
تحریر: سید رضا نقوی 

لبیک الھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے لاکھوں حاجی آج بھی سر زمین حجاز پر موجود ہیں اور حرم الٰہی کی اطراف کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں، یوں تو مکہ و مدینہ کی زمین تاریخ سے پر ہے، ہر چپہ اپنے اندر ایک تاریخ لئے ہوئے ہے، فضائوں میں ایک خوشگوار سی خوشبو ہے جو روح کو معطر کئے دیتی ہے، یہ احساس کہ رحمت للعالمین کی راہ گذر پر قدم اٹھ رہے ہیں خود ایک سعادت ہے ۔۔۔۔۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ 1987ء میں یہی گلی و کوچے تھے جنہیں دشمنان اسلام نے اسلام سے اپنی ابدی دشمنی کی بدولت خاک و خون سے غلطان کر دیا تھا، جی یہی حرم الٰہی کا تقدس ایک بار پھر سے دشمنان اسلام کے ہاتھوں روندا گیا ۔۔۔۔ ایک بار پھر دشمنان اسلام سے برائت کی سزا دی گئی ۔۔۔۔۔ 

جب سرزمین حجاز کی فضا میں شیاطین وقت امریکہ و اسرائیل اور روس کی نابودی کیلئے آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور مسلمانان جہان کو وحدت کی طرف دعوت دی جا رہی تھی تو ایسے میں امریکہ و اسرائیل کے گماشتوں نے اسلام ناب محمدی (ص) کے پیروکاروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔۔۔۔۔جی ہاں ۔۔۔۔1987ء۔۔۔۔جب حج کے موقع پر لاکھوں ایرانی، پاکستانی و دیگر ملکوں کے حجاج دشمنان، اسلام امریکہ و اسرائیل سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے تو حرم الٰہی کا تقدس پامال کرتے ہوئے آل سعود نے اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بار پھر اسلام پر شب خون مارنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔ مقدس مہینے کے تقدس ۔۔۔ خانہ کعبہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے نہتے و بے گناہ اور حالت عبادت میں حاجیوں کر اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا، جسمیں سینکڑوں حجاج شہید اور سینکڑوں ہی زخمی ہوگئے تھے۔

آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ سعودی حکومت حجاج کے قتل عام کی بہت پہلے سے تیاری کر چکی تھی۔ بطاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ اس سال یعنی 1987ء کا حج بھی دیگر سالوں کی طرح ہی انجام پائے گا اور کوئی ناخشگوار حادثہ رونما نہیں ہوگا، کیونکہ مشرکین سے برائت کیلئے نکالے جانیوالے جلوس سے متعلق تمام معاملات طے پاچکے تھے ۔۔۔۔۔ کچھ دھمکیاں جو ہر سال ملا کرتی تھیں، انہیں اس سال بھی خاطر میں نہیں لایا گیا، کیونکہ عموماً خیال یہی تھا کہ یہ دھمکیاں تو ہر سال ہی ملتی ہیں، جن کا مقصد حاجیوں کو ڈرا دھمکا کر مظاہرے سے روکنا یا کم از کم مظاہرے میں حجاج کی تعداد کو کم کرنا مقصد تھا۔

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی سعودی حکومتی ذرائع ابلاغ یہی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف تھے کہ حج کا تعلق محض عبادی مراسم سے ہے اور سیاست مسائل کو تعلق حج سے نہیں ۔۔۔۔ جبکہ مشرکین سے بیزاری کے اس جلوس سے سعودی پراپیگنڈے کی قلعی کھل رہی تھی ۔۔۔۔ بڑھتی ہوئی بیداری ۔۔۔۔۔ سعودی آقائوں کی نیندیں حرام کر رہی تھی ۔۔۔۔ خانہ خدا میں حاجیوں کے قتل عام کی سازش صرف سعودیوں کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔۔ بلکہ اس قتل عام میں امریکہ براہ راست ملوث تھا ۔۔۔۔ اور اس قتل عام کی تمام تیاریاں پہلے سے مکمل کر لی گئیں تھیں۔ بیروت سے شائع ہونے والے مشہور اخبار ’’سفیر‘‘ کے نمائندے نے جو خود اس قتل عام کا عینی گواہ بھی ہے، نے مکہ میں حاجیوں پر گزرنے والی افتاد کے بارے میں 18 اگست 1987ء کو شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ:
’’مراسم حج کے ابتدائی دنوں سے ہی ماحول میں ایک تنائو کی سی کیفیت تھی اور حالات سے ظاہر ہوتا تھا کہ سعودیوں اور ایرانیوں کے مابین گزشتہ روایات کے برخلاف کوئی غیر معمولی حادثہ مراسم حج کے دوران ضرور رونما ہونے والا ہے‘‘

انسداد دہشت گردی تنظیم جرمنی کے سربراہ جنرل اولریش واگنر کو سعودی عرب بلا کر مخصوص سکیورٹی فورس کی تربیت پر مامور کیا گیا، جبکہ جنرل واگنر سکیورٹی کی تعلیم و تربیت اور حج کے دوران امنیت کا عہدہ مدت سے سنبھال رکھا تھا۔ یہ تمام باتیں مکہ کے خونی حادثہ سے قبل فرانسیسی اخبار میں شائع ہوچکی تھیں، چنانچہ واقعہ رونما ہونے کے بعد رسالہ آفنمان وجودی جو دہشت گردی کے مخالف گروہوں اور جاسوسی مشنریوں کا سخت حامی تصور کیا جاتا ہے، اپنے 13 اگست کے شمارے میں لکھتا ہے کہ ’’جنرل واگنر 6 ماہ قبل یعنی فروری 1987ء سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور مظاہرین کی سرکوبی کا منصوبہ جنرل نے ہی تیار کیا تھا۔ 

جنرل واگنر کے دوست کیپٹن باریل نے اسی جریدہ کو سعودی عرب سے متعلق اپنے تجربات اور اپنے دوست واگنر کے تجربات اور طریقہ کار سے بھرپور آگاہی کی بنیاد پر مکہ کے مظاہرہ کی سرکوبی کی کارروائی سے متعلق یوں اظہار خیال کر تا ہے:
’’اس طرح کے منظم و مرتب مظاہرہ سے مقابلے کیلئے وسیع انداز میں پانی میں مہیج باوڈر ملا کر پانی مظاہرین پر پھینکنا چاہئے تھا اور ایسا لگتا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورس کے دستوں نے مظاہرین پر گولیاں چلائی ہیں ۔۔۔۔ میرا گمان یہی ہے کہ اس واقعہ کی منصوبہ بندی جنرل اولریش واگنر نے ہی کی ہے، کیونکہ وہ تقریباً چھ ماہ سے ایک مشیر اور غیر فوجی کی حیثیت سے سعودی عرب میں لاکھوں فرانک تنخواہ لے رہا ہے۔‘‘

لبنان سے عربی میں شائع ہونے والے رسلے ’’الکفاح العربی‘‘ اپنے 8 اگست 1987ء کے شمارہ میں واشنگٹن سے حاصل شدہ ایک تفصیلی رپورٹ کی بنیاد پر لکھتا ہے کہ:
’’خلیج فارس کی تعاونی کونسل کی تازہ کانفرنس میں ایرانی حاجیوں کے مکہ معظمہ میں مظاہروں کا مسئلہ اٹھایا گیا اور امیر کویت نے اس کانفرنس میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر مظاہرین کا قلع قمع کرنے پر اصرار کیا اور کہا کے مظاہرین کو امریکہ کے خلاف نعرے بازی کی قطعی اجازت نہیں دینی چاہئے‘‘

الکفاح مزید لکھتا ہے کہ:
’’شیخ جابر بن الصباح امیر کویت نے کانفرنس میں مزید کہا کہ: مجھے خوف ہے کہ ایرانی حاجیوں کی امریکہ مخالف تحریک کہیں خلیج فارس کے دوسرے شیخ نشین علاقوں میں نفوذ نہ کر جائے ۔۔۔۔۔۔ لیکن خلیج تعاون کونسل کے اس اجلاس میں موجود متحدہ عرب امارات کے شیخ زائد نے تمام ممبروں کو ایران نیز دیگر اسلامی ملکوں کے خلاف کسی بھی طرح کے جارحانہ اقدامات کے برے نتائج سے خبردار کیا اور مطالبہ کیا کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور آکری فیصلے سے قبل اس مسئلہ کی اچھی طرح سے چھان بین ہونی چاہئے، جس پر شاہ فہد نے رائے پیش کی کہ ہم اس مسئلہ کو کہ مظاہرین کے ساتھ کونسا طریقہ اپنایا جائے، امریکی حکومت کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا‘‘

اختتام میں الکفاح لکھتا ہے کہ امریکیوں نے مشورہ دیا تھا کہ حاجیوں کا قتل عام سعودی مملکت کے مخصوص گارڈز کے ہاتھوں انجام پانا چاہئے۔ لہٰذا ریگن حکومت نے واقعہ کے فوراً بعد حاجیوں قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سعودی حکومت ہر طرح کی مخالفت کا سر کچلنے پر دسترس رکھتی ہے۔
بیروت سے شائع ہونے والا اخبار الوحدۃ الاسلامیہ لکھتا ہے کہ ’’حاجیوں کے قتل عام کا یہ منصوبہ واشنگٹن میں سعودی سفیر بندر بن سلطان اور سی آئی اے کی مشاورت سے تیار ہوا تھا، جو بعد میں منظوری کیلئے شاہ فہد کے سامنے رکھا گیا، شاہ فہد نے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی اور اس قتل عام کے بعد بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کئے جانے کی طرف سے اطمینان کے بعد، منصوبہ کو عملی شکل دینے کی منظوری دے دی۔

اخبار الوحدۃ الاسلامیہ مزید لکھتا ہے کہ ’’حاجیوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا اسلحہ اسی منصوبہ کے تحت خصوصی طور پر امریکہ سے منگوایا گیا تھا، جس کے ہر کارتوس کے اندر 22 ملی میٹر والی ۹ گولیاں تھیں، جو بہت ہی گھنے مجمع کا نزدیک سے مقابلہ کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں، تاکہ ہر گولی سے کئی کئی افراد ہلاک ہو سکیں‘‘ 

6 ذی الحجہ 1407ھ کو بعثہ امام پر لاکھوں حاجیوں کی موجودگی میں امام خمینی (رہ) کا پیغام حج پڑھ کر سنایا گیا اور اس کے بعد لاکھوں حاجی حرم کی طرف الموت لا مریکہ، الموت لا اسرائیل، یا ایھا المسلمون اتحدو اتحدو، لا الہ الا اللہ، امریکا عدو اللہ کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے بڑھنے لگے ۔۔۔۔ آگے آگے معذور افراد تھے ۔۔۔۔ پھر اچانک ان نہتے مظاہرین پر پتھروں، اینٹوں، لکڑی اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کر دیا گیا ۔۔۔۔۔ گرم پانی کی بوچھاڑ شروع کر دی گئی ۔۔۔۔۔۔ بندوقوں کی گرج سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔۔۔۔۔ مظارین جان بچانے کیلئے گلیوں کی طرف بھاگتے تو ۔۔۔ انکا تعاقب کیا جاتا اور تادم مرگ وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ۔۔۔۔۔۔ خواتین کو بھی اسی بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا ۔۔۔۔۔ جان بچانے کیلئے جب پیچھے کی پلٹے، تو وہاں سے بھی سعودی دستوں نے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی ۔۔۔۔۔ حیف ہو ان نام نہاد خانہ خدا کے پاسداروں پر ۔۔۔۔۔ حیف ہو امریکہ کے غلاموں پر ۔۔۔۔۔ سینکڑوں شہید ہوئے ۔۔۔۔۔ سینکڑوں زخمی ۔۔۔۔۔۔

امام خمینی (رہ) نے اس خونی واقعہ کے بعد فرمایا تھا کہ:
آل سعود نے خدا کے مہمانوں کو قتل کرکے اور خدا کے بہترین بندوں کو خاک و خون میں غلطاں کرکے نہ صرف حرم مقدس کو بلکہ پورے جہان اسلام کو ان شہیدوں کے خون سے آلودہ کر دیا اور مسلمانوں اور آزادی دم بھرنے والوں کو عزادار کر دیا۔ ۔۔۔۔ ایک بار پھر امریکہ و آل سعود نے انسانیت و آزادی کے برخلاف ہماری عورتوں اور مردوں، شہیدوں کی مائوں اور باپوں اور بے دست و پا جنگی مجروحین کو قتل کر ڈالا اور آخری لمحوں تک حیوانیت و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے نیم جاں بوڑھے جسموں اور تشنہ لب مظلوموں کو اپنے انتقام کا نشانہ بناتے رہے۔
 
انتقام اور وہ بھی کن لوگوں سے اور کس گناہ کی پاداش میں؟ ان لوگوں سے انتقام جنھون نے اپنے گھروں سے خدا کے گھر اور تمام انسانوں کے گھر کی طرف ہجرت کی تھی؟ ان لوگوں سے انتقام جو برسوں سے امانت و جہاد کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے؟ انتقام ان لوگوں سے جو مثل ابراہیم علیہ السلام بتوں کو توڑ کر لوٹے تھے؟ جنہوں نے شاہ کا بت توڑا تھا ۔۔۔ جنہوں نے امریکہ و روس کے غرور کے بت پاش پاش کئے تھے؟ ۔۔۔۔۔۔ وہی لوگ جنہوں نے محروموں اور خدا کے بندوں کی نجات کیلئے عیش و راحت و آرام کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا اور شہادت کا احرام زیب تن کئے ہوئے تھے۔۔۔

انہوں نے عزم کیا ہوا تھا کہ نہ صرف امریکہ و روس کے غلام نہ بنیں گے، بلکہ خدا کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائیں گے ۔۔۔۔۔ وہ آئے تھے تاکہ ایک بار پھر رسول خدا (ص) کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم آپ کی راہ میں جہاد و پیکار سے تھکے نہیں ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابوسفیان و ابوجہل انتقام کیلئے اب بھی کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور اپنے آپ سے کہہ رہے ہیں کہ کیا اب بھی ’’لات‘‘ و ’’ھبل‘‘ کعبہ میں موجود ہیں۔؟ ہاں ہاں ان بتوں سے کہیں زیادہ خطرناک، لیکن نئے چہرے اور نئے فریب کے ساتھ۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 206575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش