0
Thursday 25 Oct 2012 20:13

حاجی کس شیطان کو کنکر مارتے ہیں؟

حاجی کس شیطان کو کنکر مارتے ہیں؟
تحریر: ثاقب اکبر 

میدان عرفات کا قیام عرفان الٰہی اور مقاصد حج کی معرفت کے لیے ہے۔ وہاں سے حاجی مسجد الحرام یا مزدلفہ میں پہنچتے ہیں، یہاں کنکر جمع کیے جاتے ہیں تاکہ منٰی میں پہنچ کہ ’’شیطان‘‘ کو سنگسار کیا جائے۔ یہ کیا ہے؟ پتھروں کے تین ستون۔ شیطان پر کنکر برسانے کے اس واجب عمل کو ’’رمی جمرات‘‘ کہا جاتا ہے۔
کیا پتھروں کا ستون شیطان ہے۔؟
کیا یہ پتھروں کا ڈھیر خدا اور انسان کا دشمن ہے۔؟
کیا یہ پتھر اسلام کے خلاف سازش کرتے ہیں۔؟ 

ان بے جان پتھروں کا کیا قصور ہے کہ لاکھوں لوگ ہر سال ان پر سنگ باری کرتے ہیں۔؟
یہ سنگ باری کتنا عجیب عمل ہے۔؟
کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ بے جان، بے روح، بے عمل پتھروں پر آخر سنگ باری کیوں کی جاتی ہے۔؟
کیا مسلمان صدیوں سے ایک مہمل اور بے مقصد کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔؟
کیا اسلام نے واقعی صرف پتھروں کے ان ستونوں سے نفرت اور اظہار بیزاری کا حکم دیا ہے۔؟
یہ حکم اسلام کتنا عجیب ہے۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ ہے۔؟
اس میں دین کی کیا بھلائی ہے۔؟
کیا رمی جمرات کا حکم واقعاً ایک حکیم و دانا خدا کی طرف سے ہے۔؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس عمل میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔؟
 
کیا پتھروں کے اسی ستون کے بارے میں ’’قرآن حکیم‘‘ کہتا ہے: ’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ ‘‘(۱)  یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
کیا پتھروں کا یہ ڈھیر انسان کا کھلا دشمن ہے۔؟
اس نے کب اور کیسے انسان سے دشمنی کی ہے۔؟
کیا مسلمانوں اور بالخصوص حاجیوں نے اپنے اس عمل پر غور کیا ہے۔؟
وہ جو پتھروں کے ڈھیر پر چند کنکر برسا کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں نے شیطان کو مار لیا، اپنے آپ پر، اپنے اس عمل پر اور اپنی اس فکر پر غور کرے ... کیونکہ قرآن بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ بات بات پر کہتا ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ ؟(۲)
کیا وہ تدبر نہیں کرتے۔؟
لَّا تَشْعُرُوْنَ(۳)
تم شعور سے کام نہیں لیتے۔ 

اسلام کے بہت سے احکام علامتی ہیں۔
کعبہ کو خدا کا گھر کہتے ہیں۔ کیا خدا اس میں رہتا ہے۔؟
ہرگز نہیں، خدا تو زمان و مکان سے ماوراء ہے۔
یہ کعبہ تو خدا کی طرف توجہ کے لیے ایک محسوس علامت ہے۔
پتھروں کا ستون جسے شیطان کہہ کر کنکر مارے جاتے ہیں، وہ بھی شیطان نہیں بلکہ شیطان کی علامت ہے۔
’’شیطان‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’ضرر رساں وجود‘‘ ہر ضرر رساں اور نقصان دہ موجود اور وجود کو شیطان کہتے ہیں۔
 
اسلام میں شیطان کا مفہوم ہے:
 ایسا وجود جو انسان اور ایمان کا دشمن ہو، جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے ضرر رساں ہو، جو انسانیت کو اس کی راہ نجات سے گمراہ کرنے کے در پے ہو، جو قرآن اور اس کی تعلیمات کا مخالف ہو، جو دین اور دینی قوتوں کے خاتمے کے درپے ہو، جو حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اکڑ جائے، غرور و تکبر میں مبتلا ہو جائے اور نوع انسانی کو راہ حق و حقیقت سے دور رکھنے کی قسم کھائے بیٹھا ہو۔
وہ ابلیس جس نے آدم کے حضور حکم الٰہی کے خلاف سجدے سے انکار کر دیا، شیطان کی اولین اور بنیادی علامت کا ترجمان ہے، پھر اس کے راستے پر چلنے والا ہر کوئی شیطان ہے چاہے، وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے:۔’’ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ‘‘۔(۴) 

کیا مسلمان سوچتے نہیں کہ پتھروں کا ایک ستون شیطان نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ تو اشارہ ہے اس  بات کی طرف، راہنمائی ہے اس حقیقت کی طرف کہ
 اے حاجی! تجھے ہر شیطان، ہر ضرر رساں وجود سے اتنی ہی شدت سے نفرت کرنا چاہیے، جتنی نفرت سے تو ان پتھروں کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر کنکر مار رہا ہے۔
اے حاجی! کوئی بھی شیطان دوستی اور بھروسے کے قابل نہیں۔
اے حاجی! ہر شیطان شدید نفرت کے قابل ہے۔
اے حاجی! ہر شیطان پر ٹوٹ پڑ، ہر شیطان پر نفرت کے پتھر برسا، آرام سے نہیں پوری قوت اور شدید نفرت کے ساتھ۔ 

لیکن شیطان پر کنکر برسانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسے پہچانا جائے، اسے سمجھا جائے، اس کے طرز عمل کی شناخت کی جائے اور اس کے حربوں اور ہتھکنڈوں پر نظر کی جائے۔
ضروری ہے کہ یہ حقیقت بھی سمجھی جائے کہ ہر دور کا ایک ہی شیطان نہیں ہوتا بلکہ ہر دور میں مختلف شیطان موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے تین طرح کے شیطانوں پر کنکر برسائے جاتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ہم آج کے شیطانوں کو پہچانیں۔ خاص طور پر شیطانوں کے سرغنہ کو پہچانیں۔ شیطان اعظم کی شناخت کریں، تاکہ اس کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ اس کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کیا جائے۔ ہر محاذ پر اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس شیطان اعظم کے ساتھیوں اور ایجنٹوں کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے، سب سنگ باری کے قابل ہیں۔
 
حاجیوں کو اور ان کے حوالے سے سب مسلمانوں کو پہچاننا چاہیے کہ دور حاضر کی ضرر رساں ابلیسی قوتیں کون سی ہیں، تاکہ فقط پتھروں کے ستونوں پر کنکریاں نہ ماری جائیں، بلکہ حقیقی طاغوتی قوتوں کو بھی سنگسار کیا جائے، یہی مفہوم ہے اللہ کے اس اعلان کا:
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہٗ ۔(۵)
حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام انسانوں کو پکار کر کہا جاتا ہے کہ یقیناً اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بے زار ہیں۔
 
ہمیں سوچنا چاہیے کہ دور حاضر میں وہ ’’مشرک‘‘ کون ہیں، جن سے اللہ اور اس کا رسول اظہار بیزاری کر رہے ہیں۔ ہمیں شرک کی موجود قوتوں اور منحوس سرچشموں کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں انہی کے خلاف حج اکبر کے دن اعلان بیزاری کرنا ہے۔ انہی طاغوتی قوتوں اور شیطانوں کو سنگسار کرنا ہے۔ یقین جانیئے اگر سب توحید پرست مرد و زن معمولی کنکریاں لے کر بھی دنیا کے بڑے شیطانوں پر یکے بعد دیگرے حملہ آور ہو جائیں تو شرک کے سرغنے اور طاغوت عبرت ناک شکست سے دوچار ہوجائیں۔

حوالہ جات
۱۔ یوسف:۵
۲۔ نساء:۸۲
۳۔ بقرہ:۱۵۴
۴۔ الناس:۶
۵۔ توبہ:۳
خبر کا کوڈ : 206578
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش