1
0
Friday 2 Nov 2012 17:28

اخوان المسلمین عالمی خطرہ (2)

اخوان المسلمین عالمی خطرہ (2)
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

(گزشتہ سے پیوستہ) یہ شعار بہت اہم ہے، تاہم اس کے دو حصے قابل توجہ ہیں۔ پہلا شعار ”قرآن ہمارا قانون ہے۔“ اخوان المسلمین شریعت کی بالادستی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اخوان کے نظریے کے مطابق کسی معاشرے کو اسلامی بنانے کے لیے شریعت ایک لازمی شرط ہے۔ آپ نے اکثر مغرب میں مسلم مفکرین کی زبانی یہ آیت سنی ہوگی کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ یہ آیت کہتی ہے کہ اسلام دین میں زبردستی کا قائل نہیں ہے۔ مگر آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔ مسلمان آپ کو بندوق کے زور پر مسلمان نہیں کرے گا، تاہم شریعت کے نفاذ کے لیے وہ کوئی حربہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔ 

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ شریعت غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتی، تاہم اسی شریعت کے رو سے آپ کو اسلامی حکومت کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور بطور غیر مسلم اسلامی معاشرے میں رہنے کے لیے ایک ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ قرآن کہتا ہے کہ آپ کو اسلامی ریاست کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسلامی معاشرے میں اپنے دین پر قائم رہنے کی اس سہولت پر کئی ایک پابندیاں بھی ہیں۔ جس کے مدنظر اسلام ہی بہتر چناﺅ رہ جاتا ہے۔ اس سارے منصوبے کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ زبردستی اسلام نافذ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ایک دفعہ جب شریعت نافذ ہوگئی تو ہر کوئی اس بات کو سمجھ لے گا کہ مسلمان ہونا ہی بہتر ہے۔ اس سے زیادہ جدت کیا ہوسکتی ہے۔ ﴿حاضرین کا قہقہ﴾

دوسرا اہم شعار جو اخوان المسلمین کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے، وہ جہاد کا تقدس ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ ہے کہ آج جب کہ ہم 9/11 کی دسویں سالگرہ منا چکے ہیں، ہمیں ابھی تک نہیں معلوم کہ جہاد کیا ہے۔ اس لفظ کا لغوی معنی کوشش ہے۔ نیشنل سکیورٹی کے کچھ دوست آپ کو شاید یہ بتائیں کہ جہاد ایک فوجی مشن ہے، جو جارحیت پر مبنی ہوتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو شاید آپ کو یہ بتائیں کہ یہ جہاد کی چھوٹی قسم ہے جبکہ بڑا جہاد اندرونی جہاد ہے، جس کا مقصد ایک اچھا انسان بننا ہے، یا ممکن ہے اس سے مراد معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو۔ اگر آپ اس قسم کی باتیں سنتے رہیں تو آپ یہ سوچنے لگیں گے کہ شاید جہاد سے مراد یہ یاد رکھنا ہے کہ ہر کھانے کے بعد برش کرنا چاہیے۔ ﴿حاضرین کا قہقہ﴾

جہاد کی یہ دونوں تعریفیں درست نہیں ہیں، مگر یہ کہ ان دونوں میں کچھ سچ بھی ہے۔ جہاد کا مقصد شریعت کا نفاذ اور فروغ ہے، جو کہ اسلامی معاشرے کی قانونی اور معاشی اساس ہے۔ اگر آپ کو یہ بات سمجھ آگئی ہے تو اگلی بات نہایت آسان ہے۔ یہ درست ہے کہ جہاد بنیادی طور پر ایک فوجی مشن کے طور پر شروع ہوا۔ میں نہیں کہتا کہ یہودی اور عیسائی معاشروں میں جارحیت نہیں ہوئی، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔ اس حقیقت کے ادراک کے ساتھ کہ جہاد بنیادی طور پر جارحیت پر مبنی تھا یہ بھی درست ہے کہ جہاد مکمل طور پر جارحیت پر مبنی نہیں ہے۔ اس وقت جارحیت کی کوئی ضرورت نہیں جب مخالف گروہ تسلیم ہونے اور اپنی زمین کا قبضہ دینے پر راضی ہو۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاد کا ایک انفرادی اور سماجی تصور بھی ہے، تاہم یہ اس جہاد سے مختلف ہے جو آپ نیشنل سکیورٹی کے دوستوں کی زبانی سنتے ہیں۔ جہاد ایک اچھا انسان بننے کی جدوجہد نہیں بلکہ ایک اچھا مسلمان بننے کی جدوجہد ہے اور یہ ایک بہت مختلف چیز ہے۔ جہاد کا سماجی تصور کہ اس کا مقصد معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنا ہے درست نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد معاشرے کو غیر اسلامی چیزوں سے پاک کرنا ہے۔ پس جہاد شریعت کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کے فروغ سے متعلق ہے۔ یہ بات ہمارے لیے کیوں تشویش کا باعث ہے۔؟

چونکہ حقیقی شریعت کے بہت سے ارکان امریکی جمہوری قانون اور مغربی ثقافت کے مخالف ہیں۔ قدیم شریعت ہمارے آزاد معاشرے کے تصور کا انکار کرتی ہے کہ لوگ اپنی قسمت کے فیصلہ کرنے میں خود مختار ہیں اور اپنے معاشرے کے لیے قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں۔ اسلامی نظریہ کے تحت کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ شریعت قانون کے یکساں اطلاق کا انکار کرتی ہے، شریعت کے قوانین کی نظر میں مرد اور خواتین، مسلمان اور غیر مسلم برابر نہیں ہیں۔ شریعت امریکی قانون ”پرایویسی“ کے خلاف ہے۔ مثلا ہم جنس پرستی شریعت کے رو سے ایک جرم ہے، جس کی سزا موت ہے۔ شریعت کے رو سے عورتوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں، کار چلانے سے لے کر ان مردوں سے جو ان کے رشتہ دار نہیں ہیں میل جول رکھنے تک۔ 

شریعت معاشی آزادی کے بھی خلاف ہے۔ تمام چیزوں کا مالک اللہ ہے، وہ لوگ جو املاک پر حق جتاتے ہیں وہ صرف امین ہیں۔ ان کی املاک اسلامی ریاست کے رحم و کرم پر ہیں، جسے وہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق استعمال کرسکتی ہے۔ شریعت آزادی اظہار کے سخت خلاف ہے، اسلام پر تنقید سختی سے منع ہے۔ شریعت کے تحت وہ سزائیں جائز ہیں جسے ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور سر قلم کرنا شریعت کے رو سے جائز ہے۔ شریعت دین اور دنیا میں تقسیم کی قائل نہیں ہے۔ شریعت اسلام کو اعلٰی ترین دین اور اپنے آپ کو بہترین قانون قرار دیتی ہے۔ ایسا قانون جس کا تعلق صرف روحانی معاملات سے ہی نہیں بلکہ زندگی کا ہر شعبہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

یہ اخوان المسلمین کا منشور ہے۔ اخوان المسلمین دنیا میں جہاں بھی کام کر رہی ہے اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ تنظیم دنیا بھر میں سرگرم عمل ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے کیونکہ حسن البنا خوابوں کی دنیا میں بسنے والا شخص نہیں تھا۔ اس کے پاس اخوان المسلمین کے منشور یعنی عالمی خلافت کے لیے ایک انتہائی عملی، کثیر جہتی اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اس نے فرد، خاندان، محلے، شہر اور ملک ہر سطح کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا اور ہر سطح پر جہاد کی تربیت پر زور دیا گیا۔ جس میں خودکش حملوں کی تربیت بھی شامل ہے۔

القاعدہ اور اخوان المسلمین کے مابین ایک بنیادی فرق ہے، اگرچہ ان تمام جماعتوں کی اصلی منزل ایک ہی ہے۔ آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو آپ کو بتائیں گے کہ القاعدہ اور اخوان کے درمیان بہت مخالفت ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان کے مشترکات بہت زیادہ ہیں۔ القاعدہ گفت و شنید پر یقین نہیں رکھتی، ان کی نظر میں غیر اسلامی حکومتوں سے گفت و شنید انھیں قانونی تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اخوان المسلمین بہت پیچیدہ سوچ کی حامل ہے۔ حسن البنا کے مطابق عسکری جدوجہد شریعت کے نفاذ کے بہت سے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ 

اخوان عسکری تربیت دیتی ہے اور اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔ حماس جو کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اخوان المسلمین کی فلسطینی شاخ ہے۔ اخوان المسلمین صرف اس وقت جارحیت کی حمایت کرتی ہے جب وہ مقصد کے حصول میں معاون ہو۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، اخوان کے مذہبی راہنما شیخ یوسف قرضاوی نے 9/11 کے حملوں کی مذمت کی، تاہم اسی قرضاوی نے عراق میں امریکی فوج پر حملے کی حمایت کی۔ اس سے قبل اس اہم مذہبی راہنما نے اسرائیل میں خودکش حملوں کو بھی جائز قرار دیا۔

قرضاوی نے اس لیے 9/11 حملوں کی مذمت نہیں کی کہ یہ اخلاقی طور پر غلط تھے، بلکہ اس ایک حکمت عملی کے تحت مذمت تھی، جبکہ اس کے برعکس عراق جو کہ ایک مسلمان ملک ہے اور اسرائیل جو مسلمانوں کے مطابق ان کے علاقوں پر قابض ہے، پر حملے کرنا شریعت میں جائز ہے۔ اخوان مقصد کے حصول کے لیے ہر طرح کے عمل کو جائز سمجھتے ہیں۔ جہاں عسکری جدوجہد کی ضرورت ہو، وہ عسکری جدوجہد کرتے ہیں اور جہاں اس کے بغیر ہی مقصد نکل آئے، وہاں وہ عسکری کارروائیاں نہیں کرتے۔

اخوان جلدی میں نہیں ہیں، ان کا منشور دینے والا کوئی بے وقوف شخص نہیں تھا۔ اسلامی ممالک جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت زیادہ ہے، وہاں وہ تیزی سے سرگرم عمل ہیں۔ ہم جس چیز کو عرب بہار کا نام دے رہے ہیں وہ عرب بہار نہیں بلکہ اسلام کا نزول ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ عرب معاشروں میں سیکولر، اصلاح پسند افراد موجود نہیں ہیں، ایسے افراد یقیناً موجود ہیں، تاہم ہمیں کسی مخمصے میں نہیں رہنا چاہیے کہ اصلاح پسندوں کی تعداد اسلام پسندوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ انتہائی مستند اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں شریعت کے تحت زندگی گزارنے کے خواہشمند افراد کی تعداد 50 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔

اخوان المسلمین مصر میں حکومت حاصل کرنے کے لیے تیار ہے، لیبیا میں بھی اس جماعت کی مضبوط بنیادیں ہیں۔ اگر شام میں اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو وہاں بھی اخوان المسلمین ہی فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہوگی۔ اخوان المسلمین پورے مشرق وسطٰی میں عروج حاصل کر رہی ہے۔ اس مشرق وسطی میں ترکی بھی شامل ہے۔

یہ ہے امریکی ادارے نیشنل رویو انسٹیٹیوٹ کے سینیئر ممبر اینڈریو سی میکارتھی کا اسلام، اخوان، جہاد اور شریعت کے بارے میں دیا جانے والا بھاشن، جو ایک اہم امریکی یونیورسٹی میں طلبا اور امریکی عوام کو دیا گیا۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اس قسم کے لیکچرز آئے روز منعقد کئے جاتے ہیں جن کا مقصد مغربی عوام کو اسلام نامی عفریت سے آگاہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی تعلیمات کے بارے میں نفرت کے بیج بونا ہے۔ 

کوئی بھی شخص جو امریکی نظام تعلیم اور اس کے دانشوروں کی علمی صلاحیت پر یقین رکھتا ہے، پر ان علمی مغالطوں کا کیا اثر ہوگا، کسی صاحب فہم سے پنہاں نہیں۔ یہ لیکچرز سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب کے دانشوروں کی ایک کثیر تعداد نے اس بات پر ایکا کر رکھا ہے کہ اسلام کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا جائے۔ عوام میں اس دین کے خلاف اس قدر نفرت بھر دی جائے کہ لوگ اس کے تصور سے بھی کانپ اٹھیں۔

جبکہ دوسری جانب یہ منظم پراپیگنڈہ مغرب میں موجود اسلام دشمن قوتوں کے اس خوف کی بھی ترجمانی کرتا ہے جو انھیں اسلام قبول کرنے والے شہریوں کی بڑھتی ہوئی رفتار سے درپیش ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کا درد رکھنے والے دانشور، علماء اور اہل علم بھی میدان عمل میں اتریں اور اپنے فروعی اختلافات کو فراموش کرکے ملت واحدہ کی صورت میں اس دروغ گوئی اور فتنہ انگیزی کا مقابلہ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حق آکر رہے گا اور باطل کو مٹ جانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 208521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
Yeh to yahood o nasara ka Haq mukhalif mashahoor propaganda raha hai keh wo Kalaam-e-Haq ko taror maror kr apni marzi k matalib nikaltey hain.khair shaitan mardood k Islam mukhalif tajurbaat-o-propagandas me roz ba roz izafa ho raha hai.
ہماری پیشکش