0
Tuesday 2 Mar 2010 13:30

پاکستان،امریکہ کا مسلسل ہدف

پاکستان،امریکہ کا مسلسل ہدف
 ڈاکٹر شیریں مزاری 
پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں امریکہ کا دوغلا پن کسی تحفیف کے بغیر مسلسل جاری ہے اور میں نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے جس بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے اسے صرف بظاہر غیر مربوط واقعات اور شائع ہونیوالے مواد میں باہمی تال میل تلاش کر کے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔فاٹا میں فوجی آپریشن کے دوران جونہی پاک فوج کی پوزیشن مضبوط ہوئی اور قبائلیوں کیساتھ بات چیت کرنے کے واضح آثار نظر آنے لگے ہیں،امریکہ کی پاکستان کیخلاف تخریبی سرگرمیوں میں اس قدر تیزی آئی ہے اور پاکستان کے بارے میں نام نہاد ماہرین سمیت سی آئی اے کے پرانے روابط کو ایک بار پھر اہمیت دی جا رہی ہے اس حوالے سے ہم حال ہی میں رونما ہونے والے بعض واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا ایک دوسرے سے منسلک ہونا دیکھتے ہیں۔
پہلا یہ کہ لاعلم امریکی حکام اور ان سے بھی زیادہ لاعلم سامراجی ذہنیت کے حامل میڈیا کی نہ رکنے والی یہ چیخ و پکار کہ پاکستان القاعدہ اور طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کر رہا۔لیکن جب پاکستان نے ایک اہم طالبان کمانڈر کو گرفتار کیا امریکیوں،انکے میڈیا نے اچانک اپنا لب و لہجہ بدل دیا اور اپنے میڈیا کے ذریعے ایک نئی بیان بازی شروع کر دی کہ پاکستان نے اس شخص کو کیوں پکڑا ہے اور یہ سازشی نظریات گھڑ کر فوری طور پر پھیلائے گئے کہ ہو نہ ہو پاکستان نے اس طالبان کمانڈر کو کرزئی کے ساتھ انکے مجوزہ مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے کہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایسے مذاکرات پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے،جیسا کہ ہم میں سے بعض لوگوں کی ہمیشہ سے یہ رائے ہے کہ امریکہ کی نظر میں پاکستانی ہمیشہ خود کو اس پوزیشن میں پائیں گے کہ وہ کچھ کریں تو بھی مطعون اور نہ کریں تو بھی مطعون! لہٰذا یہی وقت ہے کہ ہم امریکی قیادت میں جاری گمراہ کن دہشت گردی کیخلاف جنگ سے پوری طرح اپنے ہاتھ کھینچ لیں اور تشدد و انتہا پسندی کے اپنے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے خود حکمت عملی بنائیں۔یہ مسئلہ کثیرجہتی ہے اور اسے محض طالبان فریم ورک کے دائرے میں رہ کر حل نہیں کیا جاسکتا۔بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوتی،امریکہ میں ایک نئی مہم شروع کی گئی ہے۔پہلی بار یہ خبر اخبار وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہوئی جس میں دو امریکی وکلا ڈیوڈ ریوکن اور لی کیسی نے جو دونوں ریگن اور جارج بش انتظامیہ کے دور میں محکمہ انصاف میں کام کر چکے ہیں،پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چودھری پر الزام لگایا کہ شروع کئے گئے آئینی ڈرامہ کے وہ مرکزی ملزم ہیں۔زرداری کی حمایت کرتے ہوئے دونوں وکلا نے پاکستان کے چیف جسٹس پر بے بنیاد الزام تراشی کرتے ہوئے تمام اخلاقی تقاضے فراموش کر دیئے۔جس چیز نے ان امریکی وکلا کو پریشان کیا،وہ چیف جسٹس کی پاکستانی عوام کی نظروں میں صدر زرداری سے کہیں زیادہ مقبولیت ہے۔
چیف جسٹس پر امریکی غصہ قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے پاکستانی عوام کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔خصوصاً ان لاپتہ افراد کے ایشو پر جن میں سے بہت سوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا گیا جبکہ صدر زرداری اور انکے وفاداروں نے امریکی مقاصد کی وکالت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔لیکن یہ بات ہر خود دار پاکستانی کیلئے ناقابل قبول ہونی چاہئے کہ انکے چیف جسٹس کے بارے میں ایسا توہین آمیز رویہ اختیار کیا جائے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہالبروک نے نیو یارک میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں انصاف کے خون پر پاکستانیوں کے احتجاج پر کس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس حقیقت کے باوجود ایسا کیا کہ امریکہ افریقی نژاد امریکیوں اور اقلیتوں خصوصاً نائن الیون کے بعد مسلمانوں کیخلاف ایسی ناانصافیوں کا ایک ریکارڈ رکھتا ہے۔
ایسے حملے کی تیسری بات بلوچ علیحدگی پسندی کے ایشو کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور اس معاملے کو پاکستان کے ایک پرانے مخالف سیلگ ہیریسن اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھر ہدف بنانے میں پیش پیش ہیں۔انہوں نے پہلی بار ایسا رویہ اس وقت اپنایا،جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور یہ راگ الاپا گیا کہ پاکستان امریکی خواہشات کے مطابق افغانستان میں بھرپور کردار ادا نہیں کر رہا،سیلگ ہیریسن اس وقت افغان ماہر تھے لیکن جب افغانستان پس منظر میں چلا گیا تو وہ بلوچستان امور کے ماہر بن گئے اور اب وہ ایران اور پاکستان میں علیحدگی پسند بلوچوں کی مدد کرنے میں بھرپور طریقے سے ملوث ہیں اس سلسلے میں انہوں نے مختلف پلیٹ فارم استعمال کئے ہیں،جبکہ تازہ ترین تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں جاری کانفرنس ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ایک غیر معروف گروپ جو خود کو بلوچ وائس فائونڈیشن کہتا ہے سپانسر کر رہا ہے اور اسے ہیگ میں قائم غیر نمائندہ قوموں اور عوام کی تنظیم (یو این پی او) اور بلاشبہ سیلگ ہیریسن کی حمایت حاصل ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچ وائس فائونڈیشن کو انٹرنیٹ پر دستیاب اطلاع کے مطابق واشنگٹن کی جیمز ٹائون فائونڈیشن فنڈ فراہم کرتی ہے اور سی آئی اے سے منسلک فریڈم ہائوس کنٹرول کرتی ہے۔
اس کانفرنس کا مقام بھی سی آئی اے کے ملوث ہونے کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے کیونکہ جنوبی ایشیائی ایشوز پر امریکی حکومت بہت سی کانفرنسوں کیلئے تھائی لینڈ کو استعمال کرتی رہی ہے۔مزید برآں یہ حقیقت ہے کہ اس میں ایرانی بلوچ علیحدگی پسند بھی شریک ہیں اس سے امریکہ کے تعلق کو بڑے نمایاں طور پر ظاہر کرتی ہے۔معاملہ کچھ بھی ہو،ہماری حکومت کی اس ایشو پر معمول کی پراسرار خاموشی کے باوجود بنکاک میں بعض پاکستانی اس کانفرنس کے انعقاد پر احتجاج کر رہے ہیں۔تھائی لینڈ نے آخر کیوں بلوچ علیحدگی پسند کانفرنس کیلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی؟ کیا تھائی لینڈ یہ پسند کریگا کہ پاکستان بھی اسکے اندرونی معاملات سے تعلق رکھنے والی اسی نوعیت کی کسی کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کی اجازت دے؟
مزید یہ کہ ایسے مواقع پر جب مختلف ایجنسیاں مختلف گروپوں کو سپانسر کر رہی ہوں،عموماً وقوع پذیر ہوتا ہے بلوچوں کے مابین بھی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کانفرنس کا آرگنائزر بلوچ وائس ٹی وی کے بانی منیر مینگل ہیں یہ وہی شخض ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک میزبان پاکستانی بلوچ خاتون کو بلوچستان کی جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔لیکن جب نواب رئیسانی نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ایک مغوی افسر کی رہائی کی کوششوں کے دوران جب جیلوں کو چیک کیا تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔اس کانفرنس کے نتیجے میں داخلی لڑائیاں سامنے آگئی ہیں جو واشنگٹن میں قائم امریکن فرینڈز آف بلوچستان دبئی لندن اور ماسکو (بلاشبہ سوویت دور کی باقیات) کے کارکنوں اور نام نہاد جلاوطن حکومت بلوچستان کے درمیان جاری ہیں۔اس جلاوطن حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اسرائیل کے شہر تل ابیب میں قائم کی گئی ہے یہ بات حیران کن نہیں کہ مختلف گروپوں کو مختلف سپانسر فراہم کئے گئے ہیں اس کانفرنس کو ایک اور جھٹکا اس وقت لگا جب خیر بخش مری کے حامیوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کس طرح ’’بلڈ بارڈرز امریکی ایجنڈا‘‘ کے تحت ایرانی اور پاکستانی علاقوں پر مشتمل بلوچستان ریاست کے قیام کو شکل دی جا رہی ہے اور اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کے علیحدگی پسندوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا رہا ہے۔ہمیشہ کی طرح سیلگ ہیریسن اس معاملے میں اپنا قابل اعتراض کردار ادا کر رہے ہیں۔یہی نہیں کہ صرف پاکستان اور ایران کو ایک ساتھ ہدف بنایا جا رہا ہے۔آنیوالے دنوں میں امریکی میڈیا میں ایٹمی حوالے سے ہمارے خلاف پروپیگنڈے کی نئی مہم شروع ہونیوالی ہے۔بدقسمتی سے امریکہ کے ایک ممتاز اخبار نے ڈاکٹر خان کے ’’خطوط‘‘ خرید رکھے ہیں جنہیں ایران کو ہدف بنانے کیلئے استعمال کیا جائیگا،جبکہ پاکستان بھی ہدف ہو گا۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک تیر سے دو شکار کئے جائیں گے۔کیا ہماری حکومت اس نئی مہم کو ناکام بنانے کیلئے ایران سے مل کر کوئی موثر اقدامات کرے گی؟لیکن اس کا امکان مشکل سے ہی دکھائی دیتا ہے۔لہٰذا ہمیں ایک بار پھر ایٹمی صلاحیت پر چڑھائی اور ایسے وقت ایٹمی پھیلائو کے الزامات کیلئے تیار رہنا ہو گا جب امریکہ اسرائیل تک ایٹمی پھیلائو جاری رکھے ہوئے ہے اور بھارت کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ کے بعد جنوبی ایشیا میں بالادستی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔اس صورتحال میں بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان اور ایران کو ہدف بنانے کی کڑیاں آپس میں نہیں ملتیں؟
خبر کا کوڈ : 21265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش