0
Wednesday 28 Nov 2012 12:53

رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں آزادی کا مفہوم

رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں آزادی کا مفہوم
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی

آزادی ایک ایسا مفہموم ہے جس کی مختلف معاشروں میں الگ الگ تشریحات کی گئی ہیں جو دوسرے سیاسی مفاہیم کی طرح متنازعہ ہیں۔ یہی اختلافات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ دنیا بھر میں فلسفے خصوصاً یورپی فلسفے کے ایک بہت بڑے حصے میں آزادی کا مفہوم زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے آزادی کا ایک نیا مفہوم دنیا والوں بالخصوص یورپ والوں کے سامنے پیش کیا، لیکن یورپ کا علمی غرور اور اجارہ داری اس خطے میں لبرل ازم کی جانب سے پیش کردہ آزادی کے مفہوم سے مختلف مفہوم قبول کئے جانے کے سد راہ ہوئی۔ ہم اس مضمون میں آزادی کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے چند ارشادات پیش کر رہے ہیں۔

ایران کا اسلامی انقلاب اپنی فکری اور فلسفی بنیادوں کے پیش نظر ایک ایسا جامع مقصد رکھتا ہے جس میں آزادی بھی شامل ہے۔ یہ مقصد ایک نئے اسلامی تمدن کے احیا کا باعث بن سکتا ہے۔ جس میں صرف مادی مفادات ہی نہیں پائے جاتے بلکہ اس میں مادی اور معنوی دونوں طرح کی سعادت کا سامان موجود ہے۔ اس تمدن میں کسی فرد یا خاص ملک کے مفادات ملحوظ نہیں ہیں بلکہ تمام لوگوں اور سارے ممالک کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس تمدن میں صرف دنیوی سعادت ہی مدنظر نہیں ہے بلکہ دنیوی اور اخروی دونوں سعادتوں کو پیش نظر رکھا گيا ہے۔ یہ تمدن یورپ کے تمدن اور تشخص کے مقابلے میں ہیں کہ جو انسان اور معاشرے کے بارے میں اپنے مادی تصور کی وجہ سے خاص افراد اور گروہ کے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور ہمیشہ دنیا کے دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینے اور قتل عام کے ذریعے اپنے مفادات اور تسلط کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
 
دنیا کی ادبیات میں آزادی کے مفہوم اور مقام کی اہمیت کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران میں Humanities اور فلسفی ابحاث میں صاحب الرائے افراد اس موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث لاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں اسلامی ایرانی ترقی کے نمونے کے سنٹر کے زیر اہتمام رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگی میں آزادی سمیت مختلف موضوعات کے سلسلے میں اسٹریٹیجک اجلاس اور سیمینار منعقد ہوئے ہیں۔ ان میں سے چوتھا سیمینار آزادی سے متعلق مختلف موضوعات سے مختص تھا۔ اس سیمینار میں تقریباً ایک سو پچاس دانشمندوں، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے اساتذہ، محققین اور مصنفین نے شرکت کی۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس سیمینار میں اسلامی جمہوریہ ایران میں آزادی کے مختلف پہلوؤں کی شناخت اور وضاحت سے متعلق موجود خامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا "یورپ میں حالیہ چند صدیوں کے دوران آزادی کا موضوع دوسرے موضوعات کی نسبت زیادہ توجہ کا مرکز رہا ہے، جس کی وجہ مجموعی طور پر وہ حوادث اور واقعات ہیں جو یورپ میں ایک طرح کے فکری طوفان پر منتج ہوئے ہیں۔" رہبر انقلاب اسلامی نے نشاۃ ثانیہ، صنعتی انقلاب، انقلاب فرانس اور روس کے انقلاب کو یورپ میں آزادی کے سلسلے میں وسیع فکری تحریک کا سبب قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا ہے کہ یورپ کے برخلاف آئينی تحریک سے پہلے تک آزادی کے سلسلے میں ہمارے یہاں کوئی ایسا موقع نہیں آیا تھا کہ جو فکری تحریک کا سرچشمہ بن سکتا اور یہ موقع بھی روشن خیال افراد کی جانب سے یورپی افکار کی تقلید اور پیروی جیسے اہم نقص کے باعث آزادی کے سلسلے میں کسی خاص نتیجے کا سبب نہ بن سکا۔
 
یورپ میں آزادی کا شمار ان مفاہیم میں ہوتا ہے جس کے بارے میں یورپی دانشمندوں نے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں وسیع پیمانے پر اپنے افکار و نظریات بیان کئے اور انہی افکار و نظریات کی بناء پر یورپ میں سماجی انقلابات کا راستہ ہموار ہوا۔ ایسے انقلاب جن کا سرچشمہ فرانس کا انقلاب تھا۔ یورپ کے سیاسی نظام کی بنیاد بھی یہی نظریات تھے اور انسانی حقوق کا منشور بھی انہی یورپی نظریات کی روشنی میں تحریر کیا گیا۔ بہت جلد آزادی سے متعلق یورپی نظریات ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں روشن خیال دانشمندوں کے لئے ایک نمونے میں تبدیل ہوگئے اور وہ بھی یورپ میں آزادی سے متعلق بیان شدہ نظریات کو اپنانے لگے۔ انھوں نے آزادی کے بارے میں اپنے ممالک میں جو کچھ پیش کیا وہ بے راہ روی اور اخلاقی اقدار کی پامالی سے عبارت تھا۔ یورپ میں جس آزادی کو پیش کیا گيا ہے اس کی بنیاد ہیومن ازم ہے۔ یہ وہی آزادی ہے جس نے یورپی معاشرے کو اخلاقی اقدار کی پستی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آزادی کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ جس پر زیادہ تاکید فرمائی، وہ انقلاب فرانس پر نشاۃ ثانیہ کے دانشمندوں کے اثرات اور آزادی کے مفہوم پر انقلاب فرانس کے اثرات کے بارے میں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا ہے کہ "انقلاب فرانس میں ممکن ہے کہ چار روشن خیال ایک جیسی باتیں کرتے ہوں، لیکن عملی طور پر جو چیز زیر بحث نہ آتی تھی وہ عقل اور عقلیت پسندی کا موضوع تھا۔ وہاں صرف آزادی کا مسئلہ تھا۔ کئی صدیوں سے مسلط منہ زور اور مسلط حکومت سے آزادی۔ بوربن خاندان کی حکومت سے آزادی کہ جو لوگوں کے روزمرہ امور پر مسلط ہوچکا تھا۔ صرف دربار کی ہی حکومت نہیں تھی بلکہ فرانس کا ہر امیر ایک بادشاہ تھا۔" 

رہبر انقلاب اسلامی کا خیال ہے کہ "انقلاب فرانس ایک اعتبار سے ایک ناکام انقلاب تھا۔ انقلاب کے زیادہ سے زیادہ گیارہ یا بارہ برسوں کے بعد نپولین کی طاقتور بادشاہت قائم ہوگئی یعنی ایک مطلق العنان بادشاہت، اور جس طرح نپولین نے اپنی بادشاہت قائم کی اس طرح تو انقلاب کے دوران مارے جانے والے لوئی شانزدہم سے پہلے والے بادشاہوں نے بھی بادشاہت نہیں کی تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ آزادی سے متعلق ابحاث پر چند عوامل کے اثرات زیادہ تھے۔ جن میں اولین نشاۃ ثانیہ کا عامل ہے۔ کلیسا نے یورپ میں جو استبداد قائم کر رکھا تھا وہ دین اور کلیسا مخالف تحریک کا باعث بن گيا۔ دو صدیوں کے دوران اس سلسلے میں فرانس، جرمنی، برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممالک کے مختلف دانشمندوں نے سینکڑوں کتابیں تحریر کر ڈالیں۔ جس کی وجہ سے آزادی کو کلیسا کی مخالفت کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ 

آزادی کا یہی مفہوم دوسرے ممالک سے یورپ جانے والے دانشمندوں نے اپنے اپنے ممالک میں منتقل کیا۔ انھوں نے اپنے اپنے ممالک میں آزادی کے معنی دین و مذہب کی مخالفت کے بتائے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی دنیا میں موجود دین مخالف ان روشن خیالوں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ "نشاۃ ثانیہ میں جو موقف اختیار کیا گيا وہ دین مخالف اور کلیسا مخالف تھا۔ اس لئے اس کی بنیاد ہیومن ازم پر رکھی گئی، اور اس کے بعد یورپ میں تمام اقدامات کی بنیاد ہیومن ازم کو قرار دیا گيا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔" 

رہبر انقلاب اسلامی کا نظریہ ہے کہ آزادی کے سلسلے میں دین مخالف یہ تاثر ایران جیسے ملک میں حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا ہے۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپی حکومتیں خود بھی ایران اور دوسرے اسلامی ممالک میں آزادی کے اسی مفہوم کی ترویج کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ اکثر افراد جو آزادی کو دین کی مخالفت کے مترادف قرار دیتے ہیں وہ یورپی تہذیب و تمدن سے مرعوب ہیں اور بہت سے مواقع پر وہ اپنے ہی ممالک کے خلاف اغیار کے پٹھوؤں کا کام انجام دے رہے ہیں۔ 

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر آزادی کے مفہوم کی تشریح کئے جانے کی ضرورت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے: "ہم اسلام کا موقف سمجھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کو نظرانداز کرکے افکار حاصل کرنا چاہیں تو ہم انہی مسائل میں گھر جائیں گے جن کا یورپی مفکرین فلسفے، ادبیات اور آرٹ جیسے مختلف میدانوں میں شکار ہیں۔ ہم تو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔" رہبر انقلاب اسلامی نے آزادی سے متعلق اسلام کے مجموعی موقف کے سلسلے میں فرمایا ہے: "اسلام میں انسان کی آزادی کا سرچشمہ توحید ہے۔ توحید صرف خدا تعالٰی پر ایمان کا نام نہیں ہے بلکہ توحید خدا تعالٰی پر ایمان، طاغوت کے انکار، خدا کی عبادت اور غیر خدا کی عبادت نہ کرنے سے عبارت ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بارے میں اسلامی تعلیمات خدا تعالٰی کی عبادت اور اخلاقی اقدار کے تحفظ اور احترام کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اقتصاد، سیاست اور اخلاق کے میدانوں کے آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "یورپ میں ان تین میدانوں میں آزادی بہت ہی برے اور تلخ اور بعض مقامات پر بہت ہی نفرت انگيز واقعات کی صورت میں سامنے آئی ہے۔" رہبر انقلاب اسلامی کے نزدیک آزادی کے اس غلط مفہوم کا نتیجہ امتیازی سلوک، منہ زوری، جنگ پسندی نیز انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے پسندیدہ امور کے سلسلے میں دہرے معیار سے کام لئے جانے کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تمام افسوسناک واقعات کے باوجود آزادی کے مفہوم کی تحقیق کے مقصد سے یورپی مفکرین کے افکار کی طرف رجوع کرنا مفید ہے کیونکہ وہ عرصہ دراز سے آزادی کے بارے میں اپنے نظریات پیش کر رہے ہیں" رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اس نکتے کی بھی یاد دہانی کرائی ہے کہ "یورپی مفکرین کے افکار کی جانب رجوع کرنے کی اصلی شرط تقلید سے اجتناب ہے، کیونکہ تقلید آزادی سے تضاد رکھتی ہے۔"
خبر کا کوڈ : 215890
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش