0
Friday 30 Nov 2012 21:02

قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں (۱)

قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں (۱)
تحریر: سردار تنویر حیدر

پیر معین الدین چشتی اجمیری نے امام حسین علیہ السلام کے متعلق کہا ہے کہ
شاہ است حسین (ع)، پادشاہ است حسین(ع)
دین است حسین (ع)، دین پناہ است حسین(ع)
سر داد،نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین(ع) 

اسی طرح گولڑہ شریف اسلام آباد کے سجادہ نشین اور پیر مہر علی شاہ کے پوتے پیر نصیر الدین نصیر کہتے ہیں کہ
کوئی شبیر (ع) سا خالق کا پرستار نہیں
امتِ احمدِ مرسل (ص) کا وفادار نہیں
لب پہ دعوے ہیں، مگر عظمتِ کردار نہیں
جرائت و عزم و عزیمت نہیں، ایثار نہیں
کودتا کون ہے؟ امڈے ہوئے طوفانوں میں
کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟ 

منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہتے ہیں کہ "شہادت امام حسین (ع) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے، وہی فیض امام حسین (ع) کی سیرت سے ملتا ہے، ولایت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی خیرات ہے، ایمان محبت اہل بیت (ع) کے بغیر نامکمل ہے"۔

بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اور مشائخ کے علاوہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے بزرگان اور دانشوروں نے بھی واقعہ کربلا اور قیام امام حسین (ع) کو معرکہ حق و باطل قرار ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابولاعلیٰ مودودی امام حسین(ع) کو رہتی دنیا تک نمونہ اور آئیڈیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدوداللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بےچینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں۔ ان کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انہیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کر سکتی ہے کہ وہ چاشت ، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو ’’سرداد نہ داد دست در دست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا‘‘ کے مقام وفاداری پر پہنچا دے"۔(۱) 

اسی طرح مولانا مودودی یزید کو باطل کی علامت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا لیکن دستورconsititution کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ ’’انا اول الملوک‘‘ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تواس وقت حضرت ابو بکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’ یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصرمرا تو اس کا بیٹا قیصر ہو گیا۔(۲) یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بناء پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علی (ع) اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے"۔(۳) 

اس وقت کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید وضاحت سے کہتے ہیں: "اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جارہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے مگر چلائی جارہی ہے غیراسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے۔ اگر حضرت حسین (رض) نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رونمائی کی نہ تھی۔حضرت حسن (رض) اور حضرت معاویہ میں صلح ہو گئی تھی اور خلافت حضرت معاویہ کو حاصل ہو گئی تھی۔ بعد میں کتنی ہی باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو حضرت حسین (رض) کے نزدیک نامناسب تھیں۔ مگر انہوں نے حضرت معاویہ کو ہٹانے کی کوشش نہ کی، اس وجہ سے کہ ایک خلیفہ وقت سے ان کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ دوسرے تلوار اٹھانا ناگزیر نہیں ہو گیاتھا۔ اگر کسی مسلمان حکومت کا بگاڑ جزئیات میں ہے تو نظم و نسق درہم برہم کرنے کی کوشش روا نہ ہو گی مگر جب بادشاہ یا خلیفہ نے اس حکومت کو مورثی بنانے کی کوشش کی تو اصولی تغیر واقع ہو گیا۔ ایک خاندان نے حکومت کو اپنی جائیداد بنانے کافیصلہ کرلیا۔ خواہ اس میں ان کی جان جائے اور ان کا بچہ بچہ کٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امیر معاویہ بغیر رضا مندی عوام کے حکومت پر قابض ہو گئے تھے۔ ان کی حکومت میں مسلمانوں کی رضامندی کو کوئی دخل نہ رہا تھا اور ملک کے مال میں بھی تصرف ہونا شروع ہو گیا تھا۔ تاہم حضرت حسین (رض) نے برداشت کیا مگر جب اس میں تغیر کیا گیا کہ حکومت کو موروثی بنادیا جائے تو حضرت حسین (رض) نے ولی عہدی اور ولی عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 

یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین (رض) نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس لے جاؤ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا تو یہ درست نہیں بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو اور پھر اس سے فیصلہ کرنے دو خواہ میرے قتل کا فیصلہ کردے۔ حضرت حسین (رض) نے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جارہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین (رض) نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کر چکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے۔ 

جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان کو صحابہ (رض) کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین (رض)کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔ یہ حضرت حسین (رض) ہی کا نمونہ تو ہے کہ جو مسلمان حکومت کے بگاڑ کے وقت مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے اگر اس نمونے کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسول (ص)کو قتل کر دیا گیا اور ہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے۔حضرت علی (رض)کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور حضرت حسین (رض) کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہوجائے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔(۴)

مقصد شہادت امام حسین (ع) پر بات کرتے ہوئے مولانا مودودی نے محرم الحرام کے حوالے سے ایک مشترکہ شیعہ سنی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین (رض) کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کاایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین (رض) کی وہ کونسی خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اورخود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدروقیمت ہوسکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ 

اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین (رض) کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا تب بھی حضرت ابو بکر(رض) سے لے کر امیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔ مولانا کا یہ خطبہ جولائی 1960ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ 
 
منابع و مآخذ:
۱۔ اسلامی زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ص۔۱۵۷۔۱۵۶، ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔۱۹۶۲
۲۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵
۳۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵
۴۔ تفہیمات جلد پنجم ص۶۰۔۵۹ ناشر، ادارہ ترجمان القران لمیٹڈ لاہور۔
خبر کا کوڈ : 216574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش