0
Sunday 14 Mar 2010 14:37

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
 آر اے سید
پاکستان اور ترکی کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں دونوں ملکوں کا ماضي اسلام سے متعلق ہے۔دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں مذہبی جوش و جذبہ اور اسلام سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔دونوں ملکوں کے عوام دین سے محبت کو جزو حب الوطنی قرار دیتے ہیں اور حب الوطنی کو جزو دین سمجھتے ہیں ایک اور قدرے مشترک جو دونوں ملکوں میں موجود ہے وہ ان ملکوں میں فوج کا تسلط اور سیاسی و سماجی امور میں فوج کی مسلسل مداخلت ہے۔ترکی کے عوام بھی پاکستانی عوام کی طرح مہمان نواز اور عرفان اور تصوف کی طرف متوجہ ہیں۔مغربی طاقتوں نے جسطرح پاکستان کی دینی ثقافت کو مغربی ثقافت سے بدلنے کی کوشش کی ہے یہی سازشیں ترکی میں بھی لاگو کی گئیں البتہ ترکی کی جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے اس ملک کے کرتا دھرتا سیاسی و عسکری قائدین کو مغرب نے ہمیشہ یورپی یونین کا ممبر بنانے کا لالچ دے کر اپنے اہداف حاصل کئے۔ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اتاترک کے ذریعے سیکولر نظام مسلط کیا گیا جس کے اثرات ابھی تک محسوس کئے جا سکتے ہيں۔
پاکستان کے حکمران بھی ترکی کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب ترکی میں سیکولر نظام کو مضبوط کرنا مقصود تھا تو مغرب نے ترکی پر عنایات کی بارش کر دی تھی اس زمانے میں پاکستان کا کوئی بھی بڑا حکومتی وفد یا سیاسی شخصیت یورپ کے دورے پر جاتی تو پہلے اسے ترکی کا دورہ کرایا جاتا تا کہ وہ ترکی کی ترقی سے متاثر ہو اور اپنے آپ کو ترکی کی طرح سیکولر نظام حکومت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔پاکستان کے حکام جب ترکی کا دورہ کرتے اور یہاں کی ترقی دیکھ کر اسے مغرب کا مرہوں منت سمجھتے تو مغربی ممالک کے دورے سے پہلے ہی نفسیاتی طور پر اس بات کے لئے تیار ہو جاتے کہ ہمیں ترکی کی طرح ترقی کرنے کے لئے مغرب کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہو گا۔
ہمارے ملک کے اکثر فوجی آمروں کا آئیڈیل اتاترک رہا ہے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف تو کھلم کھلا اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے ترکی کے نظام حکومت کو اپنے لئے رول ماڈل قرار دیتے تھے۔ موصوف نے کچھ عرصہ ترکی میں گزارا تھا انہیں وہاں کی قومی زبان پر بھی عبور تھا اور وہاں کی عسکری قیادت کے طور اطوار سے بھی مکمل آگاہی حاصل تھی بہرحال ترکی میں سیکولر نظام اور پرویز مشرف کی طرف سے اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دینا اب ایک قصّہ پا رینہ بن چکا ہے۔رجب طیب اردگان اور عبداللہ گل کا ترکی،اتاترک اور اسکے بعد کے حکمرانوں کے ترکی سے بہت مختلف ہے۔
ترکی میں گزشتہ چند دنوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو پاکستان سمیت خطے کے ان ممالک کے لئے ایک واضح انتباہ ہے جہاں فوجی جرنیل حکومتوں کو گرانے چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ترکی کی ایک عدالت نے چند فوجی جرنیلوں کو سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں عدالت میں طلب کیا۔ترکی جہاں پر فوج کا طوطی بولتا ہے وہاں کسی جرنیل کو عدالت میں طلب کرنا ایک ناممکن سی بات تھی۔لیکن سیاسی حکومت کی بھرپور عوامی حمایت کی بدولت ترک فوج معمولی سا ردعمل بھی نہ دکھا سکی۔
اس بغاوت کا قصّہ کچھ یوں ہے کہ جب رجب طیب اردگان اور عبداللہ گل کی حکومت برسر اقتدار آئي تو فوج نے عبداللہ گل کی صدارت کی شدید مخالفت کی جسکی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ترکی کی سیکولر فوج کے لئے یہ بات قابل برداشت نہیں تھی کہ اسکے صدر کی اہلیہ اسلامی اسکارف پہنے۔لہذا انہوں نے سیکولرازم کے دفاع کے لئے حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنایا۔حکومت کو دباؤ میں لانے اور انصاف اور ترقی پارٹی کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے ترکی کی بری فوج کے سابق سربراہ جنرل دوگان،فضائی فوج کے سربراہ ائیرمارشل ابراہیم فرطانہ اور بحری فوج کے سربراہ ایڈمرل اوزون نے ایک منصوبے کے تحت استنبول کی ایک اہم مسجد میں بم دھماکے کا منصوبہ بنایا تا کہ بم دھماکے کے نتیجے میں افراتفری پھیل جائے اور حکومت مجبور ہو کر فوج کو بلا لے بم دھماکے کے ساتھ ساتھ منصوبے میں یہ بھی شامل تھا کہ یونان کے ساتھ حالات خراب کر دیئے جائیں اور ترکی اور یونان میں جنگ جیسی کیفیت پیدا کر کے ترکی میں ایمرجنسی نافذ کر دی جائے۔اس سازش کے علاوہ حکومت کے ہاتھ پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ایک تحریری دستاویز اور کئی آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بھی لگي ہیں جن میں طیب اردوگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ہوم ورک تیار کیا گیا تھا فوجی جرنیلوں نے یہ سازش سن دو ہزار تین میں تیار کی تھی لیکن حکومت نے بڑی خاموشی اور بغیر کسی شدید ردعمل کے اس سازش کو ناکام بنا دیا تھا اور کسی فوجی جرنیل کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا تھا۔حکومت مناسب موقع کی منتظر رہی اور جونہی یہ فوجی جرنیل اپنے عہدوں سے ریٹائرڈ ہوئے،عدالت نے سازش میں شریک تمام فوجی اور سول کرداروں کو عدالت میں طلب کرلیا اور اس وقت چونسٹھ کے قریب فوجی افسر حکومت کی حراست میں ہیں حکومت کے ساتھ عوام بھی میدان میں آگئی اور انہوں نے سازش عناصر کے خلاف ملک گیر مظاہرے کر کے نہ صرف فوج کو کسی قسم کا اقدام کرنے سے روک دیا بلکہ حکومت کی حمایت کر کے عدلیہ کو بھی یہ پیغام دیا کہ اگر عدلیہ نے ان فوجی جرنیلوں کے خلاف قانون کے مطابق عمل نہ کیا اور انہیں قرار واقعی سزا نہ دی تو وہ بھی عوام کے غیض و غضب سے نہیں بچ سکے گي۔
ترکی کے فوجی جرنیلوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا کہ ترکی کے ایک اور اسلام پسند سابق وزير اعظ نجم الدین اربکان نے اپنی حکومت کے تختہ الٹنے کے راز سے پردہ اٹھا دیا۔
نجم الدین اربکان کی پارٹی کو 1997ء میں پارلیمنٹ میں واضخ اکثریت کے باوجود اقتدار سے محروم کر دیا گيا تھا نجم الدین اربکان نے اس وقت کے امریکی وزارت خانے کو جاری کی گئی ایک دستاویز کو ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے پیش کیا جس میں اس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر نے ترکی میں تعینات امریکی سفیر مک کووسکی کو یہ حکم دیا تھا کہ اربکان حکومت ہمارے مفاد میں نہیں ہے اسے ختم ہونا چاہئے۔نجم الدین اربکان نے اس سازش کی تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد صحافیوں کو یقین دلایا کہ انکی حکومت کو ختم کرنے میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کا ہاتھ تھا اور انہوں نے ترکی کی فوج کو اس مقصد کےلئے استعمال کیا تھا۔
ترکی میں فوج کے ذریعے اقتدار پر قبضے اور اپنی مخالف جماعت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی یہ سازشیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ جہاں فوج اور عسکری قوتیں مضبوط ہو جاتی ہیں،وہاں سیاسی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا جاتا۔پاکستان کی مثال بھی ترکی سے زيادہ مختلف نہیں ہے ۔پاکستان میں فوج نے چار مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ ترکی میں یہ واردات تین مرتبہ انجام دی گئي،پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے اعلی عدالتوں کے ججوں اور امریکی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ایک منتخب وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جبکہ ترکی میں اسی طرح کے ایک اقدام سے وزير اعظم عدنان میندریس کا عدالتی قتل کیا گيا پاکستان میں فوجی جرنیلوں نے 1993 میں ایک منتخب وزير اعظم نواز شریف کو استعفی دینے پر مجبور کیا اور ترکی میں فوجی جرنیلوں نے وزير اعظم نجم الدین اربکان کو 1997 میں مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
دونوں ملکوں میں پائي جانے والی یہ حد درجہ یکسانیت پاکستانی سیاستدانوں کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ ترکی میں فوج کا عمل دخل اور انکے پیش کردہ سیکولر نظام میں فوج کی آئینی حیثیت پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط و مستحکم ہے لیکن وہاں کی کریشن اور بدعنوانی سے محفوظ سیاسی قیادت نے اپنی کوششوں کو جاری رکھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ فوجی جرنیلوں کو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اگر پاکستان میں سیاسی قیادت مخلصانہ انداز سے آگے بڑھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو ملکی مفادات پر قربان کرتے ہوئے جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں عسکری اور نامرئی قوتوں کا حکومتوں کو گرانے اور چڑھانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں،سیاسی قائدین مذہبی تنظيموں اور خفیہ اداروں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیئے تو نہ صرف یہ کہ طاقتور قوتیں آئین کو جیب کی گھڑی اور قانون کو ہاتھ کی چھڑی سمجھ کر ملکی مفادات پر برساتی رہیں گی بلکہ اسکا عوامی رد عمل بھی پیدا ہو گا جسکے بعد ملک کا مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں کچھ کہنے سے خوف آتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 21967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش