2
0
Wednesday 12 Dec 2012 14:24

مسئلہ فلسطین، عالم اسلام خوش ہو مگر غافل نہیں

(تازہ عالمی سیاسی منظر نامے پر خاص نظر)
مسئلہ فلسطین، عالم اسلام خوش ہو مگر غافل نہیں
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com 
 
ان دنوں حیران کن طور پر اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تیز فعالیت دیکھی جا رہی ہے، اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ کچھ تو سمجھ میں آجاتے ہیں کیونکہ غزہ کی تازہ صورت حال، شام کی خاص وضعیت، مصر میں اکھاڑ پچھاڑ، تازہ اور تبدیل شدہ امریکی حکومتی پالیسیاں اور اس قسم کے دوسرے معاملات ہیں۔ ایک خبر کے مطابق امریکی وائٹ ہاؤس نے امریکی کانگریس کی طرف سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی بھی مخالفت کر دی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں بھی سامنے آئی ہیں، لیکن ایک حیران کن تبدیلی اور بھی ہے، وہ یہ کہ حماس کے سربراہ خالد مشعل 45 سال کی جلاوطنی کے بعد اپنی ارض وطن فلسطین پہنچے ہیں، جہاں ان کا تاریخی اور والہانہ استقبال کیاگیا ہے۔
 
شیخ احمد یاسین کے بعد خالد مشعل دوسرے بڑے رہنماء ہیں جنہیں فلسطینی عوام دل سے پیار کرتے ہیں اور وہ جس شدت سے فلسطینی عوام کے پیارے ہیں اس سے کہیں زیادہ شدت سے اسرائیلی صیہونیت کو ناگوار ہیں۔ ان کے اچانک اور پرامن انداز میں جانے پر امریکہ و اسرائیل نے اتنا زیادہ واویلا نہیں کیا اور نہ ہی خالد مشعل کی آمد کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ واقعات کی توقع سے منسلک کیا ہے۔ ماضی میں جب شیخ احمد یاسین کو اسرائیلی قید سے آزادی دی گئی اور وہ فلسطین پہنچے تو انکی آمد پر بھی فلسطینی عوام امڈ آئے تھے، انہوں نے جونہی فعالیت شروع کی اور حماس کو منظم کرکے فلسطینی کاز کو آگے بڑھانے کا عمل جاری کیا تو اسرائیل نے انہیں فضائی حملے کے ذریعے بالکل اسی طرح شہید کر دیا، جس طرح حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید عباس موسوی کو شہید کیا گیا تھا۔ 

اب خدانخواستہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے تو نہیں جا رہی، کیونکہ خالد مشعل کی شخصیت اب عالمی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور وہ فلسطینی قیادت کے طور پر دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ان کا واپس آنا فلسطین کی آزادی کا پیش خیمہ ہے یا خاکم بدہن انہیں گھیر گھار کر موت کی طرف لایا جارہا ہے۔؟
ظاہری حالات میں تو یہی لگتا ہے کہ اقوام متحدہ دنیا کے معروضی حالات کے پیش نظر مسئلہ فلسطین حل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ یقیناً اس کے پس منظر میں امریکی تائید یا آشیر باد شامل ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو کس طرح کا فلسطین سامنے آنے والا ہے؟ متوقع فلسطین میں یاسر عرفات اور محمود عباس طرز کی قیادت طے ہوچکی ہے، یا خالد مشعل جیسے لوگوں کے حوالے کرنے کا پلان ترتیب دیا جا چکا ہے۔؟
 
امریکہ اور اسرائیل نے اگر غزہ کی تباہی کے بعد اور شام و مصرکے حالات کی تبدیلی کے تناظر میں فلسطین کا مستقبل طے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس کے پس پردہ امریکہ و اسرائیل کی پالیسیاں اور مفادات کارفرما ہوں گے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اقوام متحدہ کسی ملک، علاقے یا خطے کا مسئلہ حل کرنے پر آمادہ ہو اور امریکہ سے اجازت یا ہم آہنگی نہ کرلے۔ اگر اقوام متحدہ اور امریکہ کے گٹھ جوڑ سے ہی فلسطین کا فیصلہ ہونے والا ہے تو اس میں حماس کا کیا کردار ہوگا؟ کیا حماس کی شکل میں موجود تحریک انتفادہ کو مستقل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے؟ 

کیا حماس مخالف قوتوں کو آگے لا کر انہیں حماس کے ساتھ تصادم پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، تاکہ فلسطین کے اندر داخلی سطح پر ایک نیا عسکری تصادم یا انتشار پیدا کیا جاسکے؟ کیا فلسطین میں امریکی مفادات کی حامل قوتوں کو لا کر لبنان اور شام پر امریکی تسلط قائم کرنے کے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے؟ کیا یہ تمام کھیل ایران کو زیر کرنے اور کمزور کرکے جنگ مسلط کرنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے؟؟ کیا فلسطین کو اقوام متحدہ میں رکنیت میرٹ پر دی گئی ہے یا خاص شرائط کے تحت؟؟ کیونکہ امریکہ و اسرائیل کا اچانک مہرباں ہونا فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی یا ان کی مظلومیت کا اثر نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل کے اپنے مفادات و ضروریات کا مظہر ہو سکتا ہے۔ 

اس تمام عالمی اور فلسطینی صورت حال کے تناظر میں ہم ایک اہم خبر کو نظر انداز نہیں کرسکتے جس میں ’’امریکی سی آئی اے نے دنیا بھر میں اپنے جاسوسوں کی تعداد کئی گنا بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کا مقصد چین کی عسکری طاقت پر نظر رکھنا، افریقہ میں شدت پسندی اور ایران و شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنا ہے۔ اس کام کے لیے امریکی فوجیوں، سفارتی عملے اور عام شہریوں کو تیار کر لیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ اس نیٹ ورک میں زیادہ تر نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔‘‘
 
ایران کے خلاف بھی مزید پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کا پس منظر کیا ہے؟؟ کیا اندرون خانہ کسی ڈیل کے سبب ایسا ہو رہا ہے؟ یا امریکہ واقعی ایران کی طاقت اور سفارتی روابط سے بوکھلا چکا ہے؟ یا کوئی خاص چال چلنے کے لیے یہ سب مہربانیاں ہو رہی ہیں، تاکہ ایران کے خلاف مزید سخت اقدامات کی تیاری کی جاسکے؟ یا دنیا کو دکھانے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے، تاکہ عالمی سطح پر امریکہ کا تاثر مثبت اور ایران کی ضد منفی شمار ہو؟ بحرحال جو بھی ہے، ہے قابل غور۔ اگر امریکہ حقیقی معنوں میں فلسطین،ایران، شام اور افغانستان کے مسائل حل کرنے جا رہا ہے تو اسے پھر نئے سرے سے جاسوس نیٹ ورک کو منظم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔؟ سی آئی اے، ایف بی آئی اور اس کے اتحادی جاسوس ادارے پھر سے فعال ہونے کیوں جا رہے ہیں۔؟
 
ظاہری طور پر اس کا جواب یہی بنتا ہے کہ تمام تر امریکی اقدامات خالصتاً اس کے اپنے داخلی اور ملکی مفادات کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں جہاں جیسے جیسے مفادات کی نوعیت بدلتی جاتی ہے ویسے ویسے اقدامات، فیصلوں اور پالیسیوں کا انداز بدلتا جاتا ہے۔ ہمارے مسلم سیکولر طبقات، امریکہ نواز حکمران اور سیاسی جماعتیں ان ظاہری اقدامات کو دیکھ کر امریکی ہمدردی میں ڈوب جاتے ہیں، حتی کہ ڈرون حملوں، ایران کو دھمکیوں، پاکستان پر دھونس جمانے اور افغانستان و عراق کو تہس نہس کرنے کے اقدامات کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ جب سے امریکہ نے ایران پر مزید پابندیاں نہ لگانے اور فلسطینی ریاست کے قیام اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت دلوانے کی حمایت کی ہے، تب سے یہی طبقات یہ سمجھ بیٹھے ہیں اب برف پگھلنے لگی ہے اور امریکہ بہادر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے، لہذا ایران سمیت تمام مخالفین کو اپنے رویے پر نظرثانی اور پالیسیوں کی تجدید کرنی چاہیے۔ 

ہماری نظر میں یہ عین وہی پالیسی ہے جو امریکہ نے پاکستان میں اختیار کی ہوئی ہے، جس کے تحت وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ضمن میں پاکستان کے منہ میں زیرہ بھی دے دیتا ہے اور اگلے ہی روز ایک بہترین سا ڈرون حملہ کرکے پیسے وصول بھی کرلیتا ہے۔ این جی اوز کے ذریعے تعلیمی اور فلاحی اقدامات کرکے سویٹ ڈش بھی کھلا دیتا ہے اور ہم جنس پرستوں کے ذریعے ہمارے معاشرے میں زہر بھی گھول دیتا ہے۔ ہمارے عسکری و انتظامی اداروں کو تربیت کے نام پر شاگرد بھی بنا لیتا ہے اور پھر انہی اداروں میں سے قابل یا ذہین لوگوں کو اپنا ایجنٹ یا جاسوس بھی بنا لیتا ہے۔ شاید وہ مسلمانوں کی نفسیات سمجھ چکا ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ ان بیچارے غریبوں، مفلسوں، بھوکوں اور نفس پرستوں کو کیسے پھنسا کر مارا جاتا ہے۔ 

طالبان بھی خود بنائے اور انہیں مارنے والے بھی خود بنائے۔ انہیں جنگلوں اور ویرانوں میں جنگ کرنے کے لیے بھی خود بھجوایا اور پھر انہیں اپنے ہی سفارتی گھروں (سیف ہاؤسز) میں بٹھا کر دہشت گردانہ کارروائیوں کی نگرانی، مانیٹرنگ اور ذمہ داری قبول کرنے کا فریضہ بھی خود سونپ دیا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی پشاور میں موجودگی ہے، جس کا سراغ پاکستانی خفیہ اداروں نے لگایا ہے۔ 

ہمیں فلسطین کی آزادی کی پیشرفت، فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ میں رکنیت حاصل ہونے، ایران پر نرم ہاتھ رکھنے، افغانستان سے امریکی انخلاء اور اس جیسے دیگر اقدامات پر خوش ہونا چاہیے لیکن یہ خوشی کسی غفلت کا شکار بھی نہ ہو، بلکہ ہمیں شام اور مصر میں امریکی کھیل کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے۔ ہماری توجہ ایران، پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امریکی اقدامات کی طرف مبذول رہنی چاہیے۔ ہماری نظر امریکہ بھارت تعلقات اور امریکہ چین مخالفت پر بھی مرکوز رہنی چاہیے۔ ہماری نظر دنیا بھر میں امریکی جاسوس نیٹ ورک کی طرف بھی رہنی چاہیے۔ کیونکہ فلسطین کے مسئلے کے حل کی آڑ میں بہت سارے دیگر مسائل کو تقویت دی جائے گی، جس کے بعد عالم اسلام میں چند نئے بحران جنم لیں گے، جن میں شام و مصر کے بحران اور لبنان و ایران کے بحران سرفہرست ہوں گے۔
 
ہمیں توہین رسالت کے باب میں امریکہ نے ہی اپنے خلاف احتجاج کرنے پر لگا دیا ہوا ہے، ابھی ایک امریکی فلم کا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہو پایا کہ اسی قسم کا فتنہ اسپین سے اٹھنے والا ہے، جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر سڑکوں پر ہوں گے۔ پیغمبر اکرم (ص) سے ہماری عقیدت و وارفتگی اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن اس احتجاج میں مصروف ہو کر ہمیں امریکی پالیسیوں اور اقدامات سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ اور اس کے حامی تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم احتجاج میں لگے رہیں اور وہ اپنی مرضی کے اقدامات کرتے رہیں۔ لہذا عالم اسلام کو چاروں طرف نہیں بلکہ کھلی آنکھوں اور روشن دماغ کے ساتھ شش جہات پر نظر رکھنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 220540
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت خوب تجزیہ کیاہے
Germany
buat acha justify kia hy ap ny . Pury middle east ki sorat e hal par jamya magar muktasir tasveer kashi ki hy.
Es wakat jo sorat e hal hy wo kafi kof nak marahal ki tarf bi ja rahi hy. Q k amrican jariday k mutabik kuch kufia moady kiay hn askri noait k, 500 foji iraq begy hn, 2014 m afghan bi chor raha hy. Mazeed kufia kamry iran par bi laga raha hy. Aur apny jasoson ki tadad bi barha raha hy. Mugy lagta hy wo madari hy aur agly 2 k bad us k pas iran midal east aur philisten m apna khyl khly ga. Q k wo wehla nai beht sakta, bor ho jata. To ab ap batain ap ki ray kia hy!
ہماری پیشکش