0
Thursday 18 Mar 2010 13:09

ایران کے مقابلے ميں برطانیہ کا اعتراف شکست

ایران کے مقابلے ميں برطانیہ کا اعتراف شکست
آر اے سید
 برطانوی وزیر خارجہ ڈيوڈ میلیبنڈ نے کہا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پابندیوں کا حربہ کارساز نہيں ہے۔برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے دورہ چین ميں کہا کہ ہم نے بہت پہلے سے ایران پر پابندیاں لگا رکھی ہيں لیکن اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہيں کہ پابندیوں سے ایران کے ایٹمی معاملے کو حل نہيں کیا جاسکے گا۔برطانوی وزیر خارجہ نے ساتھ ہی مختلف مسائل میں چین اور برطانیہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ برطانیہ اور چین سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہيں اور ایران کا ایٹمی معاملہ دونوں ملکوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔برطانوی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف پابندیوں کے حربے کی ناکامی کا اعتراف ایک ایسے وقت کیا ہے کہ جب چین نے بارہا ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کئے جانے کی سخت مخالفت کی ہے اس کا کہنا ہے کہ مذاکرات ہی ایران کے ایٹمی معاملے کے حل کا بہترین راستہ ہيں۔
ایران کا اسلامی انقلاب اپنی کامیابی سے لیکر آج تک سامراجی اور استعماری طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا ہے ان طاقتوں نے اس انقلاب کو کامیاب ہونے سے روکنے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا،لیکن وہ اس طوفانی لہر کے سامنے کسی قسم کا پل باندھنے میں ناکام رہے۔اسلامی حکومت کی تشکیل کے دوران بھی سامراجی طاقتوں نے اپنے ایجنٹوں کو انقلابیوں کی صفوں میں بھیج کر اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی،لیکن امام خمینی(رح) کی بابصیرت قیادت اور ایرانی عوام کی آگاہی و بیداری نے ان ایجنٹوں کو بہت جلد پہچان کر انقلابیوں کی صفوں سے جدا کر دیا۔ امریکہ نے تو شروع ہی میں ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے داخلی اور خارجی کوششوں کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا تھا اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ تہران میں امریکی سفارتخانہ تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے انقلابی قوتوں کے آمنے سامنے آگیا تھا۔ایران کے خلاف جاسوسی اور اسلامی نظام کو ختم کرنے کی سازشیں اس سطح تک پہنچ گئیں کہ ایرانی طلبہ نے اس جاسوسی کے مرکز پر باقاعدہ قبضہ کر لیا اور بعد میں سفارتخانے سے برآمد شدہ خفیہ دستاویزات سے عالمی برادری کو باور کرا دیا کہ امریکی سفارتخانہ سفارتی سرگرمیوں کی بجائے اس پورے خطے میں اپنے تسلط کی سازشیں تیار کر رہا ہے۔
امریکہ کو ایران کے اسلامی انقلاب سے خدا واسطے کا بیر تھا لیکن سفارتخانے پر قبضے کے بعد تو اس کی ایران مخالف سرگرمیوں میں شدت آگئی اور اس نے اپنے سفارتکاروں کو رہا کرانے کے لئے ایک وسیع فوجی آپریشن بھی تربیت دیا لیکن ایران کے علاقے طبس میں ریت کے ایک معمولی طوفان نے امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا امریکہ نے ایران کی نئی انقلابی حکومت کو گرانے اور اسے اقتصادی بحران سے دوچار کرنے کے لئے نہ صرف صدام کے ذریعے ایک طویل جنگ مسلط کی بلکہ اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ایران کو عالمی سیاست میں تنہا اور اقتصادی میدان میں دیوالیہ کرنے کی بھی کوئي کسر باقی نہ چھوڑی۔ایران کے خلاف مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کی ایک طویل داستان ہے جو گزشتہ تیس سالوں پر محیط ہے۔مغربی ممالک نے ایران کے اسلامی انقلاب اور انقلابی حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اقتصادی پابندیوں کا سہارا لیا تھا لیکن اسلامی جمہوریۂ ایران کی طرف سے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی نے پابندیاں لگانے والے کو حیران و ششدر کر دیا ہے کیونکہ ایران کو ان پابندیوں سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ پہنچا۔
ایران کے آزاد خودمختار اور محب وطن قیادت نے مغربی پابندیوں کو ہمیشہ ایک چیلنج سمجھا اور آج برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں بے سود ہیں اور ان پابندیوں کا ماضی میں بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے امریکہ اور اسکے حواریوں خاص کر امریکی وزير خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کے حوالے سے مختلف ممالک کے طوفانی دورے کئے ہیں اور ان دوروں میں ایران کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے مختلف ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے لیکن نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔امریکی وزير خارجہ نے سعودی عرب کو بھی چین کو راضی کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی،لیکن یہ کوشش بھی بے سود رہی بلکہ بعض ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے امریکی موقف کو ماننے سے انکار کیا اور اصرار کیا کہ وہ ایران کے پروگرام کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔برازیل کے دورہ سے پہلے ہی برازيل کے صدر لوئس اناسیو نے ہلیری کلنٹن سے کہہ دیا کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی حمایت نہیں کریں گے انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ ایران کو تنہا کرنے کی کوشش دانشمندی نہیں ہے اور ہم ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حامی ہیں۔عرب ممالک،برازيل اور آخر میں چین کی طرف سے منفی جواب کے بعد امریکی حکام کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہونگی ورنہ سلامتی کونسل میں اسے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 22228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش