0
Tuesday 23 Mar 2010 11:06

طالبان۔جواب طلب سوالات

طالبان۔جواب طلب سوالات
اقبال حیدر
ملک بھر میں ہونے والے خودکش حملوں اور متواتر بم دھماکوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ،خصوصاً لاہور اور مینگوں میں ہونے والے حالیہ بم دھماکے فطری طور پورے ملک کے لئے اعصابی،ہیجان،اضطراب اور تشویش کا سبب بنے ہیں اور عوام ان انتہا پسند عسکریت پسندوں،مذہبی قوتوں،ان کے خودکش بمباروں اور نہ ختم ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی بیخ کنی کے لئے حقیقی اور موثر حکمت عملی کی تلاش کے لئے مضطرب ہیں،تاہم کچھ لوگوں کا یہ موقف ہے کہ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیار کرنا چاہئے،جبکہ مذہبی رجحانات کی حامل جماعتیں اور رہنما ان دہشت گردوں کے ساتھ سمجھوتے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کررہے ہیں:
پہلا جواب طلب سوال یہ ہے کہ ”حکومت کن سے مذاکرات کرے“۔ ہم اکثر و بیشتر طالبان کے مختلف گروپوں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں،ان میں سے کچھ ”افغانی طالبان“ اور کچھ ”پاکستانی طالبان“ کہلاتے ہیں۔ لیکن کیا ان گروپوں میں نظریاتی اور طریقہ کار کے حوالے سے کچھ فرق موجود ہے؟ حتٰی کہ کچھ لوگوں نے ان کے نام ”اچھے طالبان“ اور ”برے طالبان“ کے کیریکٹر سرٹیفکیٹس بھی جاری کر دئیے ہیں۔تاہم کن بنیادوں پر انہیں یہ شناخت دی گئی ہے یہ علم میں نہیں آسکا،اور یہ بھی غیر واضح ہے کہ یہ کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟؟ بہرحال انہیں علاقائی بنیادوں پر بھی تقسیم کیا جاتا ہے،مثلاً ”پنجابی طالبان“ اور ”پختون طالبان“ وغیرہ ممکن ہے ان کی یہ پہچان ان علاقوں میں ان کی موجودگی کی بنیاد پر ہو،لیکن کیا یہ ایک دوسرے سے کسی بھی طرح سے مختلف ہیں؟؟
اس فہرست کا اختتام یہیں پر نہیں ہوتا،بلکہ کئی عسکریت پسند کٹر اور مذہبی گروپ اسلام اور جہاد کشمیر کے نام پر پاکستان میں کام کر رہے ہیں،جیسے فضل اللہ گروپ،صوفی محمد،متعدد لشکر اور جہادی گروپ اور کئی کالعدم تنظیمیں،میں انہیں مجموعی طور پر طالبان کے زمرے میں ہی شمار کرتا ہوں۔
طالبان کی تقسیم اور ان کی درجہ بندی مختلف مذہبی فرقوں،روایات اور طریقہ کار کی پیروی کی بنیاد پر اہمیت رکھتی ہے۔تاہم ان کے عقائد اور کارروائیوں میں پایا جانے والا خفیف سا فرق بہت کم اہمیت کا حامل ہے،مگر اس سے ایک موزوں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ایک گروپ کے ساتھ کئے جانے والے مذاکرات،تمام گروپوں کو کسی پرامن سمجھوتے کی جانب لے جائیں گے؟ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر ایک گروپ کا اپنا قائد،لشکر،فوج اور مقاصد ہیں۔کیا یہ تمام تشدد پسند گروپ مشترکہ مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے رضامند ہو جائیں گے،جو کہ قطعی طور پر غیر متوقع نظر آتا ہے، اگر ایک یا ایک سے زائد گروپ خلوص نیت سے حکومت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لئے رضامند بھی ہو جاتے ہیں تو دوسرا انتہائی اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان مذاکرات کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا؟اس کے علاوہ ایسی کون سی پیشگی شرائط یا اقدامات ہیں جو کامیاب مذاکرات کے لئے سازگار حالات پیدا کریں۔لہٰذا جن گروپوں کے مابین مذاکرات ہونے ہیں اور ان کے ثالث کو (اگر کوئی ہے) تو انہیں مذاکرات کے لئے لائحہ عمل کا تعین کرنا ہو گا۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طالبان کے تمام گروپوں میں مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ وہ طاقت اور دہشت گردی کے ذریعے اپنی منفرد مذہبی روایات اور مشترکہ طریقہ کار کے تحت اپنی طرز کا مذہب مسلط کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ افغانستان میں طالبان کے دور میں ہم نے دیکھا کہ انٹرنیٹ کے استعمال اور خواتین کی تعلیم پر سختی سے پابندی،تعلیمی اداروں کی تباہی،ہر طرح کے فنون لطیفہ جیسے موسیقی،رقص اور ڈراموں،تمثیل نگاری پر پابندی،لوگوں کو داڑھی رکھنے پر مجبور کرنا، دنیا کے بیش قیمت تاریخی ورثے کو تباہ کرنا،جس کی مشہور مثال بامیان میں بدھ کے مجسمہ کا مسمار کرنا ہے،غیرمسلم خصوصاً ہندوؤں کو ان کی علیحدہ شناخت کے لئے کلائی میں،کلاوے باندھنے پر زبردستی مجبور کرنا،عدم برداشت کا رویہ اور مخالف مسلم فرقوں پر حملے،ہر طرح کے کھیلوں مثلاً کرکٹ وغیرہ پر پابندی،افغانستان کا دورہ کرنے والی پاکستان کی فٹ بال ٹیم جو میدان میں نیکر پہن کر آنے پر تشدد کا نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا اور پھر انہیں گنجا کر کے واپس وطن بھیج دینا۔اسلام کی خود ساختہ تشریح کے نام پر مخصوص نظام انصاف اور سزائیں لاگو کی جا رہی تھیں۔ اسی طرح دنیا کے جدید معاشروں کے رسم و رواج اور اسلام کے بنیادی احکامات کے برخلاف متعصب اور ناکارہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو وہاں مسلط کیا جا رہا تھا۔
مذکورہ بالا فہرست طالبان کے جائز و ناجائز اعمال اور طرز زندگی کی مکمل عکاسی نہیں کرتی۔اس حوالے سے نہایت اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان،زمانہ قبل از تاریخ کی روایات اور اپنے برانڈ کے اسلامی شعائر کو ترک کرنے پر راضی ہو جائیں گے؟
اور اگر وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر رضامند نہیں ہوتے،تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان،یا پاکستان میں طالبان کے حامی،ان کے ناقابل فہم اور جابرانہ قوانین اور شعائر کو قبول اور ان کے نفاذ کو ماننے پر راضی ہو جائیں گے؟
مجھے خوف ہے کہ طالبان کے بانی جنرل ضیاء الحق اور انہیں پروان چڑھانے والے جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے،کٹر متشدد فرقہ وارانہ مذہبی گروپوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور مصالحانہ پالیسی اپنانے سے بتدریج پاکستان ”طالبانائز“ ہو جائے گا۔ ”پاکستان کی تزویرائی گہرائی“ کی مذموم سوچ کے ایماء کے تحت طالبان سے مصالحت اور ان کی حوصلہ افزائی کی پالیسی یا طالبان کے ساتھ با رہا کئے جانے والے نام نہاد امن معاہدے جن پر مشرف دور اور ہمارے موجودہ حکمرانوں نے دستخط کئے،ان کے نتیجے میں صرف اور صرف دہشت گردی اور طالبان کے اثر و رسوخ میں روز بروز اضافہ ہی ہوا ہے جس کی وحشت خیز مثالوں اور عمومی روش کی نشان دہی کوئی بھی کرسکتا ہے۔
میں چند ایک مثالیں یاد دلانا چاہوں گا،جیسے حسبہ بل کے ذریعے متحدہ مجلس عمل اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کرنا چاہ رہی تھی،اسی دور میں ہم نے دیکھا کہ پشاور میں آلات موسیقی یا موسیقی کی ویڈیو اور آڈیو فروخت کرنے والی دکانوں کو تباہ کیا گیا،پشاور ہی میں گلوکارہ کو گلوکاری کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا،اسی طرح ایک قابل احترام اسکالر اور ”شیطان مولوی“ نامی کتاب کے مصنف کو سوات میں قتل کیا گیا۔متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت اور حتٰی کہ ترقی پسند اور روشن خیالی کی دعویدار موجودہ حکومت کے زیر نگرانی ہونے والے ضمنی انتخابات میں بعض قومی سطح کی سیاسی جماعتوں نے باہمی سمجھوتے کے تحت خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا۔مشرف دور میں ہم نے خطرناک حد تک دینی مدرسوں کی افزائش دیکھی جنہیں مہلک ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے اور ان کے استعمال کی تربیت دینے کی بھی اجازت تھی۔وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں اسلام آباد،لاہور اور کراچی میں جینز اور ٹی شرٹ یا آدھی آستین کا لباس پہننے والی خواتین کو انتباہ اور دھمکیاں دی جاتی تھیں۔
پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں جماعت الدعوة اور سپاہ صحابہ جیسی کالعدم تنظیموں کے ساتھ مسلم لیگ ن کے اتحاد سے کوئی انکار یا اسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔
یہ حقیقت حیران کن ہے کہ مسلم لیگ ن نے جو کہ پنجاب کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ان ناپسندیدہ اور کالعدم گروپوں کی حمایت کی ضرورت محسوس کی۔یہ امر واقع ہے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل تک حکومت پنجاب کی کابینہ کے اہم وزراء صوبے کے کسی بھی حصے میں طالبان کی موجودگی کو جھٹلا رہے تھے،ممکن ہے اس طرح وہ ان کی خفیہ طور پر امداد کر رہے ہوں اور عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہوں۔یہ امر بھی غیرمتوقع نہیں کہ اطلاعات کے مطابق طالبان وزیر اعلٰی پنجاب کی ثالثی پر رضامند ہیں اور قومی روزناموں میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وہ انہیں جنگ بندی کی پیشکش بھی کرچکے ہیں۔کیا جنگ بندی طالبان برانڈ یافتہ،مذہب کے مسلط کئے جانے پر ہو گی؟ 
کیا مسلم لیگ ن یا کسی بھی دوسری جماعت کے رہنماؤں کے ذریعے ہونے والی یہ جنگ بندی پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کی ضمامن ہو گی؟ عوام کو ان سوالات کے جوابات کی جستجو ہے۔
پاکستان کے عوام طالبان برانڈ کے مذہب کو جو کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور احکامات کے منافی ہے،کسی بھی حال میں قبول نہیں کریں گے،نہ ہی مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ طالبان اپنے ناقابل فہم مذہبی عقائد اور شعائر کو چھوڑ دیں گے،نہ ہی یہ ممکن دکھائی دیتا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے دست بردار ہو جائیں گے۔طالبان کے حقیقی مقاصد اور ایجنڈے کے بارے میں کسی قسم کا شک یا الجھن نہیں ہونی چاہئے،ان کا واضح مقصد مذہب کے نام پر پاکستان اور اس کے تمام وسائل،دولت اور ہتھیاروں خصوصاً ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ہے۔طالبان کے کچھ حلقوں کی جانب سے اس کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔بلکہ اپریل 2009ء میں شائع ہونے والے مصدقہ تجزیوں کے مطابق پاکستان کے گیارہ فیصد علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد طالبان نے اسلام آباد پر بھی قبضے کا پختہ ارادے کا فخریہ اظہار کیا تھا۔
اس وقت پاکستان طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے،نہ اس سے قبل،نہ ہی بھارت کے ساتھ ہونے والی کسی جنگ میں اور نہ کسی دوسری صورت میں،بصورت دیگر، ہزاروں کی تعداد میں معصوم شہری،اعلٰی سطح کے فوجی افسران سمیت ہماری فوج کے بہادر سپاہی،پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کے جوان ہلاک ہوئے ہیں۔جتنی بڑی تعداد میں طالبان کے ہاتھوں ہو چکے ہیں،ہر خودکش حملہ اور دھماکہ نہ صرف ناقابل تلافی جانی بلکہ زوال پذیر معیشت کے نقصان کا سبب بنتا ہے۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے اس عزم صمیم کا اظہار کریں کہ وہ کسی بھی حال میں یا کسی معمولی فائدے یا رواداری میں طالبان کے طرز زندگی روایات اور احکامات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں!! جنگ بندی طالبان کی شرائط اور ایجنڈے پر نہیں بلکہ صرف اور صرف دہشت گردی کے خاتمے کی صورت میں ہی قابل قبول ہو گی۔کچھ سیاسی جماعتیں،جنہوں نے بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اپنے معمولی فائدے یا انتخابات میں کامیابی کے لئے خفیہ طور پر یا کھلم کھلا طالبان کو مالی یا اخلاقی حمایت فراہم نہیں کرنی چاہئے۔جب پاکستان میں بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی کالعدم انتہا پسند عسکری مذہبی تنظیمیں اور متعدد دیگر عسکری لشکر جنہوں نے ہمارے امن اور خوشحالی کو کافی تباہ کیا،کے محافظ اور حمایتی موجود ہوں گے تو ہمیں بھارت کو الزام دینے کی ضرورت کیا ہے؟؟
ہمیں طالبان کے مذموم ارادوں اور مقاصد اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں جو کہ نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کے لئے بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کی خوشحالی اور امن کے لئے خطرہ ہے،کے خلاف اٹھنا ہو گا۔اپنے پڑوسیوں پر الزام تراشی کے کھیل کے بجائے جو صرف طالبان کے اثرات کے پھیلاؤ میں مدد دے رہا ہے،قومی اور علاقائی بنیادوں پر ٹھوس کوششوں کے ذریعے طالبان کے غیرانسانی مقاصد کو شکست دینے کے لئے ہمیں نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک خصوصاً بھارت،افغانستان،ایران اور چین کے ساتھ باہمی تعاون کی پالیسی اپنانی ہو گی۔

خبر کا کوڈ : 22411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش