5
0
Sunday 19 Jan 2014 01:41

ہفتہ وحدت، احسان عظیم

ہفتہ وحدت، احسان عظیم

تحریر: عمران خان

رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد اللہ رب العزت کی جانب سے احسان عظیم ہے۔ سید الانبیاء امام المرسلین سے منسوب ایام کو ہفتہ وحدت المسلمین کے طور پر منانے کا فلسفہ پوری ملت اسلامیہ کو اتحاد و یگانگت کی لڑی میں پروتا ہے۔ 12 تا 17 ربیع الاول پر محیط ہفتہ وحدت اپنے دامن میں بے شمار برکات و ثمرات سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کے اثرات سے پوری نسل آدم فیض یاب ہو سکتی ہے۔ انسان کو اپنے خالق سے روشناس کرانے کے لیے اللہ رب العزت نے حیات انسانی کے ہر دور میں اپنے پیغمبر بھیجے، جنہوں نے اللہ تعالٰی کے پیغام کو بندوں تک پہنچا کر انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنے خالق کی خوشنودی و رضا کے لیے اسی کے بتائے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ 

روئے زمین پر جتنے بھی پیغمبر آئے، سب نے اپنے حصے کی تعلیمات الہی اللہ کے بندوں تک پہنچائیں۔ احکام خداوندی اپنے تمام تر اصول و ضوابط کے ساتھ پورا ہونے تک نبوت کا دروازہ کھلا رہا اور اللہ رب العزت نے یکے بعد دیگرے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر روئے زمین پر بھیجے۔ ہر رسول و پیغمبر کی رحلت کے بعد اس کی امت نے اپنے نبی کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب انسان اپنی قدر و منزلت سے غافل، جہالت و ذلالت کی دلدل میں غرق، احساس محرومی کی زندگی بسر کر رہا تھا، بنت حوا شعور کی آنکھ کھولنے سے قبل صحرا کی تپتی ریت میں ہمیشہ کے لیے زندہ درگور ہو جاتیں تھیں۔ فتنہ، فساد، شر نے حیات انسانی کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا۔ عجیب عالم بےچارگی تھا، انسانیت اقدار کی ردا گنوا کر تپتے صحراؤں میں سسکتی، بلکتی مسیحا کو آوازیں دے رہی تھی۔ 

ایسے میں اس نور مبین کی آمد ہوئی، جس نے جہالت کے اندھیروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور علم و حکمت و دانش کا ایسا چراغاں کیا کہ نگاہ بشر اسکی چکاچوند کی تاب نہ لاتے ہوئے خود بخود سجدہ ریز ہوگئیں۔ یہی وہ پاک و پاکیزہ ہستی ہے جو اللہ رب العزت کی محبوب ترین ہے، جس کے لئے پوری کائنات کو خلق کیا گیا، جن سے محبت و عقیدت اور عشق رکھنے والوں کے لیے جنت انعام مقرر ہوئی اور ان سے بغض و عداوت رکھنے والوں کے لیے اور اس ہستی کی صفات و معجزات و سیرت و کردار پر شک کی نظر کرنے والوں کے لیے دوزخ وجود میں لائی گئی۔ امام الانبیاء، سیدا لاوصیاء، فخر کائنات، رحمت للعالمین، حبیب خدا، حضرت محمد مصطفے احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پہ انعام عظیم ہے۔ آپ (ص) کی آمد سے ہی انسان کو اپنے خالق کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کا موقع میسر آیا ۔آپ (ص) تمام علوم کا سرچشمہ ہیں، آپ (ص) کی رحمت سے صرف ایک خاص مکتب فکر یا صرف انسان ہی فیض یاب نہیں ہوئے بلکہ چرند پرند سمیت کائنات میں وجود رکھنے والی ہر شے آپ (ص) کی رحمت سے بہرہ مند ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ص) کی ولادت باسعادت کے موقع پر آپ (ص) سے محبت اور عشق رکھنے والے اپنے اپنے انداز میں آپ (ص) کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حضرت محمد (ص) نے دنیا کے سامنے اسلام کا ایسا جامع نظام پیش کیا جو انسانی اقدار اور تہذہب و اخلاق سمیت حیات انسانی کے ہر پہلو کو تحفظ و ناموس فراہم کرتا تھا۔ 

اللہ رب العزت نے لاکھوں انبیاء، رسل، اولیاء، اوصیاء اپنے بندوں کو صراط مستقیم سے روشناس کرانے کے لیے بھیجے اور ان تمام کو مختلف علوم و فنون، معجزات اور فضیلت و کرامات سے نوازا، لیکن آنحضرت (ص) کو ان تمام فضائل و کرامتوں اور معجزات کا سرچشمہ بنایا اور آپ (ص) کی ذات مبارکہ کے ہر پہلو کو اتنا مکمل ترین خلق کیا کہ کائنات کے تمام ظاہری و مخفی علوم آپ (ص) کی شخصیت کا حصہ بنے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ دنیا میں کسی تحریک، کسی مذہب نے قلیل وقت میں اتنی ترقی نہیں کی کہ جتنی اسلام نے کی یہ آپ (ص) کی شخصیت کا ہی اعجاز تھا کہ صرف دس سال کی قلیل مدت میں اسلام کا دائرہ 9مربع میل تک پھیل چکا تھا۔ آپ (ص) کی تعلیمات، شخصیت اور اسوہ حسنہ نے دوسرے تمام مذاہب پر اسلام کے اتنے خوش نما نقوش ثبت کئے کہ دنیا بھر کے لوگ بلاتفریق رنگ و نسل دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور آج روئے زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں مسلمان نہ بستے ہوں۔ یہ سب آپ (ص) کی عالمگیر رحمت کی بدولت ممکن ہوا۔ اسلام کا دائرہ اس قدر وسیع ہونے کے باوجود آپ (ص) نے دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا اور فرمایا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہو گی تو پورا جسم بےچین ہو گا۔ 

اتحاد و اخوت و بھائی چارے کی اس سے بہترین و جامع تعریف ممکن نہیں۔ یہ آپ (ص) کی سیرت و کردار، تعلیمات اور حسن سلوک کا ہی خاصہ تھا کہ جزیرۃ العرب سے بلند ہونیوالی لا الہ الا اللہ کی صدا پوری دنیا میں گونج اٹھی اور اسلام کا چراغ ہر گھر کو اپنے نور سے منور کرنے لگا ایسے میں اسلام دشمن عناصر اسلام کے عالمگیر و آفاقی نظام سے شکست فاش کھانے کے بعد مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے جن میں سب سے گھناؤنی اور خطرناک سازش مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھا اور ملت اسلامیہ کے فرزندوں کے درمیان اختلافات کو اس حد تک ہوا دینا تھا کہ یہ آپس میں دست گریباں ہو جائیں۔ آپ (ص) کی آمد سے دین اسلام ایک انقلاب کی صورت میں کرہ ارض پر برپا ہوا۔ جس کا ثمر یہ ہے کہ انڈونیشیا سے فجر کی اذان کی آواز بلند ہوتی ہے جو کہ سمارٹرا، ملائشیا، ڈھاکہ، سری لنکا، انڈیا، پاکستان، افغانستان، ایران، مسقط، سعودی عرب، یمن، عراق، ایران، ترکی، لیبیا، امریکہ و دیگر ملکوں میں لگاتار 11گھنٹے تک گونجتی رہتی ہے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے کہ دوبارہ ظہر و عصر کی اذان شروع ہو جاتی ہے۔ یہ آپ (ص) کی معجز شخصیت کا ہی اعجاز ہے کہ یہ کرہ ارض ایک لمحہ بھی آپ (ص) کے پیغام سے خالی نہیں رہتا۔ ماہ ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے جب حضور اکرم (ص) اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنے نور سے عالم کو منور فرمایا جس کے باعث ہر مسلمان کے لیے یہ مہینہ یکساں عقیدت و احترام کا حامل ہے۔ امام الانبیاء خاتم المرسلین سید العالمین کی ولادت باسعادت کے مبارک موقع کو پوری دنیا میں ہفتہ وحدت المسلمین 12 تا 17ربیع الاول کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تمام عالم کے مسلمان اس مبارک موقع پہ حضور نبی کریم (ص) کے ذکر سے محافل آباد کرتے ہیں اور آپ (ص) کی نمونہ عمل سیرت و کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اسلام کے بےمثل پیغام اور حضور کریم (ص) کی عالمگیر شخصیت و تعلیمات سے مستفید مسلمان دنیا میں مرکزی قوت بن کر ابھرے۔

آپ نے (ص) اپنی امت کو سب سے زیادہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا اور تفرقہ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ملت اسلامیہ کی قوت کا بنیادی راز بھی یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ص) کی ولادت کے مبارک موقع کو مسلمان ہفتہ وحدت مسلمین کے طور پر مناتے ہیں۔ دنیا بھر میں عظیم الشان اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ جن میں فرزندان توحید دامے درمے سخنے شرکت کرتے ہیں۔ محافل قرآن میں قرآت کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں نعتیہ مشاعروں میں لاکھوں ثنا خواں رحمت للعالمین کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ تمام تر محافل، اجتماعات اور میلاد کے پروگرام نہ صر ف نئی نسل کی فکری آبیاری کرتے ہیں بلکہ علمی سرمایہ میں بھی اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفٰے (ص) کی مبارک ہستی دین اسلام کی ماخذ و محور ہے۔ تمام اسلامی ملکوں میں عوامی و قومی دن اور مذہبی تہوار سرکاری سطح پر یوم کے عنوان سے منائے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں کشمیر ڈے، اقبال ڈے، لیبر ڈے، قائد ڈے کو یوم کے عنوان سے منایا جاتا ہے اور عید میلاد النبی (ص) کو بھی سرکاری سطح پر فقط ایک دن کے لیے منایا جاتا ہے۔ کیا دوسرے قومی دن اور عید میلاد النبی کی اہمیت یکساں ہے ؟۔ یقیناً نہیں، عید میلاد النبی (ص) کا بابرکت موقع فضائل، اہمیت عظمت کے پیرائے میں عظیم تر ہے جس کو وسیع پیمانے پر عقیدت و احترام اور پورے جوش و جذبے سے منانے کی ضرورت ہے جبکہ دوسری جانب مذہبی تہوار عید الفطر، عید الاضحیٰ کو سرکاری سطح پر کم از کم 2دن کے لیے منایا جاتا ہے، لیکن نور مبین، رحمت للعالمین کی آمد کے مبارک موقع کو سرکاری سطح پر عیدین جتنی بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ جو کہ قابل ندامت ہے۔ چنانچہ ہفتہ وحدت مسلمین ایک یوم کی بجائے ایک ہفتہ سید الانبیاء کے نام سے منسوب کر کے منانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا تمام اسلامی ممالک کو چاہیے کہ ہفتہ وحدت مسلمین کو سرکاری سطح پر منائیں۔ 

اسلامی تہذیب اور ثقافت کے خلاف مغرب نے جو ثقافتی یلغار کا ہتھیار استعمال کیا ہے جیسے ویلنٹائن ڈے، اس سے نمٹنے کے لیے بھی ہفتہ وحدت مسلمین بہترین وسائل فراہم کرتا ہے کیونکہ انسان کو جس کام کے لیے جتنا زیادہ وقت دیا جائے گا وہ اسے اتنے ہی احسن طریقے سے نمٹائے گا۔ قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ ہفتہ وحدت اس فرمان الہی اور احادیث نبوی (ص) کی تشریح کرتا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کی طرح ایران میں بھی ہفتہ وحدت نہایت جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اس دوران گھروں، گلیوں، بازاروں سرکاری و نجی عمارت و دفاتر ائیر پورٹس مساجد، مدارس ریلوے اسٹیشن کو روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ نعت و قرآن خوانی کے مقابلے و محافل منعقد ہوتیں ہیں۔ ایرانی خطاطی کے فن پارے دنیا بھر میں مشہور ہیں آیت قرآنی، اسم الہی اور اسم محمد (ص) کی خطاطی کے فن پاروں کی نمائش بلامعاوضہ عوام و خواص کے لیے منعقد ہوتیں ہیں۔ اسم محمد (ص) کی خطاطی کے فریم ہر گھر و دفتر کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ 

ربیع الاول کا پورا ماہ سرکاری ٹی وی و ریڈیو، اخبارات حضور (ص) کی سیرت و کردار و اسوہ حسنہ کے بیان میں متحرک رہتے ہیں۔ اخبارات کے فرنٹ پیج پر امریکی، برطانوی یا مغربی صدور کے بیانات کی جگہ ہفتہ وحدت کے پروگراموں کا احوال دیکھنے و پڑھنے کو ملتا ہے۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے پہلے سال ہی ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے کی جو کوشش کی ہے یقیناً وہ قابل ستائش ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ان کی اسلام سے دلی وابستگی اور عشق رسول (ص) کی عکاسی کرتا ہے۔ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی محافظ انقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای اور ایرانی صدر احمدی نژاد ہفتہ وحدت کو دنیا بھر میں پرشکوہ انداز میں منانے کی اپیل کی ہے۔ خاتم المرسلین حضرت محمد (ص) سے عقیدت و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ماہ ربیع الاول کے پورے مہینے کو اسلامی ممالک میں سرکاری سطح پر منایا جاتا مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ موجودہ وقت میں پاکستان سمیت ملت اسلامیہ کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے آپ (ص) کی تعلیمات و حیات مبارکہ کا ہر لمحہ اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے ہفتہ وحدت اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں تعلیمات نبوی (ص)کو فروغ دینے کا بہترین موقع ہے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ اس مبارک موقع سے پوری طرح فائد ہ اٹھائیں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی شخصیت کردار اور پیغام کو ان ممالک تک پہنچانے میں عملی اقدامات کریں جہاں اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ 

آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان فروعی، لسانی، زمینی اختلافات کو بنیاد بنا کر تقسیم در تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عراق، افغانستان، یمن، کشمیر، فلسطین اور وطن عزیز پاکستان کے حالات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفے (ص) نے امت مسلمہ کو اپنے بیان، سیرت، عمل و کردار سے جو درس دیا آج ہم نے اس سے نظریں چرائی ہوئی ہیں۔ اگر آج بھی نبی (ص) کی یہ امت محمدی یکجان ہو کر دنیاوی مسائل کے اس جنگل کو کاٹنے کے لیے کمر کس لے تو کوئی شک نہیں کہ اسلام اور اسلامی طرز زندگی کے دشمن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود ہو جائیں۔ ہفتہ وحدت کے مبارک ایام ہی وہ خوبصورت موقع ہے کہ جب مسلم حکمران اپنی عوام کے مطالبے پر اسلامک بلاک بنانے کا اعلان کریں۔ IMF، ورلڈ بینک کے چنگل سے آزادی کے لیے مشترکہ اسلامی کرنسی کے اجراء اور اسلامک بینک کے افتتاح کریں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، سوئزرلینڈ و دیگر غیر اسلامی ریاستوں میں موجود اپنے بیش قیمت اثاثے اسلامی ملکوں میں منتقل کریں۔ اسلامی ملکوں کے لیے تیل و گیس کے ٹیرف میں پچاس فیصد کمی کا اعلان کریں۔ اسلامی ممالک کے درمیان پائے جانیوالے قومی و عوامی ضرورت کے تمام تر منصوبہ جات کو یہود و نصاریٰ کے بنائے عالمی قوانین سے مستسنیٰ قرار دیکر نہ صر ف ان کی فوری تکمیل کریں بلکہ مزید منصوبہ جات کے اعلانات فرمائیں۔ ہمسایہ اسلامی ممالک آپس میں دفاعی معاہدات کریں اور اپنی سرزمین سے نام نہاد سپر پاورز کے فوجی و انٹیلی جنٹس اڈوں کو دنوں کے نوٹس پر خالی کرائیں۔ کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف امریکہ، اسرائیل یا بھارت کی جارحیت کو تمام اسلامی ممالک کے خلاف جارحیت قرار دینے کی قراداد منظور کرکے اسے قانون کے درجہ میں لائیں۔
 
OIC جو سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی ظاہر نہیں کر رہی اسلامی ممالک میں امریکی ایجنسیوں کی جانب سے ہونیوالی دہشت گردی کا نوٹس لے اور اس سے متعلق اپنے متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کرے۔ عرب حکمران بھی اب عیش و عشرت کے بجائے داخلی و خارجی خصوصاً اسلامی معاملات میں اپنی دلچسپی ظاہر کریں اور مسلمانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کے مراکز کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایران پر حالیہ پابندیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ امت کے اجتماعی مسائل کے حل سے ہی ہر مسلمان کے انفرادی مسائل حل ہونے ممکن ہیں، جبکہ موجودہ مسلم حکمران حضور (ص)کے بتائے ہوئے راستوں کے بجائے یہود و نصاریٰ کو خود پر مسلط کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آنیوالی نسلیں بھی گمراہی کا شکار ہو رہی ہیں۔ غیر اسلامی ممالک اور ان کے نظام حکومت کو رول ماڈل بنا کر انہی کی نقل کرنے کی وجہ سے روحانی و اسلامی اقدار اور اخلاقیات زوال کا شکار ہیں۔ ریاست اور عوام کے یہ مسائل اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک آپ (ص) کے احکامات کو مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں اگر آپ (ص) کی حیات مبارکہ و تعلیمات کو نمونہ عمل بنایا جائے تو فقط پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر آئے روز مختلف قسم کے مسائل کھڑے کر کے مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو بھی اسلامی ملک ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا ان کے ایجنڈے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو عالمی ذرائع ابلاغ اس کے خلاف ایک محاذ کھول کر اسے دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
کوئی بھی اسلامی ریاست ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوشش کرے تو اقتصادی پابندیوں کے نام پر اس کی معیشت تباہ کرنے کی سازش کی جاتی ہے جبکہ اسرائیل ان گنت ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود دنیائے امن کے لیے خوفناک خطرہ بنا ہوا ہے ۔ عصر حاضر میں اسرائیل نے امریکہ و اتحادیوں کے تعاون سے نیا جاسوس جدید ریڈار اور خطرناک ڈرون تیار کر لیے ہیں مگر اسلامی دنیا خصوصا عرب ممالک بےفکری کی چادر تانے سو رہے ہیں اور اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہے، جبکہ عالمی سامراج کی ہدایت پر ناجائز ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لیے ایک اسلامی ریاست شام کے خلاف اپنی قوتیں صرف کر رہے ہیں، حالانکہ امریکہ کی پوری تاریخ مسلمانوں کی قتل و غار ت سے بھری پڑی ہے۔ جس اسلامی ریاست نے اس کا ساتھ دیا یا اس کی پالیسیوں کا حصہ بنے انہی کو امریکہ نے اپنا شکار بنایا جس کی مثال عراق و افغانستان ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ عصر حاضر میں امریکہ اور اس کے ہم نشین وطن عزیز پاکستان کے خلاف بڑی شدت پسندانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں ان اسلام دشمن، پاکستان دشمن عناصر نے پاکستان کی سرزمین کو اپنے لیے ایک جنکشن بنایا ہوا ہے آئے روز ان کے سرکاری و غیر سرکاری وفود کی آمد، بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں نے ملک کو ان گنت مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس خطے میں امریکی آمد سے قبل خودکش حملوں کا نام تک نہیں سنا گیا تھا اور اب آئے روز بےگناہ شہری ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 

ان کی پالیسیوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کو بھی یہ عراق و افغانستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جہاں سکول، یونیورسٹیاں، عدالتیں بند پڑی ہیں اور معیشت صفر ہو کے رہ گئی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں اگر ایک سال کے لیے بھی غیر ملکی (امریکی، یورپی، مغربی) آمدورفت پر پابندی عائد کی جائے تو کوئی شک نہیں۔ 2013ء ان اسلام دشمن، پاکستان دشمن سامراجی طاقتوں کے لیے خطے میں زوال کا سال ثابت ہوگا۔ اسلام دشمنی میں پیش پیش ان ممالک کی جانب سے آئے روز گستاخانہ خاکے، فلمیں اور متعدد مکروہ عوامل سامنے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ اسلامی ممالک سفارتی تعلقات منقطع نہیں کرتے۔ موجودہ وقت میں ایران، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، شام، عرب امارات، اور دیگر آزاد اسلامی ممالک کے اسلامی بلاک کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ اسلامی ممالک اگر دفاع، معیشت، تعلیم اور روزگار کے حوالے ایک یونین تشکیل دیں اور اپنے اہداف مشترکہ بنیادوں پر حاصل کرنے کی کوشش کریں تو قلیل مدت میں نہ صرف یہ ممالک تعمیر و ترقی کی دوڑ میں بہت آگے ہونگے بلکہ دفاعی لحاظ سے اس قدر مضبوط ہو چکے ہونگے کہ کوئی بھی نام نہاد طاقت ان پر حملہ یا ان کے وسائل پر ناجائز تسلط قائم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ یہود و نصاریٰ سے عشق و پیار کی پینگیں بڑھانے کا ہی اثر ہے کہ ربیع الاول کے مبارک موقع پر پاکستان ایک ساتھ کئی طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ 

ایک طرف اہل تشیع کی نسل کشی کے خلاف پورے ملک کے عوام یخ بستہ سرد موسم میں مسلسل 3دن سٹرکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے جس میں دہشت گردی کا شکار ہونیوالے 86 جنازے بھی تدفین کے منتظر رہے۔ جس کے نتیجے میں بلوچستان حکومت مظلوموں کی آہوں و سسکیوں میں بہہ گئی اور وہاں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ دوسری جانب لاکھوں لوگ پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی برطرفی کے مطالبے کے ساتھ موجود تھے ۔ اس سے قبل کہ وہ مظاہرین حکومت کے ایوانوں میں داخل ہوتے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو گئے۔ جہاں اندرونی طور پر عوام اور اداروں کے درمیان خلاء بڑھ جائے وہاں قریب کے دشمن بھارت نے سرحدوں پر محاذ کھول دیئے۔ یہ امتحان ہے ملک کے لیے۔ قوم کے لیے اور باعث شرم و ندامت ہے ان سامراج پرست حکمرانوں کے لیے جنہوں نے ملک میں ایسے حالات پروان چڑھائے۔ یقیناً یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس اور تعلیمات سے روگرانی و چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ اسلامی ریاستوں میں نظام اسلامی کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غربت ختم نہیں ہوتی کیونکہ زکوۃ کا نظام شفاف اور اسلامی طرائق کے مطابق نہیں۔ وسائل اور خرچ میں توازن پیدا ہونے کا نام نہیں لیتا کیونکہ حکمران سادگی،میانہ رووی کے بجائے شاہ خرچیوں کے دلدادہ ہیں۔ 

اس میں کوئی شک نہیں اگر آپ (ص) کی حیات مبارکہ و تعلیمات کو نمونہ عمل بنایا جائے تو فقط پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حضور (ص) کی پاکیزہ ہستی صرف مسلمانوں کے لیے ہی قابل احترام نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے یکساں واجب تکریم ہے کیونکہ آپ (ص) تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس جہاں میں تشریف لائے۔ یہ آپ (ص) کی شخصیت کا ہی اعجاز تھا کہ عہد جاہلیت میں جب آپ (ص) نے کفار مکہ سے یہ فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے۔ تو کفار مکہ نے جواب دیا کہ ہاں بالکل ہم یقین کریں گے کیونکہ آپ (ص) نے کبھی غلط بیانی نہیں کی۔ عہد جاہلیت میں رہنے والے کفار مکہ آپ (ص) کی صداقت اور صفات کے اس قدر قائل تھے۔آپ (ص) نے اسلامی مملکت میں رہنے والی اقلیتوں کے ساتھ احسن برتاؤ کی مثالیں قائم کیں جن کی روشنی میں آج بھی دنیا میں اقلیتوں کے حوالے سے قانون سازی کی جاتی ہے ۔ حضور نبی کریم (ص) نے اپنی پوری حیات مبارکہ میں اپنے عمل و کردار سے دوسروں کے حقوق کا اس انداز سے تحفظ کیا جو تمام بنی نوع انسان کے لیے مینار ضیاء ہے۔ آپ (ص) اس حد تک شفیق و محبت کرنے والے تھے کہ آپ (ص) نے جانوروں تک کے حقوق مقرر کئے۔ آج سے سینکڑوں برس قبل آپ (ص) نے اپنی حیات مبارکہ میں صحت کے حوالے سے جو قواعد و ضوابط مقرر کئے۔ آج علم طب کی جدید تحقیقات کے بعد انہی قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے پہ اصرار کیا جارہا ہے۔آپ (ص) کے فضائل و علوم و حکمت کا کوئی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ (ص) ایک طرف زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین معلم ہیں تو دوسری جانب اللہ رب العزت کے حضور بھی افضل ترین ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید سے قبل جتنی بھی الہامی کتابیں یا صحائف نازل ہوئے ان سب نے آپ (ص) کی آمد و نبوت کی گواہی دی ہے۔ چنانچہ تمام الہامی مذاہب کے پیروکاروں پر نہ صرف آپ (ص) کا احترام واجب ہے بلکہ آپ (ص) کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی سنوارنا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونا ان کے اپنے مذہب کی تکمیل میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ الہامی مذاہب کے پیروکاروں کی ہے۔ ہفتہ وحدت میں آپ (ص) سے عقیدت و محبت رکھنے والے پروانوں کی طرح میلاد کی محافل میں شریک ہوتے ہیں اور آپ (ص) کے نام کے ورد سے دلوں کو روشن و منور کرتے ہیں۔ احادیث مبارکہ اور نعت خوانی کے مقابلوں میں ہر کوئی اپنے اپنے انداز فکر سے آپ (ص) کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ربیع الاول کے بابرکت ماہ میں ہفتہ وحدت ذکر رسالت مآب سے منور و روشن ہے جس کے ثمرات و برکات کا کوئی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

خبر کا کوڈ : 233000
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ما شاءاللہ
فکر امام خمینی سے استفادہ معاشرے کی اہم ضرورت ہے ۔اللہ تعالٰی آپ تمام لکھنے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
United Kingdom
Very nice article brother imran
Pakistan
Great Article Imran bhai...
Pakistan
Great effort Imran Bhai, MashaAllah
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ عمران بھائی، ہمیشہ کی طرح بامقصد اور مفید لکھا۔
ہماری پیشکش