QR CodeQR Code

امریکا اسرائیل تعلقات اور عرب قائدین

10 Apr 2010 10:52

اسلام ٹائمز:اگر عرب قیادت میں فکری صلاحیت ہوتی تو وہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی پرامن حل ہی پیش کرتی،مگر عرب قائدین نہ جہاد کر سکتے ہیں،نہ ہی ان میں تفکر کی صلاحیت ہے،عرب قائدین کی یہ ہمہ گیر نااہلی صرف عربوں کا نہیں پوری امت مسلمہ کا المیہ بن گئی ہے


شاہ نواز فاروقی
امریکا جس وقت اسرائیل سے کہہ رہا تھا کہ وہ مشرقی بیت المقدس میں 1600 گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ترک کر دے۔ٹھیک اسی وقت اسرائیل کا وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو واشنگٹن میں یہودیوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کر رہا تھا کہ بیت المقدس ہمارے لیے کوئی عارضی بستی نہیں ہے،بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے اس اعلان نے امریکا کو ایک ایسی سبکی سے دوچار کیا جس کا اسے تجربہ نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واشنگٹن میں نیتن یاہو کی امریکا کے صدر بارک اوباما سے ملاقات تو ہوئی لیکن ملاقات کے بعد نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا،نہ دونوں ملکوں کے رہنماﺅں نے روایت کے مطابق مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔یہاں تک کے وہ تصاویر کے لیے ایک ساتھ ذرائع ابلاغ کے سامنے بھی نہیں آئے۔اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ امریکا خود کو دنیا کی واحد سپرپاور کہتا ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی تمام اسرائیل نوازی بلکہ اسرائیل پرستی کے باوجود امریکا خود کو مشرق وسطیٰ میں واحد موثر مصالحت کار کہتا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کے اعلان نے امریکا کی اس حیثیت کو گہرے شکوک وشبہات سے دوچار کر دیا۔ 
تجزیہ کیا جائے تو امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ کشیدگی کا منظر ہے اور ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی نایاب ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کشیدگی کی اہمیت ہے اور اس کشیدگی نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ اب امریکا اسرائیل تعلقات میں کیا ہو گا؟ یعنی امریکا اسرائیل تعلقات اس مرحلے سے کہاں جاسکتے ہیں؟۔اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ امریکا میں کانگریس کے وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور امریکا کی یہودی لابی ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کو دباﺅ کا شکار کر دے گی جس کے نتیجے میں اوباما انتظامیہ بیت المقدس میں گھروں کی تعمیر روکنے کے مطالبے سے دستبردار ہو سکتی ہے۔اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اوباما انتظامیہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہوتی ہے تو مشرقی وسطیٰ میں امریکا کی ساکھ کا کیا ہو گا؟۔اس سوال کا ایک جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ نیتن یاہو اس سلسلے میں اپنے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے مکانات کی تعمیر کے منصوبے کو ترک یا کم ازکم ملتوی کر دے گا۔تاہم اس صورت میں اس کی دائیں بازو کے ساتھ قائم حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورت میں نیتن یاہو اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون کی قدیمہ پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنا سکتا ہے۔مغربی مبصرین اس سلسلے میں یہ رائے بھی پیش کر رہے ہیں کہ اگر اوباما انتظامیہ نے مکانات کی تعمیر کے منصوبے کو ترک کرنے پر اصرارکیا اور امریکا کے ساتھ سیاسی تصادم نیتن یاہو کے لیے بوجھ بن گیا تو وہ منظرنامے کو یکسر تبدیل کرنے کے لیے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔اس صورت میں امریکا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہو گا کہ وہ اسرائیل کا ساتھ دے اور مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کی عینک سے دیکھے۔ 
امریکا اسرائیل تعلقات کی خرابی کا ایک پہلو یہ ہے کہ جن دنوں امریکا اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی،انہی دنوں میں برطانیہ نے لندن کے سفارت خانے میں تعینات اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک اعلیٰ اہلکار کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک سے نکال دیا۔اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ دبئی میں موساد کے ایجنٹ حماس کے رہنما محمود المبوح کے قتل میں ملوث پائے گئے اور ان ایجنٹوں نے برطانیہ کے ایسے شہریوں کے پاسپورٹ سفر کے لیے استعمال کیے جو بیک وقت برطانیہ اور اسرائیل کے شہری ہیں۔برطانیہ نے جوابی اقدام کے طور پر موساد کے اعلیٰ اہلکار ہی کو ملک بدر نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے شہریوں کو اسرائیل نہ جانے کا بھی مشورہ دیا۔
امریکا اسرائیل اور برطانیہ اسرائیل تعلقات کے اس منظرنامے کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ عرب دنیا میں اگر ذرا سی بھی بصیرت ہوتی تو وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتی۔عرب دنیا کے اہم ملکوں،اسلامی کانفرنس کی تنظیم بالخصوص عرب لیگ کا فرض تھا کہ وہ اس صورتحال کو مغربی دنیا بالخصوص امریکا میں اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بروئے کار لاتی۔لیکن اس موقع پر عرب دنیا سے صرف ایک بیان آکر رہ گیا۔اس بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کا تکبر اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ کسی اور کو کیا امریکا کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔بلاشبہ اس مرحلے پر لیبیا میں عرب لیگ کا سربراہ اجلاس ہوا،جو دو دن جاری رہا،لیکن اجلاس میں اسرائیل کی روایتی مذمت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ 
سوال یہ ہے کہ اگر عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کو اسرائیل کی مذمت کے سوا کچھ بھی نہیں کرنا تھا تو اجلاس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہ کام تو عرب رہنما اپنی خواب گاہوں میں بیٹھ کر بھی کر سکتے تھے۔عرب لیگ کا یہ اجلاس اتنا افسوس ناک تھا کہ حماس کے ترجمان کو کہنا پڑا کہ اجلاس سے فلسطینیوں کی امید میں نہیں،مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو عرب دنیا نے اسرائیل کے خلاف مغرب میں رائے عامہ ہموار کرنے کا ایک تاریخی موقع ضائع کر دیا ہے۔یہ صورتحال عرب قیادت کے ہمہ جہت بانجھ پن کی مظہر ہے۔تجزیہ کیا جائے تو عرب رہنما اخلاقی قوت سے محروم ہیں۔عرب رہنماﺅں کے پاس اخلاقی قوت ہوتی تو وہ اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے۔عرب رہنماﺅں میں یہ استعداد بھی نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے سلسلے میں مغرب بالخصوص امریکا پر اثر انداز ہوسکیں۔بدقسمتی سے عرب قیادت فکری طور پر بھی بانجھ ہے۔اس میں فکری صلاحیت ہوتی تو وہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی پرامن حل ہی پیش کرتی۔مگر عرب قائدین نہ جہاد کرسکتے ہیں۔نہ ہی ان میں تفکر کی صلاحیت ہے۔عرب قائدین کی یہ ہمہ گیر نااہلی صرف عربوں کا نہیں پوری امت مسلمہ کا المیہ بن گئی ہے۔




خبر کا کوڈ: 23340

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/23340/امریکا-اسرائیل-تعلقات-اور-عرب-قائدین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org