0
Sunday 11 Apr 2010 14:09

اوباما کی جوہری گیمز

اوباما کی جوہری گیمز
 ڈاکٹر شیریں مزاری
اوباما انتظامیہ کے تحت امریکہ کی پالیسی میں ایک دلچسپ پیشرفت ہوئی ہے اس حوالے سے جب کوئی ماضی کی طرف دیکھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اوباما نے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کیلئے بہت کچھ کیا اور یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے عزم کا اظہار کرتے رہے۔لیکن پھر اقتدار میں آنے کے بعد کچھ بدل گئے اور بہت سے ایشوز پر صدر اوباما کا عالمی نقطہ نظر اس سے یکسر تبدیل ہو گیا جو موقف انہوں نے بطور صدارتی امیدوار اپنا رکھا تھا۔یہ صرف کشمیر نہیں کہ وہ اپنے موقف سے پلٹا کھا گئے بلکہ ایٹمی تخفیف کے معاملہ پر بھی انہوں نے اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کر لی۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اب وہ امریکہ کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے فوجی استعمال کو بھی منطقی شکل دے رہے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ انکی انتظامیہ یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو محدود بنا رہی ہے لیکن کسی بھی صورتحال میں انکے استعمال کا اب بھی یہ مطلب ہے کہ فوجی طاقت کو معتدل بنایا جا رہا ہے اور یہ بہت بڑی ’’رعایت‘‘ یا تبدیلی ہے جو امریکہ دنیا کو بتا رہا ہے کہ وہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے اور اوباما اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے اسی طرح سختی کیساتھ کاربند ہیں جیسے کہ وہ صدر بننے سے پہلے پرعزم تھے۔
مزیدبرآں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کی بش کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے اوباما انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اپنے دفاع کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی نئی محدودات کا اطلاق ایران اور شمالی کوریا جیسے دروغ گوئی میں حد سے بڑھ جانیوالے ممالک پر نہیں ہو گا۔اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہے کہ قریب واقع ہونے کے باعث ایران میں ہونیوالے ایٹمی ہتھیاروں کے تابکاری اثرات کا شکار پاکستان بھی ہو گا۔
دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے کہ وہ انسداد جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں سچا ہے،اوباما نے نہ صرف یہ اعلان کرنے کی جانب پیشقدمی کی کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کی پالیسی نہیں اپنائے گا۔اسکے برعکس امریکہ کی نئی حکمت عملی میں محض یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کے خلاف وہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کریگا،اسکے باوجود کہ امریکہ کیخلاف تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں کو بھی استعمال کیا جائے بلاشبہ یہ توقع بھی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر نئی حکمت عملی کا مقصد نئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی جانب کسی بھی پیشرفت کو روکنا ہے اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرات کو مختلف سطح کے آپشنز کی ایک سیریز کے ذریعے روکا جائیگا۔
ایٹمی پالیسی پر نظرثانی امریکہ کی تمام حکومتوں کی جانب سے کانگریس کیلئے ضرورت رہی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اوباما کس حد تک آگے بڑھتے ہیں۔لیکن واضح طور پر وہ اپنے پہلے بیان کردہ اس مقصد کے قریب بھی جاتے دکھائی نہیں دیتے کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائیگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی عین اس وقت آئی ہے جب اوباما روس کے صدر میدویدف کیساتھ سٹریٹجک ہتھیاروں میں کمی کے تاریخی (سٹارٹ) سمجھوتے پر دستخط کرنے کیلئے پراگ روانہ ہوئے۔تاہم ہمارے نقطہ نظر سے کسی اور چیز سے بڑھ کر سٹارٹ ایک ظاہری چمک دمک رکھنے والا معاہدہ ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دونوں ممالک کا سامنا اب بھی باقی دنیا سے آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہو گا،موثر طور یہ اخراجات کم کرنے کا سمجھوتہ ہے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے وہ یہ کہ ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کا امریکہ اور روس کا حقیقی مطلب کاروبار ہو سکتا ہے اس سمجھوتے کے لوازمات پر محض ایک نظر ڈالنے سے ہی معاملات کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔
آغاز میں یہ سمجھوتہ بشمول پروٹوکول اور منسلکہ اضافہ جات کو امریکی سینیٹ میں توثیق کیلئے پیش کیا جائیگا اور ہر ممکن امکان ہے کہ اس مرحلے پر اسکی توثیق میں پس و پیش کا مظاہرہ کیا جائیگا،جیسا کہ اس سے پہلے سی ٹی بی ٹی اور امریکہ سوویت ہتھیاروں پر کنٹرول کے دوطرفہ معاہدوں کے معاملے پر کیا جا چکا ہے اس سمجھوتے کے تحت امریکہ اور روس کو سات سالوں میں سٹریٹجک جارحانہ ہتھیاروں میں کمی کرتے ہوئے محض چند اسٹریٹجک ہتھیاروں تک آنا ہو گا۔اسکے ساتھ ہر فریق کو اپنا اسٹریٹجک ہتھیار نہ رکھنے کے اسٹرکچر کا از خود تعین کرتے ہوئے سمجھوتے کے مجموعی حدود کے اندر آنا ہو گا۔لیکن جب دونوں فریقوں کے پاس ان ہتھیاروں کی بہتات ہے کہ اس صورت میں ان میں کٹوتی سے محض انکی استعداد میں فرق پیدا ہو گا۔خصوصاً جب امریکہ روس کی بجائے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو خطرہ سمجھتا ہے۔ مجموعی حدود کیا ہیں؟ 1550 ہتھیاروں کی اطمینان بخش تعداد یہ چاہیے انٹرکانٹینیٹل بیلسٹک میزائلز پر نصب ہوں یا سمندر سے داغے جانیوالے بیلسٹک میزائلز پر لگے ہوں جبکہ کئی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایسا بمبار نئی حد کے تحت صرف ایک وار ہیڈ شمار ہو گا۔مزید برآں 800 نصب شدہ غیر نصب شدہ آئی سی بی ایم لانچرز،ایس ایل بی ایم لانچرز اور بھاری ایٹمی صلاحیت والے بمباروں کی ایک کمبائنڈ حد ہو گی۔
آخر میں ایک الگ حد 700 نصب شدہ آئی سی بی ایمز نصب شدہ ایس ایل بی ایم اور نصب شدہ ایٹمی صلاحیت والے بھاری بمباروں کی ہو گی۔اس سمجھوتے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ میزائل ڈیفنس اور کنونشنل سٹرائیکز پر کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔لہٰذا یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ میزائل ڈیفنس قطع نظر خلا کو ہتھیار بند بنانے کے ایٹمی ہتھیاروں کے جنگی استعمال کو بھی زیادہ معقول بناتا ہے لہٰذا امریکہ اور روس کے اس معاملے پر عزائم کو قطعی واضح ہونا چاہیے۔ اوباما میزائل ڈیفنس کے بش ایجنڈا کو جاری رکھے ہوئے ہیں جیسا کہ بش کی دیگر فوجی پالیسیوں کو روا رکھا گیا ہے۔
بلاشبہ یہ تمام جوہری ناٹک واشنگٹن میں عالمی ایٹمی سیکورٹی سربراہ کانفرنس سے پہلے رچائے جا رہے ہیں اسکے ذریعے دنیا کو یہ تاثر دیا جائیگا کہ امریکہ ایٹمی تخفیف کے معاملے پر سنجیدہ ہے جبکہ درحقیقت اس کا مقصد آج کی اسٹریٹجک اور اقتصادی مجبوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے محض ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو معقول بنانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت کیساتھ ایٹمی سمجھوتے اور اسرائیل کی ایٹمی پروگرام میں معاونت اور ایران کو نشانہ بنا کر کہ وہ عدم پھیلاؤ سمجھوتے میں دی گئی اجازت کے تحت کم گریڈ والی یورینیم افزودہ کرنے کا اپنا حق استعمال کر رہا ہے۔این پی ٹی کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے یہ سب کچھ ایٹمی پالیسی کے ذریعے تحریر میں نہیں لایا جا سکتا،جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں کمی کا دعویٰ کیا جا سکے لیکن جواب بھی اسے ریشنل پالیسی آپشن کے طور پر دیکھتا ہے نہ ہی سٹارٹ کے ذریعے جو امریکہ اور روس کے پاس ایک وسیع ایٹمی اسلحہ خانہ چھوڑتا ہے اور میزائل ڈیفنس پر کسی کنٹرول کی بات نہیں کرتا،جہاں تک ٹیکنیکل اور میدان جنگ میں استعمال کئے جانیوالے ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ ہے،ایٹمی اسلحہ خانے میں کمی کے کسی امریکی منصوبے میں اسکا ہر گز کوئی ذکر نہیں ہے۔
کیا امریکہ باقی دنیا کو واقعی اس قدر بیوقوف خیال کرتا ہے کہ امریکن صدر اوباما کسی 2009ء میں پراگ میں کی گئی اہم تقریر جس میں ایٹمی تخفیف سی ٹی بی سی اور دیگر وعدے کئے گئے تھے ایک سال بعد بھی انہیں پورا نہیں کیا گیا۔اب اوباما صرف سربراہ کانفرنس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ دنیا ایک ایسے ایشو پر امریکہ کو آزادانہ سواری کی اجازت نہیں دیگی جس کا وہ بہت بڑا اور انتہائی تسلسل کیساتھ قصور وار رہا ہے۔ 
امریکہ کا یہ کہنا کس قدر بے سروپا ہے کہ پاکستانی فوج کو تربیت دینے کے حصہ کے طور پر وہ ’’رول آف لاء فریم ورک‘‘ کے اندر تفتیشی ٹریننگ دے رہا ہے امریکہ کے عراق بگرام اور گوانتانا مو کے اپنے ریکارڈ کا واضح طور پر حوالہ دیا جا سکتا ہے لیکن صرف یہ مثالیں ہی نہیں کہ امریکی فوج جہاں تک اسکے قیدیوں کا معاملہ ہے انسانی وقار اور حقوق کے احترام کا قطعی کوئی نظریہ نہیں رکھتی!
وائٹ ہاؤس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی امداد ان فوجی یونٹوں کو فراہم نہ کی جائے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔بالکل بجا لیکن کیا پہلے خود امریکہ کو اس معاملے میں اپنی فوج کو شفاف نہیں بنانا چاہیے؟
یقینی طور پر کسی پاکستانی ریاستی تنظیم کی طرف سے ماورائے عدالت قتل سے چشم پوشی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسکی مذمت کی جانی چاہیے،لیکن امریکہ کی اس منافقت کی نشاندہی بھی ضروری ہے جو وہ اس معاملہ پر ایک اعلیٰ اخلاقی جواز اپنانے کی کوشش کے طور پر کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 23440
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش