0
Tuesday 13 Apr 2010 11:52

بجلی کا بحران اور کمیشن کی چاشنی

بجلی کا بحران اور کمیشن کی چاشنی
 آر اے سید
اسلام ٹائمز:برادر اسلامی ملک نے امریکہ کے کیری لوگر بل کی طرح پاکستان کے وقار کے منافی شرائط عائد کرنے کی بجائے اس کے احترام کا اعادہ کیا ہے۔اس کے باوجود اس سستی بجلی کے حصول میں دلچسپی کا فقدان نظر آئے تو بعض حلقوں کی اس تاویل میں وزن نظر آنے لگتا ہے کہ شاید ایرانی پیشکش میں کمیشن کی وہ چاشنی شامل نہیں،جو عالمی مالیاتی اداروں کے اعتراض کے باوجود رینٹل پاور پراجیکٹس میں نظر آتی ہے
پے در پے بحرانوں نے پاکستانی عوام کو ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بن کر احتجاج کرتے ہوئے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے چینی اور آٹے کے بحران نے صورتحال اتنی گھمبیر بنا دی تھی کہ سستا آٹا لینے کے چکر میں کئی عورتیں دنیا کے اس چکر سے آزاد ہو کر آٹے،چینی اور بجلی سے ہمیشہ کے لئے بے نیاز ہوگئیں۔آٹے اور چینی کے بعد آج کل بجلی کا بحران اپنے عروج پر ہے۔غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا اور عوام کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔
پاکستان میں توانائی بالخصوص بجلی کا بحران انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔لوڈشیڈنگ سے تنگ عوام نے زبانی کلامی احتجاج کے بعد اب اشتعال انگیز مظاہروں اور پرتشدد احتجاجوں کا ملک گیر سلسلہ شروع کر دیا ہے۔پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک پہنچ گئی ہے اور سڑکوں سے ایوانوں تک بجلی کی قلت اور حد سے زیادہ لوڈشیڈنگ کے خلاف صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔بجلی کی کمی کی وجہ سے ایک طرف گھریلو صارفین تنگ آمد بجنگ آمد کا مصداق بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت بجلی کی بار بار بندش سے سخت پریشان ہے۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ صرف روشنی اور پنکھا چلنے تک محدود نہیں ہے بلکہ بجلی کی کمی نے انسانی زندگی اور ملکی اقتصادی کو مکمل طور پر معطل کر دیا ہے۔پاکستان میں توانائی کے بحران کے بارے میں مختلف تجزیے تبصرے سامنے آ رہے ہیں،کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس میں حکومتی نااہلی کا عمل دخل ہے۔کچھ آگاہ افراد بدعنوانی اور کرپشن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ ایک حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسئلہ توانائي کا بحران نہیں بلکہ ملک میں جان بوجھ کر بجلی کا بحران پیدا کرنا ہے،تاکہ عوام کی توجہ کو اہم ایشوز سے ہٹا کر لوڈشیڈنگ کی طرف مبذول کرائی جائے۔ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار اور اہم حکومتی عہدیدار اوریامقبول جان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ:
لوگوں کو اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے بجلی کے جعلی بحران کو پیدا کرنے کا آغاز اس وقت کیا گیا جب پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو سپریم کورٹ کے 60 ججوں کو گرفتار کیا اور پھر دیکھئے ایک دم ہمارے دریاؤں کے سوتے خشک ہو گئے،بجلی کے پاور ہاؤس کام کرنا چھوڑ گئے۔نومبر 2007ء میں صرف 9،679 میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی اور ضرورت 12،154 میگاواٹ تھی۔یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 2،475 میگاواٹ کی کمی سامنے لائي گئی۔اس ایک ماہ میں نہ دریاؤں نے رخ بدلے،نہ نئے کارخانے لگے اور نہ ہی لاکھوں کی تعداد میں ائرکنڈیشنڈ خریدے گئے۔لیکن بجلی کی کمی کا تاریخی بحران پیدا ہو گیا۔اوریا مقبول جان کے بقول اس بحران کے کچھ عرصہ بعد حکومتیں بدلیں اور نئی حکومت نے نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا۔ڈرون حملوں کی تعداد بڑھی،یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ کے سروے کرنے والوں نے بتایا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت امریکہ کو بھارت سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ایسے میں اگر عوام سکھ کا سانس لے رہے ہوتے تو وہ ان حملوں پر سراپا احتجاج کرتے،لیکن لوڈشیڈنگ کیا خوبصورت طریقہ ہے لوگوں کو اپنے اپنے عذاب میں مبتلا کرنے کا۔اپریل 2008ء میں بھی گذشتہ سال کی طرح صرف 9،856 میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی،لیکن میرے ملک کے ان عظیم رہنماؤں کا کمال دیکھئے کہ اس بجلی کے بحران / لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کی ضروریات میں حیران کن اضافہ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔کہا گیا کہ بجلی کی ضرورت اب 15 ہزار میگاواٹ ہے،یوں بجلی کی کمی 60 سالوں کا ریکارڈ توڑتی ہوئی 3،700 میگاواٹ تک جا پہنچی۔کوئی سوال کرنے والا نہ تھا کہ صرف دو ماہ میں کون سی نئی فیکٹریاں لگ گئی تھیں۔کیا سارے ملک کی سڑکوں پر بلب لگا دیئے گئے تھے،لاکھوں لوگوں نے ائرکنڈیشنڈ خرید لئے تھے کہ ایکدم اس ملک میں ایک ہزار سے زيادہ میگاواٹ بجلی کی ضرورت زیادہ ہو گئی۔اوریا مقبول جان سرکاری اعداد و شمار پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں ظاہر ہے بحران تو تب ہی ہو گا جب ضرورت بڑھا کر پیش کرو اور پیداوار کم کر کے دکھاؤ۔یہی وہ بحران تھا جو پیدا کیا گیا۔
اوریا مقبول جان کے دیئے گئے اعداد و شمار پر شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا ایک تو وہ بیوروکریسی کے آدمی ہیں،دوسری طرف آج کل پنجاب کے وزیر اعلی کی میڈیا ٹیم میں شامل ہیں۔ان پر ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ وہ پنجاب حکومت کی ایما پر وفاقی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں،لیکن ان کا ماضی اور مضمون میں درج اعداد و شمار کے ساتھ سرکاری کا لفظ اور سرکار کی طرف سے ابھی تک ان اعداد و شمار پر کوئی تبصرہ نہ آن کافی ہے اوریا مقبول جان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایکشن اور اس کا قلع قمع کرنے کے دعوے شروع نہیں ہوئے تھے،نہ ہماری ضرورت کبھی 1400 میگاواٹ سے بڑھی تھی اور نہ ہی ہماری پیداوار اس قدر کم ہوئی تھی کہ 1000 میگاواٹ سے زيادہ کمی ہو۔لیکن ادھر ہم نے اپنے شہریوں پر امریکہ کو حملوں کی اجازت دی،خود اس جنگ میں کودے اور ادھر ہماری بجلی کی ضروریات بھی بڑھ گئیں، شاید ہم بہت زیادہ امیر ہو گئے،ہمارے اندر اکثر لوگ صنعت کار ہو گئے،شہر جگمگ کرنے لگے اور ہم اتنے شاہ خرچ ہو گئے کہ بجلی کی ضرورت پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ادھر کارخانے بند ہیں،گھر ویران ہیں اور ضرورت یعنی ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ایسا مذاق عموما" قوموں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔یہ نئی چال ہے اور نہ نیا حربہ۔
بجلی کے بحران کو اس لئے بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی طرف سے مسلسل پیشکش کے باوجود ایران سے بجلی نہیں لی جا رہی ہے۔پاکستان میں ایران کے سفیر نے کئی بار کہا ہے کہ ایران فوری طور پر انتہائي کم قیمت پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے پر تیار ہے۔
ایرانی سفیر نے یہ بھی کہا ہے کہ ایرانی گیس اور بجلی کے خریدار بہت ہیں،لیکن وہ پاکستان کو اس کے قدموں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں،اب اگر پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونا چاہتا تو وہ کیا کریں۔
وسطی ایشیائی ریاست کی سستی بجلی سے فائدہ اٹھانے میں یہ عذر حائل رہا کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے اس باب میں مسائل ہیں۔مگر ایران کی انتہائي کم نرخوں پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں تامل کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ 
تہران اسلام آباد سے دیرینہ رابطوں اور تعاون کی وسیع تاریخ رکھتا ہے۔بلوچستان کے لئے پہلے ہی ایران سے 39 میگاواٹ بجلی آ رہی ہے جبکہ گوادر کے لئے 100 میگاواٹ بجلی کا معاہدہ بھی تکمیل کے قریب ہے۔دونوں ملکوں کے گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کے تحت ایرانی علاقے میں ایک ہزار کلومیٹر کی لائن بچھائی جا چکی ہے جبکہ پاکستانی عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے اپنے علاقے میں دو ہزار کلومیٹر لائن ڈالنے کے ضمن میں کیا کام ہوا ہے؟ اب ایرانی سفیر نے ایک ہزار میگاواٹ سستی بجلی کی پیشکش دہرانے کے ساتھ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں مدد دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
برادر اسلامی ملک نے امریکہ کے کیری لوگر بل کی طرح پاکستان کے وقار کے منافی شرائط عائد کرنے کی بجائے اس کے احترام کا اعادہ کیا ہے۔اس کے باوجود اس سستی بجلی کے حصول میں دلچسپی کا فقدان نظر آئے تو بعض حلقوں کی اس تاویل میں وزن نظر آنے لگتا ہے کہ شاید ایرانی پیشکش میں کمیشن کی وہ چاشنی شامل نہیں،جو عالمی مالیاتی اداروں کے اعتراض کے باوجود رینٹل پاور پراجیکٹس میں نظر آتی ہے اور جن کے معاہدوں کے بارے میں بھی غیر ملکی بجلی گھروں کی طرح یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ مطلوب بجلی کے حصول س زیادہ طے شدہ معاوضے کی ادائیگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے کہ پاکستان کو بحرانستان میں کس نے تبدیل کیا ہے۔اگر حکمران طبقے نے عوام کے اس مطالبے پر بہت جلد غور نہ کیا تو سڑکوں اور گلیوں میں ہونے والے مظاہرے حکمرانوں کے گھروں اور حکومتی ایوانوں تک پہنچ جائیں گے اور اسکے بعد دمادم مست قلندر ہو گا اور ۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 23555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش