0
Wednesday 3 Apr 2013 23:36

دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ڈاکٹرائن

دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ڈاکٹرائن
 

تحریر: ڈاکٹر نادر ساعد

اسلام ٹائمز- اسلامی جمہوری ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں اپنے ایک خطاب کے دوران ایران کے پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں انتہائی اہم نکات بیان فرمائے ہیں۔ ان اہم نکات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے متعلق ڈاکٹرائن کے بنیادی اصولوں، ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے مقابلے میں امریکہ کے دوغلے رویے اور مختلف حکومتوں کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور نگہداشت کو شرعی طور پر جرم قرار دینے جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

یہ اہم موضوعات نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام میں ترقی اور پیشرفت کی حکمت عملی کو مشخص کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے ایٹمی مذاکرات اور بین الاقوامی اداروں میں ایرانی موقف سے متعلق ایران کے فریم ورک اور ڈاکٹرائن کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مقالہ حاضر میں ان بعض اہم نکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

1. جوہری معاملات پر امریکہ کے دوہرے معیار:
امریکہ کے دوہرے معیار اسکی دوغلی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایٹمی معاملات پر امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی دو بڑی وجوہات ہیں:
ایک یہ کہ خود امریکہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہے اور ہر سال اپنے بجٹ کا بڑا حصہ نت نئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور تیار شدہ جوہری ہتھیاروں کی نگہداشت کے طریقوں کے سلسلے میں انجام پانے والی تحقیقات پر صرف کر دیتا ہے، لیکن ایران پر جو صرف اور صرف پرامن ایٹمی توانائی کے حصول کی خاطر اپنے اٹامک پاور پلانٹ کیلئے جوہری ایندھن کی تیاری میں مصروف ہے، عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کرتا نظر آتا ہے۔

دوسرا یہ کہ امریکہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی بھرپور اور بے چون و چرا حمایت کرتے ہوئے نہ صرف اسے جوہری میدان میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ اسے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے میں بھی سب سے آگے دکھائی دیتا ہے۔

آمریکہ بین الاقوامی قوانین خاص طور پر عالمی معاہدے ان پی ٹی (Non Proliferation Treaty) کی پہلی شق کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی اپنے اقدامات کا جائزہ لینے اور انکی اصلاح کرنے کی بجائے اور بیت المقدس پر قابض اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم پر ان پی ٹی معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے دباو ڈالنے کی بجائے ایسے ملک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے جو 40 سال سے زیادہ عرصے سے ان پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اسکی پابندی کرنے میں مصروف ہے اور اعلانیہ طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آ رہا ہے کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف "پرامن ایٹمی توانائی" کا حصول ہے۔

ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بقول: "امریکی ایک طرف تو یہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو کے سخت خلاف ہیں اور دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کی ذمہ داری کے دعویدار بھی ہیں لیکن ساتھ ہی ایک ایسی شرپسند رژیم یعنی اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کرتے ہیں جو نہ فقط ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ اسے استعمال کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے۔ وہ انکا ادعا ہے اور یہ انکا عمل"۔

2. پرامن ایٹمی توانائی کے حصول پر مبنی ایرانی ڈاکٹرائن کے بنیادی اصول:
اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اسٹریٹجی میں ایٹمی ہتھیاروں کو تیار نہ کرنا اور جوہری ہتھیاروں پر تکیہ نہ کرنا اس ملک کے اکلوتے اور مخصوص طرز تفکر اور اعتقادات کا نتیجہ ہے۔ اس عقیدے اور قومی تفکر کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیار عالمی استعماری نظام کے ہاتھ میں اقوام عالم پر ظلم و ستم کرنے، ظالمانہ نظام مسلط کرنے، انکے حقوق کو پامال کرنے اور انکی تحقیر کرنے کا بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں کو انسانی حقوق اور بشری زندگی کے خلاف بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور اس سوچ کی بنیاد پر اپنی قومی سلامتی کی پالیسی میں جوہری ہتھیاروں کیلئے کسی حیثیت کا قائل نہیں۔ بلکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں یا Weapons of Mass Destruction کے وجود اور انکی تیاری اور نگہداشت کیلئے کوشش کو ایسی حکومتوں اور رژیموں کے ساتھ مخصوص جانتا ہے جو دنیا میں کسی معنوی حیثیت کے مالک نہیں۔

لہذا جوہری ہتھیاروں پر صرف وہ حکومتیں بھروسہ کرتی ہیں جو اعلی انسانی اقدار سے عاری اور حقانیت اور مشروعیت سے تہی دامن ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں سے دوری اور اسکی تیاری اور نگہداشت کی مذمت، چاہے وہ جس ملک کی جانب سے بھی انجام پائے، دینی تعلیمات اور اسلامی عقائد پر مبنی ہے۔ ایران کا یہ فیصلہ بیرونی دباو یا عالمی طاقتوں کے مطالبے کا نتیجہ نہیں بلکہ دینی اقدار کو حاکم کرنے کے عزم اور قومی ارادے کی بنیاد پر استوار ہے۔

اس ضمن میں رھبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مندرجہ ذیل بیانات قابل غور ہیں:
"ملت ایران نے اپنے لئے ایمان دینی کو معیار، ملاک اور راہنما قرار دیا ہے"۔

"دینی تعلیمات کی پیروی قومی سلامتی پالیسیوں کا مرکز و محور ہے اور یہ اصول علمی ترقی اور ٹیکنولوجی میں پیشرفت، دوسرے شعبوں میں ترقی اور خارجہ سیاست سے مربوط پالیسیوں پر بھی حکمفرما ہے"۔

"ہم ایٹمی ہتھیار بنانا ہی نہیں چاہتے، نہ اس لئے کہ امریکہ ناراض ہوتا ہے بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ ہمارا عقیدہ راسخ ہے کہ جوہری ہتھیار انسانیت کے خلاف جرم ہے اور انکی تیاری ایک نادرست عمل ہے، وہ جوہری ہتھیار بھی جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں ختم ہونے چاہئیں۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے اور اسکا تم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ ہمارا عقیدہ نہ ہوتا اور ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ کر لیتے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی تھی، بالکل ایسے ہی جیسے دوسرے ممالک کو جوہری ہتھیار بنانے سے نہیں روک سکی، ھندوستان کو نہیں روک سکے، پاکستان کو نہیں روک سکے، شمالی کوریا کو نہیں روک سکے۔ یہ ممالک امریکی مخالفت کے باوجود جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں"۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کو روکنے کی امریکی صلاحیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ امریکہ اس مسئلے میں مکمل ناکامی کا شکار ہو چکا ہے اور اس میں یہ توانائی نہیں کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاو کو روک سکے۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول میں کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ ان ممالک کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ کی جانب سے خود کو طاقتور ظاہر کرنے کی کوششوں کا نتیجہ صرف اسکی اپنی بے آبروئی اور طاقت کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

چنانچہ دنیا کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر رہا تو اسکی وجہ امریکہ کی جانب سے دباو یا امریکی طاقت ہے۔ امریکہ کی طاقت صرف ظاہری حد تک ہے اور اندر سے کھوکھلی ہے۔ لہذا امریکی طاقت کی بنیاد پر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے عاری نہیں بنایا جا سکتا بلکہ امریکہ الٹا اپنی غلط ایٹمی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔

لہذا آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ اگر ہم جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ایران کو ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی، امریکہ ہر گز ایران کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
3. جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور نگہداشت انسانیت کے خلاف جرم:
امریکہ کی جانب سے جھوٹے اور بے بنیاد دعوے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کو روکنے کیلئے ہرگز موثر نہیں ہو سکتے۔ ایسا ملک جو خود ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو میں ملوث ہے کس طرح انہیں روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے؟

ہاں اگر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور انکی نگہداشت کو "بین الاقوامی جرم" کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو یہ امر "جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا" والے ایرانی نظریے کے جامہ عمل پہننے میں انتہائی موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور نگہداشت کا بین الاقوامی سطح پر جرم قرار پانے سے امریکہ سمیت تمام ایسے ممالک کے خلاف جو اس جرم میں ملوث ہیں قانونی طور پر کاروائی کی جا سکتی ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور انکی نگہداشت کی مجرمانہ نوعیت ان ایشوز میں سے ایک ہے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کئے جانے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے اور دنیا کے تمام روشن فکر افراد اسکی حمایت کرتے ہیں۔ یہ مجرمانہ نوعیت نہ فقط ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور نگہداشت پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے بلکہ ایک ملک کی جانب سے دوسرے ممالک کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی مقدار یا کیفیت بڑھانے میں معاونت بھی اسکے ذریعے کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس قسم کے ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے، نسل کشی کرنے اور بشریت کے خلاف جنگی جرائم انجام دینے کا وسیلہ ہیں اور یہ تمام اقدامات بین الاقومی سطح پر سنگین جرائم کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔

رھبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ایران کی اسٹریٹجی کو بیان کرتے ہوئے اس عمل کو بشریت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ واضح ہے کہ جب ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری انسانیت کے خلاف جرم قرار پا چکی ہے تو انکا استعمال اس سے کہیں بڑا جرم ثابت ہوتا ہے۔ ملت ایران جو خود اسی قسم کے ہتھیاروں (کیمیکل ہتھیاروں) کا نشانہ بن چکی ہے، نے ایسے مجرمانہ اقدامات اور فیصلوں سے دوری اختیار کی ہوئی ہے۔

آج وہ حکومتیں جو خود کو اپنے سیاسی مخالف ممالک کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کی ٹھیکیدار ظاہر کرتی ہیں اور اس ضمن میں لمبے چوڑے دعوے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، خود جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک میں سرفہرست ہیں۔ نہ فقط سرفہرست ہیں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں بھی دنیا میں واحد اور اکلوتی ہیں۔ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی دعویدار حکومتیں مسلسل دوسرے ممالک کو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے نہ فقط خود کو جوہری ہتھیاروں سے دور کر رکھا ہے اور انکی تیاری سے پرہیز کر رہا ہے بلکہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا خواہاں بھی ہے۔ دنیا کو صرف اسی صورت میں جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جا سکتا ہے جب دنیا کے تمام ممالک اپنی پوری نیک نیتی کے ساتھ اس ہدف کے حصول میں کوشاں ہو جائیں۔

4. امریکی اسٹریٹجی، مذاکرات یا مقدمہ؟
اگرچہ ڈپلومیٹک اور عمومی حلقوں میں مذاکرات انتہائی جذابیت اور مقبولیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ میں مغربی ممالک خاص طور امریکہ نے مذاکرات کے معنا اور مفہوم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مغربی حکام مذاکرات کے بہانے اپنے مطالبات مسلط کرنے کے درپے نظر آتی ہیں۔ انہیں جب بھی اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مذاکرات کو تعطل کا شکار کر دیا اور ایران کے خلاف وعدہ شکنی اور افہام و تفہیم کا راستہ ترک کرنے جیسے الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگیں۔ لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو باہمی احترام، برابری اور مفاہمت کے حصول میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہر مذاکرات کے بنیادی اصولوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

مذاکرات کوئی عدالتی کاروائی نہیں جس میں ایک طرف دوسرے پر مقدمہ چلانے کی کوشش کرے۔ یسی صورت میں جب ایک طرف اپنے غیرقانونی اور ناجائز مطالبات منوانے پر مصر ہو اور اپنے موقف میں ذرہ بھر نرمی کرنے پر بھی راضی نہ ہو اور اسکا مطالبہ بھی یہ ہو کہ اسکے تمام مطالبات من و عن قبول کر لئے جائیں تو مذاکرات ایک عدالتی کاروائی کے مصنوعی سانچے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتے۔ مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری تنازعات کے بارے میں گذشتہ ایک عشرے سے جاری مذاکرات کا مختصر جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک فقط اور فقط اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے درپے ہیں اور طرف مقابل کو چھوٹے سے چھوٹا امتیاز دینے پر بھی راضی نہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے ایران کے خلاف مذاکرات کے آڑ میں انجام پانے والے اس مقدمے کے بارے میں یوں فرمایا ہے:
"امریکہ اور تسلط پسند طاقتوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ آو بیٹھ کر گفتگو کریں تاکہ آپ ہمارے مطالبات مان لیں، انکے نزدیک مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ گفتگو انجام دیں تاکہ اسکے نتیجے میں ہمارے وہ مطالبات جنہیں آپ ماننے سے گریز کر رہے تھے بالآخر تسلیم کر لئے جائیں، کہتے ہیں آئیں گفتگو کریں تاکہ ایران ہماری بات مان لے"۔

نتیجہ گیری:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملت ایران اور ایرانی حکام مغرب کی چالوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ ہر گز "مذاکرات برائے مذاکرات" یا "مغربی مطالبات کو خود پر ٹھونسنے کی خاطر مذاکرات" یا "پرامن ایٹمی پروگرام کو متوقف کرنے کی خاطر مذاکرات" کو قبول نہیں کریں گے اور پرامن مقاصد کے حصول کیلئے یورینیم انرچمنٹ پر مبنی اپنے مسلمہ، ذاتی اور عالمی حقوق سے ہر گز دستبردار نہیں ہوں گے۔

مغربی طاقتیں بھی ملت ایران کے مقابلے میں اپنے گذشتہ تجربات کی روشنی میں اس عظیم قوم کی طاقت کو اچھی طرح درک کر چکی ہیں۔ ایرانی قوم نے گذشتہ تیس سالوں کے دوران شدید سیاسی دباو کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے علاوہ علمی ترقی کی راہ میں درپیش عظمیم مشکلات اور موانع کو بھی پوری کامیابی سے عبور کیا ہے۔

لہذا امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے ناجائز اور ظالمانہ مطالبات سے دستبردار ہوتے ہوئے پرامن ایٹمی توانائی کے حصول پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلمہ حق کو دل و جان سے قبول کر لیں۔ اس ضمن میں وہ پارٹی جسے اپنی غیرقانونی ضد سے ہاتھ اٹھانا ہو گا مغربی ممالک اور امریکہ ہے نہ اسلامی جمہوریہ ایران۔
خبر کا کوڈ : 240847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش