QR CodeQR Code

گوادر میں پاک ایران آئل ریفائنری، اہم پیش رفت

21 Feb 2013 22:08

اسلام ٹائمز: گوادر میں آئل ریفانری کی خبر کے بعد پاکستان اور ایران کے مابین برھتے ہوئے تعاون کے خلاف ہونے والی افواہیں بھی دم توڑ جائیں گی کہ چین کے ساتھ معاہدے کے ردعمل کے طور پر اگر بھارت اور ایران چاہ بھار بندر گاہ پر کام شروع کر دیتے ہیں تو افغانستان اور مشرق وسطٰی کے ممالک، جو اب تک سمندر تک رسائی اور تجارت کے لئے پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال کرتے ہیں اور جس سے پاکستان کو کثیر زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہ پاکستان کے بجائے ایران کے ذریعے تجارت کریں گے اور پاکستان کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ مزید یہ پروپیگنڈہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا کہ مشرق وسطٰی، روس، ایران اور بھارت کا گٹھ جوڑ پاکستان اور اس سے کہیں بڑھ کر چین کے مفادات کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

مکران کے ساحل پر واقع گوادر بندرگاہ ایک اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل سمندری چوکی ہے۔ یہ توانائی کی دولت سے مالامال مگر غیر مستحکم خلیجی علاقوں کے قریب اور آبنائے ہرُمز سے تقریباً 400 کلومیٹر دور واقع ہے، جہاں سے روزانہ 16 سے 17 ملین بیرل تیل مختلف ملکوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اوسطاً 20 سے 30 ٹینکرز روزانہ خلیج میں داخل ہوتے ہیں اور عروج کے گھنٹوں میں ہر چھ منٹ میں ایک ٹینکر یہاں سے گزرتا ہے۔ چین کی سمندری جمع تفریق میں بھی گوادر کا ایک خاص اور اہم مقام ہے۔ اسی لیے چین نے گوادر کے قیام کی کل لاگت 248 ملین ڈالرز میں سے دل کھول کر 198 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ چین جدید بندرگاہیں بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لئے چین کی کچھ اپنی بندر گاہیں بھی دنیا کی بہترین اور جدید ترین 10 بندرگاہوں میں شمار ہوتی ہیں۔

یہ بندر گاہ پاکستان کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل تو ہے ہی، لیکن گوادر چین کے لئے کئی اقتصادی اور فوجی فوائد کا حامل ہے۔ چین ایران سے حاصل ہونے والے تیل کو ایران پاکستان پائپ لائن کے ذریعے بآسانی چین تک پہنچا سکتا ہے۔ خلیجی ممالک سے حاصل کردہ تیل بھی گوادر کے ذریعے چین تک آسانی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے چین کو گوادر سے سنکیانگ تک 1500 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی پیشکش بھی کی ہے، جس پر چین ابھی غور کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر چین گوادر آئل رفائنری پراجیکٹ پر بھی دوبارہ کام کرنے پر آمادہ ہے، جسے اس نے 2009ء میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں اور چینی انجینئرز کے اغوا کے نتیجے میں ملتوی کر دیا تھا۔

فوجی نقطۂ نظر سے بھی گوادر ایک اسٹریٹیجک لسننگ پوسٹ ہے، جس کے ذریعے خلیج میں مختلف ممالک کی تمام سمندری اور بحریہ کی حرکات پر قریبی نظر رکھی جاسکتی ہے۔ گوادر کے ذریعے چین کی PLA NAVY اپنے بحری جہازوں اور آبدوزوں کو آگے تعینات کرکے تیل اور دوسرا قیمتی سامان لے کر آنے والے اپنے بحری جہازوں اور بحیرہ عرب میں اپنے فوجی و اقتصادی مفادات کی بہتر انداز میں نگرانی اور حفاظت کرسکتی ہے۔ تاہم 1971ء میں بھارت کی جانب سے کراچی پر کئے گئے کامیاب حملے کے بعد چین کراچی کو Forward Naval Base کے لئے مناسب نہیں سمجھتا اور اسی لئے پاکستان اور چین نے مل کر بحری اڈے کے لئے گوادر کا انتخاب کیا، جو کراچی سے 600 کلو میٹر مغرب میں واقع ہے اور بھارتی ہوائی جہازوں کی بمباری سے محفوظ تصور کی جاتی ہے۔

گوادر کی تعمیر اور وہاں چین کی موجودگی سے بھارت کی جانب سے ملا جلا رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ یہ (بھارت کیلئے) تشویش کی بات ہے مگر انہوں نے بھارت کے لئے کسی قسم کے خدشات کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف چینی وزیر خارجہ نے گوادر میں اپنی موجودگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ چینی کمپنیوں کا گوادر کی تعمیر میں کردار رہا ہے اور چین ایسا تب تک کرتا رہے گا جب تک یہ پاک چائنہ تعلقات کے لئے مثبت اور چین کی ترقی کے لئے اہم ہے۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان اور خطے کے لیے تزویراتی اہمیت کی حامل پیش رفت سامنے آئی ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان اور ایران کے درمیان گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کا معاہدہ ہے۔

بدھ کے روز مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور ایرانی وزیر پٹرولیم کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گوادر میں آئل ریفائنری لگانے پر اتفاق ہوگیا ہے اور یہ ریفائنری ایرانی کمپنی اور پی ایس او کے باہمی اشتراک سے لگائی جائے گی اس ریفائنری کی پیداواری صلاحیت 400 بیرل یومیہ ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی وفد آج ایران روانہ ہو رہا ہے، جو گیس پائپ لائن معاہدے کو حتمی شکل دے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر مذاکرات کا آئندہ دور چوبیس گھنٹے میں متوقع ہے، مذاکرات میں اب گیس پائپ لائن کے علاوہ خام تیل اور ایل پی جی کی درآمد کے معاملات بھی شامل ہوں گے۔ مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کے مطابق اس دفعہ کا تعین بھی اب رواں ماہ کی 22 تاریخ کی بجائے یکم مارچ کو ہوگا۔

اس تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ 2012ء میں افغانستان، ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بھار کو تعمیر کرنے کا ایک سہ فریقی معاہدہ طے پا چکا ہے۔ بھارت اس منصوبے میں 100 ملین ڈالر تک کی سرمایہ داری کرنے کی خواہش رکھتا ہے، پر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ منصوبے میں ایران بنیادی ڈھانچوں اور جدید سہولیات کو کتنا وسیع رکھنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ چاہ بھار بندرگاہ کو سڑک اور ریل کے ذریعے International North-South Transport Corridor سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے جو ایران، بھارت اور روس کے درمیان طے پانے والا بین الاقوامی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ چاہ بہار کو 600 کلومیٹر روڈ کے کے ذریعے افغانستان اور زاہدان کے مابین trans-shipment hub کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے مشرق وسطٰی کے landlocked ممالک کو سمندر تک پہنچ بھی دی جاسکتی ہے۔ بھارت پہلے سے اس منصوبے کے حوالے سے پچھلے سال کرغزستان میں کئی اعلانات کر چکا ہے۔

اسی لیے پاکستان کے ذمہ دار حلقوں میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گوادر میں چینی موجودگی کے بعد اب بھارت بھی اس بات کی کوشش کرے گا کہ بھارت خلیجی ممالک میں فوجی اہمیت کے حامل بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں حصہ لے گا۔ ان میں سب سے آگے ایرانی بندرگاہ چاہ بھار کی تعمیر کا مشترکہ منصوبہ ہے جو ایران، بھارت اور افغانستان کے اشتراک سے بنائے جانے کا امکان ہے۔ چاہ بھار گوادر سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ لیکن مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور ایرانی وزیر پٹرولیم کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ان خدشات کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔

گوادر میں آئل ریفانری کی خبر کے بعد پاکستان اور ایران کے مابین برھتے ہوئے تعاون کے خلاف ہونے والی افواہیں بھی دم توڑ جائیں گی کہ چین کے ساتھ معاہدے کے ردعمل کے طور پر اگر بھارت اور ایران چاہ بھار بندر گاہ پر کام شروع کر دیتے ہیں تو افغانستان اور مشرق وسطٰی کے ممالک، جو اب تک سمندر تک رسائی اور تجارت کے لئے پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال کرتے ہیں اور جس سے پاکستان کو کثیر زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہ پاکستان کے بجائے ایران کے ذریعے تجارت کریں گے اور پاکستان کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ مزید یہ پروپیگنڈہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا کہ مشرق وسطٰی، روس، ایران اور بھارت کا گٹھ جوڑ پاکستان اور اس سے کہیں بڑھ کر چین کے مفادات کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔


خبر کا کوڈ: 241524

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/241524/گوادر-میں-پاک-ایران-آئل-ریفائنری-اہم-پیش-رفت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org