0
Monday 4 Mar 2013 13:16

خارجیت کا تاریخی سفر(1)

خارجیت کا تاریخی سفر(1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

خوارج یعنی؟
خروج کرنے والے۔ یہ تو اس لفظ کے لغوی معنی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی کے مطابق خوارج کی اصطلاحی تعریف درج ذیل ہے:
الخوارج: فھم جمع خارجۃای طائفۃ، وھم قوم مبتدعون سموا بذلک لخروجھم عن الدین، و خروجھم علی خیار المسلمین۔1
’’خوارج، خارجۃ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے : ’’گروہ۔‘‘ وہ ایسے لوگ ہیں جو بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کو (اپنے نظریہ، عمل اور اِقدام کے باعث) دین اسلام سے نکل جانے اور خیارِ اْمت کے خلاف کارروائیاں کرنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔ 

خوارج کی نشانیاں

خوارج مخالف مسلمانوں کی تکفیر، بےگناہ مسلمانوں کے قتل، خواتین اور بچوں کے قتل، عام مسلمانوں میں دہشت پھیلانے، املاک پر حملے اور ان کی تباہی نیز ظاہراً دینی منشور، مذہب میں شدت پسندی وغیرہ کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گروہ کی چند ایک نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو آج بھی کتب احادیث میں محفوظ ہیں۔ ان نشانیوں میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے:
وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مومنین پر کریں گے۔2   
مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔3
غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔4
عبادت میں بہت متشدد اور غلو کرنے والے ہوں گے۔5 

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو کمسن لڑکے ہوں گے اور وہ عقل سے کورے ہوں گے۔ وہ ظاہراً (دھوکہ دہی کے لیے) اسلامی منشور پیش کریں گے، ایمان ان کے اپنے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔6 
امام احمد بن حنبل، ابوداود اور ابن ماجہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ رونما ہوگا عین اس وقت ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو اپنے قول اور نعرے میں اچھے ہوں گے مگر اپنے طرزعمل اور روش میں نہایت برے ہوں گے۔۔۔۔ وہ ساری مخلوق میں بدترین لوگ ہوں گے، خوش خبری ہو اْسے جو انہیں قتل کرے گا اور اْسے بھی جسے وہ شہید کریں گے۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا؛ ان کا قاتل ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔7 

خوارج کی شدت پسندانہ اور باغیانہ ذہنی کیفیت کی وضاحت حضرت علی علیہ السلام کے خوارج سے درج ذیل خطاب سے ہوتی ہے:
’’ہمیں بتاؤ کہ تم کس وجہ سے ہمارے ساتھ جنگ کو حلال سمجھتے ہو اور ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہو؟ پھر تم معصوم لوگوں کی گردنیں مارنے کے لئے سامنے آ جاتے ہو۔ یقیناً یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت کی قسم! اگر تم اس ارادے سے کسی مرغی کو بھی قتل کرو گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں یہ برا کام ہوگا۔ اس لیے غور کرو کہ پھر اْس انسان کو قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا جس کا خون بہانا اللہ نے حرام قرار دیا ہے؟‘‘۔8 

امیر المومنین (ع) کا خوارج سے برتاؤ
صفین میں واقعہ تحکیم کے بعد خوارج لشکر اسلام سے جدا ہو گئے ۔ایک خارجی یزید بن عاصم محاربی نے وقت خروج یوں کلام کیا:
’’تمام حمد اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے جس سے ہم مستغنی نہیں ہوسکتے۔ یا اللہ! ہم اس امر سے پناہ مانگتے ہیں کہ اپنے دین کے معاملے میں کسی قسم کی کمزوری اور خوشامد سے کام لیں کیونکہ اس میں ذلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرف لے جاتی ہے۔ اے علی! کیا تم ہمیں قتل سے ڈراتے ہو؟ آگاہ رہو! اللہ کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ ہم تمہیں تلواروں کی دھار سے ماریں گے تب تم جان لوگے کہ ہم میں سے کون عذاب کا مستحق ہے۔‘‘9 

خوارج کی جانب سے جناب امیر (ع)کو لکھے گئے ایک خط سے اقتباس ۔
’’اب تمہارا غضب خدا کے واسطے نہیں ہے اس میں تمہاری نفسانیت شریک ہے۔ تم اب بھی اگر اپنے کفر کا اقرار کرتے ہو اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تم کو دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔10 
خارجیوں کے لشکر اسلام سے جدا ہونے کے باوجود امیر المومنین (ع) نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا، مبادا کہ ان کے ذہنوں میں پیچیدگیاں باقی رہیں اور وہ دوبارہ حق کی جانب پلٹ آئیں۔ اس مقصد کے لیے علی (ع) نے متعدد قاصد بھیجے جن میں عبداللہ ابن عباس، قیس بن سعد بن عبادہ اور ابو ایوب انصاری رضوان اللہ علیھم اجمعین قابل ذکر ہیں۔ اسی دوران اس گروہ نے حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کو کافر نہ کہنے پر ذبح کر دیا۔ عبد اللہ بن خباب کو قتل کرنے کے بعد یہ گروہ ان کی حاملہ بیوی کی جانب بڑھے۔ خاتون نے کہا کہ میں عورت ہوں، کیا تم (میرے معاملے میں) اللہ سے نہیں ڈرتے؟ جوابا انہوں نے ان کا پیٹ چاک کر ڈالا اور (ان سے ہمدردی جتانے پر) قبیلہ طے کی تین خواتین کو بھی قتل کر ڈالا۔‘‘11
جب حضرت علی علیہ السلام کو حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے حارث بن مرہ العبدی کو خوارج کے پاس درست حالات کی جانچ پڑتال کے لیے بھیجا کہ معلوم کریں کیا ماجرا ہے؟ جب وہ خوارج کے پاس پہنچے اور حضرت عبداللہ کو شہید کرنے کا سبب پوچھا تو خوارج نے انہیں بھی شہید کر دیا۔ 12 
جاری ہے 

حوالہ جات

1۔ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12 : 283
2۔بخاری، الصحیح، کتاب، استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم، 6 : 2539
3۔بخاری، الصحیح، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی : تعرج الملائکۃ والروح الیہ، 6 : 2702، رقم : 6995
4۔حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657
5۔ابویعلی، المسند، 1 : 90، رقم : 90
6۔بخاری، الصحیح، کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم، 6 : 2539، رقم : 6531، مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066،احمد بن حنبل، المسند، 1 : 81، 113، 131، رقم : 616، 912، 1086، نسائی، السنن، کتاب تحریم الدم، باب من شھر سیفہ ثم وضعہ فی الناس، 7 : 119، رقم : 4102، ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب فی ذکر الخوارج، 1 : 59، رقم : 168
7۔ابوداود، السنن، کتاب السنۃ، باب فی قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765، ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب فی ذکر الخوارج، 1 : 60، رقم : 169،احمد بن حنبل، المسند، 3 : 224، رقم : 13362، حاکم، المستدرک، 2 : 161، رقم : 2649، بیھقی، السنن الکبری، 8 : 171
8۔ ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، 3 : 220، ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 7 : 226
9۔ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 3 : 313
10۔ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 3 : 217
11۔ ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، 3 : 219، طبری، تاریخ الامم والملوک، 3 : 119، ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 7 : 288
12۔ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، 3 : 219
خبر کا کوڈ : 243984
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش